پارہ نمبر نو کا خلاصہ(1)-افراءعبدالفرید

پارہ نمبر 9 قرآن مجید میں کال (قال الملا )سے ماخوذ ہے اس پارے میں دو سورتیں ہیں
سورہ الاعراف
سورہ لانفال۔

سورہ الاعراف
اعراف ،عرف کی جمع ہے،جس کے معنی بلندی اور اونچائی کے آتے ہیں،سورہ الاعراف اس اعتبار سے قرآن کریم کی سب سے بڑی مکی سورت ہے کہ اس سورہ المبارکہ میں205 یا 206 آ یات ہیں سورہ الاعراف ویسے تو مکی سورت ہے مگر واسئلھم عن القریہ سے اس سورہ مبارکہ کی آٹھ یا پانچ آیات مدنی ہیں اس سورہ مبارکہ میں 24 رکوع ہیں قرآنی اعتبار سے یہ سورہ مبارکہ ساتویں نمبر پر آتی ہے اور نزول کے اعتبار سے اس کا نمبر وہی ہے جو سورہ انعام کا ہے یہ سورت مبارکہ پارہ نمبر 9میں( 88-205 یا 206) آیات تک ہے اس سورت کا بقیہ حصہ یعنی( 1-87) آیات پارہ نمبر 8 میں ہے اس سورہ مبارکہ میں مشرکین اور اہل کتاب جہل وعناد اور کفر و فساد کا تذکرہ اور اس کے متعلق مباحث کا بیان ہے اس سورۃ مبارکہ میں 3344الفاظ ہیں اور 14071 حروف ہے اس سورت کا نام اعراف اس لیے رکھا گیا ہے کہ آیت46 40 اور 47 میں اعراف اور اصحاب کا ذکر آیا ہے گویا اسے سورۃالاعراف کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ سورت جس میں اعراف کا ذکر ہے

سورہ انفال
انفال نفل کی جمع ہے جس کے معنی فضل و انعام کے آتے ہیں سورۃ الا نفال مدنی ہے مگر واذیمکروبک سے اس سورہ مبارکہ کی سات آیات مکی ہیں اس سورۃ مبارکہ میں 75 یا 76 77 آیات ہیں اور دس رکوع ہیں قرآنی اعتبار سے یہ سورہ مبارکہ آٹھویں نمبر پر آتی ہے اور نزول کے اعتبار سے یہ سورت دو ہجری میں جنگ بدر کے بعد نازل ہوئی یہ سورہ مبارکہ پارہ نمبر 9 میں ایک سے 40 آیات تک ہے اس سورت کا بقیہ حصہ یعنی 75سے لے کر 41 آیات پارہ نمبر 10 میں ہیں اس سورۃ مبارکہ میں زیادہ تر مضامین غزوہ بدر کے موقع پر انہیں لوگوں کے انجام بد ، ںکناکامی اور شکست اور ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی کامیابی اور فتوحات سے متعلق ہیں جو مسلمانوں کے لیے احسان و انعام اور کفار کے لیے عذاب انتقام تھا اس سورہ مبارکہ میں 1243 الفاظ ہیں اور 5299 حروف ہے اس سورت کی پہلی آیت میں انفال کا لفظ بروئے کار لانے اور انفال کے احکام بیان ہونے کی وجہ سے اسے انفال کا نام دیا گیا ہے اس سورت میں انفال کے احکام اور عمومی ثروت، خمس ،جہاد ،مجاہدوں کی ذمہ داری، اسیروں سے نیک برتاؤ، جنگی تیاری کی ضرورت اور مومن کی نشانیوں کی طرف اشارہ ہوا ہے

پارہ نمبر 9 کے اہم مضامین
سورۃ اعراف
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم 88تا 93
انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کے لئے عذاب 94تا95
تقوی اختیار کرنے والوں کے لیے خوشحالی 96
ہمارے لئے درس عبرت 97تا102
قصہ موسی و ہارون علیہ السلام اور بنی اسرائیل 103تا141
حضرت موسی علیہ السلام کا کوہ طور پر بلاوا142تا143
تورات کا نزول اور اس کی افادیت 144تا145
تکبر کرنے والوں کا نتیجہ 146 تا 147
بنی اسرائیل اور بچھڑے کی پوجا 148تا 154
حضرت موسی علیہ السلام کی ایمان افروز دعا 155تا156
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی عمومیت 157تا159
بنی اسرائیل پر مزید احسانات کا تذکرہ 159تا162
سمندر کے کنارے بسنے والوں کا تذکرہ 163تا169
اللہ کے محبوب بندوں کی تین صفات 170
طور پہاڑ کے نیچے عہد 171
عہداللہ کا تذکرہ 172تا174
اسرائیلی عالم کا تذکرہ 175تا178
غافل لوگ جانوروں سے بدتر ہیں 179
اسمائے حسنیٰ کا تذکرہ 180
درس عبرت 181تا186
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اعتراف عاجزی و بے بسی 187تا188
انسانوں کی ناشکری189تا190
معبودان باطل کی لاچارگی 198تا191
عفو درگذر کی تلقین 199تا202
معجزات کی طلبی اور اللہ کا جواب203
سماعت قرآن کے آداب204
اللہ کے ذکر کے آداب 205تا206
سورہ انفال
مال غنیمت کے احکام 1
ایمان والوں کی صفات 2تا4
غزوہ بدر کا تفصیلی تذکرہ 5 تا25
مجاہدین کی عظمت 26تا28
تقوی کی برکات 29
مشرکین کےناپاک ارادے اور ان کا انجام30تا40

سورہ اعراف
مضمون نمبر1
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم 88تا93
سورہ اعراف کی آیت نمبر 85تا93 تک حضرت شعیب علیہ السلام اور انکی قوم کا ذکر ہے حضرت شعیب علیہ السلام کی وہ قوم تھی جو تجارت میں اپنا جواب نہیں رکھتی تھی مگر انہوں نے بددیانتی کے ہزاروں طریقوں کو رواج دے کر معاشرے کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا اس تجارتی بددیانتی کے ساتھ کفر و شرک میں بھی وہ کسی قوم سے پیچھے نہ تھے اس قوم کی اصلاح کے لئے اللہ تعالی نے حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا حضرت شعیب علیہ السلام جس قوم کی طرف مبعوث کیے گئے تھے اس قوم کا نام قرآن کریم میں کہیں اصحاب مدین، آیا ہے کہیں ایکہ۔۔۔ بعض مفسرین نے ان دونوں کو الگ الگ قومیں قرار دیا ہے کیونکہ اصحاب مدین پر جو عذاب آیا ہے اس کو قرآن نے میحہ اورجفہ یعنی (چنگھاڑ ۔زلزلہ) کہا ہے اور اصحاب ایکہ پر جو عذاب آیا ہے اس کو ظلہ (سائبان یا آسمان سے بارش) کہا ہے لیکن بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ایک ہی قوم کے دو نام ہے ( 1)
مشہور مور خ حضرت امام محمد بن اسحاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں یہ لوگ مدین بن ابراہیم کی نسل سے ہیں حضرت شعیب علیہ السلام میکیل بن عیشجر کے لڑکے تھے ان کا نام سریانی زبان میں یز ون تھا یہ یاد رہے کہ اس قبیلے کا نام بھی مدین تھا اور بستی کا نام بھی یہی تھا یہ شہر معان سے ہوتے ہوئے حجاز والے راستے پر آتا ہے حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی تمام رسولوں کی طرح انہیں توحید کی دعوت دی اور فرمایا کہ اللہ کی طرف سے میری نبوت کی دلیلیں تمہارے سامنے آچکی ہیں اور فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کی عادت چھوڑ دو ،لوگوں کے حقوق نہ مارو کہو کچھ اور کرو کچھ یہ خیانت ہے پھر حضرت شعیب علیہ السلام کا اور وعظ بیان ہوتا ہے ہے آپ کو بہ سبب فصاحت اور عمدگی واعظ کے خطیب الانبیاء کہا جاتا تھا (2)
آپ فرماتے ہیں کہ مسافروں کے راستے میں دہشتگردی نہ پھیلاؤ ،ڈاکخانہ ڈالو اور انہیں ڈرا دھمکا کر ان کا مال زبردستی نہ چھینو،میرے پاس ہدایت حاصل کرنے کے لیے جو آنا چاہتا ہے اسے خوفزدہ کر کے روک دیتے ہو، ان تمام برائیوں سے بچو ۔ تم میں سے ایک گروہ مجھ پر ایمان لا چکا ہے اور ایک گرو نے میرا انکار اور بری طرح مجھ سے کفر کیا ہے اب تم خود دیکھ لو گے کہ مدد بانی کس کا ساتھ دیتی ہے ( 3)
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے سرداروں نے آپ کی نصیحتوں کے جواب میں کہا کہ تجھے اور تیرے ساتھیوں کو ہم دو باتوں میں سے ایک کا اختیار دیتے ہیں یا تو جلاوطنی قبول کرو یا ہمارے مذہب میں آ جاؤ حضرت شعیب علیہ السلام نے سرداروں کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے فرمایا اگر ہم جلاوطنی قبول کرنا اور تمہارے مذہب کی طرف لوٹنا نہیں چاہیں تو بھی تو ہمارے ساتھ ایسا کرو گے ہاں اگر اللہ چاہے تو بات اور ہے (4 )
اس قوم کے سرداروں نے اہل مدین سے کہا کہ اگر تم حضرت شعیب علیہ السلام کا ساتھ دو گے اور ان کی پیروی کروگے تو برباد ہو جاؤں گے لیکن اس کے برعکس جن لوگوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کو جھٹلایا وہی برباد ہوکر رہ گئے۔ ( 5)
متعد آیات کے جمع کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان پر ظلہ، صحیحہ، رجفہ تین طرح کے عذاب آئے یعنی اول بادل نے سایا کر لیا جس میں آ گ کے شعلے اور چنگاریاں تھیں پھر آسمان سے سخت ہولناک اور جگر پاش آواز ہوئی اور نیچے سے زلزلہ آیا( ابن کثیر)۔ ( 6)
اور کفر کرنے والے اپنے گھروں میں اوندھے کے اندھے پڑے رہ گئے جیسے کبھی بسے ہی نہ تھے حضرت شعیب علیہ السلام یہ کہہ کر بستیوں سے نکل گئے” اے میری قوم میں نے تمہیں حق کی دعوت دی تھی جو تم نے قبول نہیں کی اب میں ایسی قوم پر کیا افسوس کروں جو حق کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے ( 7)

مضمون نمبر 2
انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کے لئے عذاب 94تا95
سورہ اعراف کی آیت نمبر 94 اور95 میں انبیاء کی تکذیب کرنے والوں کا ذکر ہےکہ پیغمبروں کی بعثت کے وقت جب عموما لوگ تکذیب و مقابلہ سے پیش آتے ہیں تو خدا کی طرف سے ابتدائی تنبیہ کے طور پر بیماری کی شدت اور مختلف قسم کی سختیاں اور تکلیف مسلط کی جاتی ہیں تاکہ وہ باز آ جائیں اور جب وہ ان تنبیہات کا اثر قبول نہیں کرتے تو سختیوں اور مصیبتوں کو ہٹا کر ان پر فراخی وعشرت آجاتی ہے تاکہ وہ شکر کریں یا احسانات سے متاثر ہو کر کچھ شرم کر لیں اور حضرت ربوبیت کی طرف متوجہ ہوں یا عیش و ثروت کے نشے میں چور ہو کر بالکل ہی غافل اور بدمست بن جائیں گویا جہاں صحت، اولاد ،دولت اور حکومت بڑھتی جائے اسی کے ساتھ ان کی نخوت وغفلت میں بھی ترقی ہو جاتی ہے کہ پچھلی سختیوں کو یہ کہہ کر فراموش کردیتے ہیں کہ تکلیف اور راحت کا سلسلہ تو پہلے ہی سے چلا آ رہا ہے ہے کفر تکذیب کو اس میں کچھ دخل نہیں ورنہ اب خوشحالی کیوں حاصل ہوتی یہ سب زمانہ کے اتفاقات ہیں جو ہمارے اسلاف کو بھی پیش آتے رہے ہیں اس حد تک پہنچ کر ان کی طرف خدا کا عذاب آ جاتا ہے جس کی انہیں خبر بھی نہیں ہوتی حضرت شاہ صاحب نے کیا خوب لکھا ہے بندہ کو دنیا میں گناہ کی سزا پہنچتی رہے تو امید ہے کہ وہ توبہ کرلیں اور جب گناہ راس آگیا تو یہ اللہ کا بہلاوہ ہے پھر ڈررہے ہلاکت کا جیسے کسی نے زہر کھایا اگل دے تو امید ہے اور اگر بچ گیا تو کام آخر ہوا( 8)
خلاصہ یہ کہ نہ انہوں نے تنگ دستی اور سختی سے عبرت لی ورنہ خوشحالی اور نعمتوں سے نوازے جانے پرشکرگزار ہوئے لہذا اللہ تعالی نے اچانک ان کے گرفت فرمائی نزول عذاب کا پتہ بھی نہ چلا اور مبتلائے عذاب ہو کر ہلاک ہو گئے(9)

مضمون نمبر 3
تقوی اختیار کرنے والوں کے لیے خوشحالی96
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 94 میں تقوی اختیار کرنے والوں کے لیے خوشحالی کا ذکرہے اللہ تعالی نے بیان فرمایا کہ ایمان وتقوٰی ایسی چیز ہے کہ جس بستی کے لوگ اسے اپنا لیں تو ان پر اللہ تعالی آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے یعنی حسب ضرورت انہیں آ سمان سے بارش مہیا فرماتا ہے اور زمین اس سے سیراب ہو کر خوب پیداوار دیتی ہے جس سے خوشحالی اور فراوانی ان کا مقدر بن جاتی ہے لیکن اس کے برعکس تکذیب اور کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قومیں اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہر جاتی ہیں پھر پتہ نہیں ہوتا کہ شب و روز کی کس گھڑی میں عذاب آ جائے اور ہنستی کھیلتی بستیوں کوآن واحد میں کھنڈرات بنا کر رکھ دے اس لئے اللہ تعالی کی ان تدبیروں سے بے خوف نہیں ہونا چاہیے اس بے خوفی کا نتیجہ سوائے خسارے کے اور کچھ نہیں (10)

مضمون نمبر 4
ہمارے لئے درس عبرت97تا102
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 97 سےاللہ پاک نے ہمارے لیے درست عبرت فرمایا اللہ فرما رہا ہے کہ کیا وہ لوگ اس سے عبرت حاصل نہیں کرتے جو آج ان بستیوں کے رہنے والوں کے وارث ہیں اگر ہم چاہتے تو ان کو ان کے گناہوں کی وجہ سے پکڑ لیتے ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور وہ حق کی بات نہیں سنتے اللہ مزید فرمارہا ہے اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ بستیاں ہیں جن کے کچھ حالات ہم آپ کو سنا رہے ہیں ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آتے رہے مگر ایسا نہیں ہوا کہ جس بات کو وہ جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان لے آتے اس طرح اللہ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے اور ہم نے اکثر لوگوں کو ان میں سے وعدہ کا پابند نہیں پایا اور ان میں سے اکثر کو نافرمان پایا(11)
جس طرح گذشتہ آیات میں چند انبیاء کا ذکر گزرا بینات سے مراددلائل وبراہین اور معجزات دونوں ہی مقصد یہ ہے کہ رسولوں کے ذریعے سے جب تک ہم نے حجت تمام نہیں کر دی ہم نے انہیں ہلاک نہیں کیا اللہ فرما رہا ہے جب تک ہم رسول نہیں بھیجتے عذاب نازل نہیں کرتے اس کا ایک مفہوم یہ ہے کہ یوم میثاق کو جب عہد لیا گیا تھا تو یہ اللہ کے علم میں ایمان لانے والے نہ تھے اس لیے جب ان کے پاس رسول آئے تو اللہ کے علم کے مطابق ایمان نہیں لائے کیونکہ ان کی تقدیر میں ہی ایمان نہیں تھا جسے اللہ نے اپنے علم کے مطابق لکھ دیا تھا جس کو حدیث میں تعبیر کیا گیا ہے دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب پیغمبر ان کے پاس آئے تو اس وجہ سے ان پر ایمان نہیں لائے کہ وہ اس سے قبل حق کی تکذیب کر چکے تھے گویا ابتداء میں جس چیز کی تکذیب کر چکے تھے یہی گناہ ان کے عدم ایمان کا سبب بن گیا اور ایمان لانے کی توفیق ان سے سلب کرلی گئی اسی کو اگلے جملے میں مہر لگا کر تعبیر کیا گیا ہے
ترجمہ” اور تمہیں کیا معلوم ہے یہ تو ایسے بدبخت ہیں کہ ان کے پاس نشانیاں بھی آجائیں تب بھی ایمان نہ لائیں اور ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے تو جیسے یہ اس( قرآن) پر پہلی دفعہ ایمان نہ لائے (ویسے ہی پھر نہ لائیں گے”
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر102 سے بعض نے عہد الست جو عالم ارواح میں لیا گیا تھا بعض نے عذاب ٹالنے کے لیے پیغمبروں سے جو بات کرتے تھے، وہ اور بعض نے عام عہد مراد لیا ہے جو آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے اور یہ عہد شکنی چاہے وہ کسی بھی قسم کی ہو فسق ہی ہے(12)

مضمون نمبر 5
قصہ موسی و ہارون علیہ السلام اور بنی اسرائیل103تا141
سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 103 سے حضرت موسی علیہ السلام و ہارون علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا ذکر ہے اس قصے کو باقی قصوں کے مقابلے میں زیادہ تفصیلی طور پر بیان کیا گیا ہے پھر ان (مذکور پیغمبروں )کے بعد ہم نے( حضرت )موسی( علیہ السلام) کو اپنے دلائل (یعنی معجزات) دے کر فرعون کے اور اس کے امراء کے پاس ( ان کی ہدایت و تبلیغ کے لیے) بھیجا (سو جب موسی علیہ السلام نے وہ دلائل ظاہر کئے تو )ان لوگوں نے ان معجزات کا بالکل حق ادا نہ کیا( کیونکہ ان کا حق اور مقتضایہ تھا کہ ایمان لے آتے )تو دیکھیے ان مفسدوں کا کیا( برا) انجام ہوا (جیسا اور جگہ ان کا غرق اور ہلاک ہونا مذکور ہے یہ تو تمام قصے کا اجمال تھا آگے تفصیل ہے یعنی)(13)
موسی علیہ السلام سلام نے فرعون کے پاس بحکم الہی جا کر فرمایا کہ میں رب العالمین کی طرف سے تم لوگوں کی ہدایت کے واسطے پیغمبر مقرر ہوا ہوں اور میں رسالت کاخالی دعویٰ نہیں کرتا بلکہ میں تمہارے پاس رب کی طرف سے ایک بڑی دلیل یعنی معجزہ بھی لایا ہوں جو طلب کے وقت د کھلا سکتا ہوں تو جب میں رسول مع الدلیل ہو oں تو جو میں کہوں اس کی اطاعت کر تو بنی اسرائیل کو آزاد کر دےتاکہ یہ لوگ اپنے آبائی مسکن میں جاکر اپنے اللہ کی عبادت کریں اور وہ ان کا اصلی وطن (یعنی شام ) ہے فرعون نے کہا کہ اگر آپ کوئی معجزہ لائے ہیں تو پیش کریں اگر آپ سچے ہیں حضرت موسی علیہ السلام نے فورا اپنا عصا زمین میں ڈال دیا تو وہ فورا ایک اژدھا بن گیا اور دوسرا معجزہ یہ ظاہر کیا کہاپنا ہاتھ گریبان کے اندر بغل میں دبا کر باہر نکال لیا تو وہ سب دیکھنے والوں کو بہت چمکتا ہوا محسوس ہوا معجزات دیکھنے کے بعد فرعون اپنے درباریوں سے کہنے لگا یہ شخص بڑا جادوگر ہے اس کا اصل مقصد اپنے جادو سے تم لوگوں پر غالب آکر یہاں کا رئیس ہونا اور لوگوں کو یہاں آباد نہ رہنے دینا ہےقوم فرعون میں جوسردار لوگ تھے یعنی( اہل دربار) انہوں نے ایک دوسرے سے کہا واقعی جیسا ہمارے بادشاہ کہتے ہیں یہ شخص بہت بڑا ماہر جادوگر ہے(14)
بعض تاریخی روایات میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ سےمنقوں ہے ا س اژدھا نے فرعون کی طرف منہ پھیلایا تو گھبرا کر تخت شاہی سے کود کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پناہ لی اور دربار کے ہزاروں آدمی اس کی دہشت سے مر گئے (15)
قوم فرعون کے سرداروں نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ موسیٰ علیہ السلام تو بہت بڑا ماہر جادوگر ہے ان بیچاروں کو خداتعالیٰ اور اس کی قدرت کاملہ کی کیا خبر تھی جنہوں نے ساری عمر فرعون کو اپنا خدا اور جادوگر وں کو اپنا رہبر سمجھا اس حیرت انگیز واقعہ کو دیکھ کر وہ اس کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے تھے(16)
انھوں نے فرعون سے کہا یعنی درباریوں نے ) کہ آپ موسی علیہ السلام کو اور انکے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو ڈھیل دیجیئے اور اپنی حدود قلمرو کے شہروں میں چپراسیوں کو حکم نامے دے کر بھیج دیجئے کہ وہ شہروں سے ماہر جادوگروں کو جمع کرکے آپ کے پاس لا کر حاضر کریں۔ جنانچہ ایسا ہی انتظام کیا گیا اور وہ جادوگر فرعون کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے تو ؟! توکیا ہمیں کوئی بڑا صلہ ملے گا فرعون نے کہا ہاں انعام بھی بڑا ملے گا اور میں تمھیں اپنے مقربین میں سے بنالوں گا۔ غرض موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی جانب سے اس کی اطلاع دی گئی اور مقابلے کے لیے تاریخ متعین ہوئی اور تاریخ پر سب. میدان میں جمع ہوئے ان ساحروں نے موسی علیہ السلام سے عرض کیا کہ اے موسیٰ ہم آپ کو اختیار دیتے ہیں خواہ آپ پہلے اپنا عصاز میں میں ڈالیے یا آپ کہیں تو ہم ہی اپنی رسیاں اور لاٹھیاں میدان میں ڈالیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا پہلے جو تم دکھانا چاہتے ہو دکھا دو (17)
جب ان ساحروں نے اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کو ڈالا تو جادو سے دیکھنے والے لوگوں کی نظر بندی کردی جس سے وہ لاٹھیاں اوررسیاں دیکھنے والوں کو سانپ کی شکل میں لہراتی نظر آنے لگیں اور ان پر ہیبت طاری کر دی اور ایک طرح سے بہت بڑا جادو د کھایا لیکن ان کا یہ جادو حقیقت کا مقابلہ توکر ہی نہیں سکتا تھا چنانچہ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لاٹھی ڈالتے ہی اس نے ازدھا بن کر ان کے سارے بنے بنائے کھیل کو نگلنا شروع کیا پس حق ظاہر ہو گیا۔ پس فرعون اور اس کی قوم اس موقع پر ہار گئے اور خوب، ذلیل ہوئے اور اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اور جادو گر سجدے میں گر گئے اور کہنے لگے ایمان لائے رب العالمین پر جو موسیٰ اور ہارون علیہ السلام کا بھی رب ہے( 18 )
فرعون بڑا گھبرایا کہ ایسا نہ ہو کہ ساری دنیا ہی مسلمان ہو جائے تو ایک مضمون گھڑ کر ساحروں سے کہنے لگا۔ کہ تم میری اجازت کے بغیر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے تم سب کا مقصد ہماری حکومت کا اقتدار ختم کرنا ہے۔ میں تمھارا دایاں پاؤں اور بایاں ہاتھ کاٹوں گا اور تمھیں سولی پر لٹکا دوں گا اور تمھیں عبرت کا نشان بنا دوں گا جادوگروں نے فرعون کو عذاب دنیا کے مقابلے میں آخرت کے عذاب سے ڈراتے ہوئے کہا کہ تم ابھی ہمارے ساتھ غلط کر لوگے تو اللہ سے کیسے بچو گے ۔ تمہارے نزدیک یہ ہمارا عیب ہے کہ ہم نے اللہ سے رجوع کر لیا ۔ جادوگروں نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں خبر دے اور ہمیں ایمان کی حالت میں دنیا سے اُٹھانا (19)
جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بعض لوگ بھی حضرت موسی علیہ السلام کے تابع ہوگئے فرعون سے اس کی قوم کے سرداروں نے کہا کہ آپ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم یعنی( تابعدار )کو ایسے ہی چھوڑ دیں گے کہ وہ لوگ زمین میں فساد پھیلائیں اور تمہارے بنائے ہوئے معبودوں کی بندگی کرنا چھوڑ دیں فرعون نے جواب دیا کہ میں ان کے بیٹوں کو قتل کروادوں گا اور ان کی عورتوں کو چھوڑ دوں گا (20) ۔
جب اس مجلس کے بارے میں بنی اسرائیل کو پتہ چلا تو وہ گھبرائے پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اگر تم صحیح رہے تو زمین کا اقتدار بالا خر تمھیں ہی ملے گا۔ ابھی تم تکلیفوں کے ذریعے سے آزمائے جار ہے ہو جب تمھاری آزمائش کا نیا دور شروع ہو گا تو انعام وکرام کے ذریعے سے آزمائے جاؤ گے ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون کے قوم کو قحط سالی اور فقدان (یعنی پھلوں کی کم پیداواری) میں مبتلا کر دیا تاکہ وہ حق بات کو سمجھیں اور قبول کر لیں۔ لیکن وہ اس کا الزام موسیٰ علیہ السلام کو دیتے اور جب سب صحیح ہو جاتا تو کہتے کہ یہ تو ہماری محنت کی وجہ سے. ہوا ہے( 21 )
پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب کو صورت میں طوفان آیا جس میں ہر چیز غرق ہو گئی ٹڈیاں ان کے غلوں اور پھلوں کی فصلوں کو کھا کر چٹ کر گئیں یہ مینڈک ان کے کھانوں میں بستروں غرض ہر جگہ اور ہر طرف مینڈ ک ہی مینڈک ہوگئے جس سے ان کا کھانا پینا سونا او آرام کرنا سب حرام ہو گیا اور پانی کا خون بن جانا یوں ان کے لیے پانی پینانا ممکن ہو گیا۔ یہ وہ عذاب تھے جو وقفے وقفے سے ان پر آئے جب عذاب آتا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آتے ان سے دعا کا کہتے تو عذاب ٹل جاتا پھر ایمان لانے کے بجائے کفر و شرکے پر جمے رہتے پھر دوسرا عذاب آتا تو پھراسی طرح کرتے یوں وقفے وقفے سے ان پر پانچ طرح کے عذاب. آئے لیکن ان کے دل سے فرعونیت اور تکبر ختم نہیں ہوا اتنی واضح نشانیاں دیکھنے کے باوجود بالا آخر اللہ تعالیٰ نے انہیں دریا قلزم میں غرق کر دیا جس کی تفصیل قرآن مجید میں مختلف مقامات پر موجود ہے۔( 22)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply