مقبول عام ادیبوں کا المیہ/ناصر عباس نیّر

مقبولیت کی آرزو کسے نہیں؟
ایک تلخ سچ یہ ہے کہ یہ آرزو انھیں بھی ہے جو گم نامی کی زندگی کی مدح کیا کرتے ہیں؛ وہ اپنی گمنامی کی شہرت چاہتے ہیں۔کچھ اپنی بد نامی کو بھی شہرت ومقبولیت کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔ بے غرضی وبے نیازی کی اقدار کا مسلسل چرچا کرنے والے بھی غرض مند ہو اکرتے ہیں۔

سچ یہ ہے کہ انسانی آرزوؤں کے اظہار کی کوئی ایک زبان ہے ، نہ کوئی ایک پیرایہ۔ نفی کے صیغے میں اثبات ہوسکتا ہےاور خاموشی کے پیرائے …اور پردے میں کوئی چیختی، گونجتی ہوئی آرزو ظاہر ہونے کے لیے بے تاب ہوسکتی ہے۔ کئی بارغیر مقبول باتوں کا ذکر بھی ، مقبول ہونے کا حربہ ہوا کرتا ہے۔

مقبولیت کی آرزو کیا ہے ؟ دوسروں کے ذہنوں ، دلوں اور یادوں میں اپنا عکس دیکھنا؛ صفحے،سکرین ، دیوار اور لوح زمانہ پر اپنا نقش دیکھنا۔اپنی ذات کو غیر ذات میں جابجا دیکھنا۔ جب یہ عکس و نقش و اقعی نظر آنے لگتے ہیں ،یعنی کوئی شخص واقعی شہرت ِ عام حاصل کرلیتا ہے تو کیا ہوتا ہے ؟ یعنی مقبولیت کا تجربہ اپنی اصل میں کیا ہے؟

اگرچہ ہر مقبول و مشہور شخص کے لیے یہ تجربہ الگ ہوا کرتا ہے ، اور اتنا ہی الگ ہوا کرتا ہے ،جتنے الگ وہ ذرائع ہوتے ہیں ،جن کی مدد سے مقبولیت ملا کرتی ہے۔ ذرائع حقیقی اور جائز ہوتے یا ان کے برعکس۔تاہم مقبولیت کے تجربات میں کچھ باتیں بہ ہر حال مشترک ہوتی ہیں۔

مقبولیت کے جملہ تجربات میں مشترک بات یہ ہے کہ یہ ایک طرح کا اقتدارہے۔ مقبول عام شخص ایک مقتدر شخص میں بدل جاتا ہے۔ وہ دوسروں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت اور پوزیشن اصل کر لیتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اثرانداز ہونے کی یہ صلاحیت اسے حاصل تو اس کے کام کے سبب ہوتی ہے، مگر بہت جلد یہ صلاحیت، اس کے کام سے الگ ہوجاتی ہے،اور اس کے مقبول عام ہونے کے امیج سے وابستہ ہوجاتی ہے۔ اس کے کام سے بڑھ کر، اس کا نام اثر انگیزی کا حامل ہوجاتا ہے۔

وہ صرف اپنے قارئین کے دلوں اور ذہنوں ہی پر اثرانداز نہیں ہوتا، معاصرمقتدر لوگوں،فیصلہ سازوں اور پالیسی سازوں پر بھی اثرا نداز ہونے لگتا ہے۔ کسی مسئلے، متن، آدمی پر اس کی رائے یا تبصرہ رائیگاں نہیں جاتا۔ اسے صرف توجہ سے سنا ہی نہیں جاتا ، اس کے ایک ایک لفظ کو باقاعدہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ایک مقبول عام ادیب، ایک بہ ظاہر دکھائی نہ دینے والی سلطنت کا امیر ہوا کرتا ہے۔

بلاشبہ مقبولیت عامہ ، اقتدار ہے۔ اقتدار کی جہاں اپنی لذت ہے،وہاں اس کے اپنے خطرات …اور تضادات بھی ہیں۔ اس شیرینی میں ایک زہر بھی موجود ہے۔(ویسے تو کوئی شیرینی،خود بھی زہر سے کم نہیں )۔ ہر مقتدر شخص کو اپنے اقتدار کے چھن جانے کا اندیشہ لاحق رہتا ہے۔ مقتدر شخص کا دل ،خوف اور بزدلی کی آماج گاہ ہوتا ہے۔ اسے وہ چھپانے کی کوشش، سازش اور اداکاری کرتا ہے۔ کئی بار اس کی کوشش اور سازش سفاکانہ ہو جایا کرتی ہے۔وہ اپنی طاقت کا مہلک استعمال کر لیا کرتا ہے۔

ایک مقبول و مقتدر ادیب کو پہلا خطرہ دوسرے مقبول و مقتدر ادیب سے ہوا کرتا ہے۔ دو مقبول و مقتدرا دیب کبھی دوست نہیں ہوسکتے۔ اقتدار، شراکت پسند نہیں کرتا۔مقتد شخص ، جبلی طور پر جانتا ہے کہ شراکت، معزولی کی تمہیدہوسکتی ہے۔مقبول و مقتدر ادیب کو دوسرا خطرہ ان سے ہوتا ہے ،جن پر وہ ’’حکمرانی ‘‘کرتا ہے۔ یعنی قارئین وسامعین۔ کہیں وہ اپنا رخ نہ بدل لیں؛اس سے بد دل نہ ہوجائیں؛اس کے خلاف بغاوت نہ کردیں۔لہٰذا وہ انھیں خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ باتیں لکھتا اور کہتا ہے جس سے اس کے کام پر مسلسل لکھا جاتا رہے اور تالیاں بجتی رہیں۔ جس بات، پیرائے، موضوع سے اسے مقبولیت ملی تھی ،وہ انھی کو ،زبانی وقلمی طور پر دہراتا چلا جاتاہے۔

مقتدرو مقبول عام شخص لاکھ قناعت کا درس دیں، ان کے دل اپنی مقبولیت و اقتدار کو مزید بڑھاتے چلے کی ہوس سے بری طرح آلودہ ہواکرتے ہیں۔ وہ کسی ایک اعزاز،کسی ایک مسند، کسی ایک ستائشی تبصرے، ان کی خدمات پر لکھی گئی کسی ایک کتاب پر کبھی قانع نہیں ہوا کرتے۔ وہ ہر اس جگہ خود کو بلاشرکت غیرے دیکھنا چاہتے ہیں ، جو واقعی موجود ہے یا موجود ہوسکتی ہے۔ وہ صرف جیتے جی شہرت عام ہی نہیں، بقائے دوام بھی چاہتے ہیں۔

برٹرینڈ رسل نے اپنے نوبیل تقریر میں ایک طالوی شہزادے کا ذکر کیا ہے۔وہ جب بستر مرگ پر تھا تو اس سے پادری نے پوچھا کہ کیا اسے کوئی تاسف ہے۔اس نے کہاکہ ہاں،ایک بات کا اب تک قلق ہے کہ ایک بار میرے پاس پوپ اور شہنشاہ دونوں آئے۔ میں انھیں اپنے مینار کی چوٹی پر لے گیا تاکہ انھیں وہاں سے شہر کا نظارہ کراسکوں۔ یہ ایک زبردست موقع تھا ، جسے میں نے گنوا دیا،اسی کا قلق ہے۔ اگر میں انھیں وہاں سے دھکا دے دیتا تو مجھے ابدی شہرت مل جاتی۔مقتدر آدمی ،آخری سانسیں لیتے ہوئے بھی اپنے اقتدار ہی کا سوچتا ہے۔

مقبول عام ادیب اپنی ہی بنائی ہوئی ڈگر سے ہٹتے ہوئے،باقاعدہ خوف محسوس کرتا ہے۔ایک اندوہ ناک سچ یہ ہے کہ اب وہ اپنے قارئین وسامعین پر حکمرانی نہیں کرتا،قارئین وسامعین اس کے ذہن وتخیل پر حکمران بن جاتے ہیں۔ وہ انھیں اپنی طرف متوجہ رکھنے ،یعنی اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے ، نئی ،انوکھی ، غیر مقبول بات کہنے سے باقاعدہ خوف زدہ ہوتا ہے۔وہ اپنے کسی کار نامے کاذ کر خود اپنی زبانی سیکڑوں بار کرنے سے نہیں شرماتا۔ وہ خود پسندی وخود مدحی کی بلندترین چوٹی پر جانے میں قباحت نہیں دیکھتا۔

وہ معمولی سی تنقید اور ذرا سی چبھتی ہوئی بات بھی برداشت کر نے کے حوصلے سے محروم ہوجاتا ہے۔ وہ سوال سے گھبراتا ہے اور غیر مشروط مداحوں میں گھرا رہنا پسند کرتا ہے۔یہ مداح ، اپنی رائے دینے میں سفاک نقادوں کے مقابلے میں ،اس کی ڈھال ہوتے ہیں۔نقادوں کا فوبیا سب سے زیادہ ،مقبول عام ادیبوں یا مقبول ہونے کی آرزو رکھنے والوں کو ہوا کرتا ہے۔
تاہم ایک مقبول عام ادیب کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ تنہائی سے محروم ہوجاتا ہے۔اس کے آس پاس ہی نہیں ، اس کی یادداشت وتخیل میں بھی ، اس کے مداحوں کا جم غفیر رہتا ہے۔ تخلیق ، تنہائی اور وحشت چاہتی ہے۔ ہر بار ایک نئی تنہائی،اور ایک نئی وحشت۔ دنیا ، سماج اور انسانی روح کے ان دیکھے منطقوں میں بے دھڑک جانے کی وحشت، اور ان منطقوں کو تنہا کھوجنے کا حوصلہ۔ اور اس بات کو یکسر بھول جانے کی وحشت کہ آدمی کے لکھے کو کون پڑھے اور سراہے گا اور کون نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخری بات۔ مقبول عام ادیب کا المیہ صرف ذاتی نہیں رہتا،اس کے قارئین و سامعین کا بھی بن جاتا ہے۔ وہ اپنی مقبول عام تحریروں ، باتوں کو مسلسل دہرا کر اپنے قارئین وسامعین کو ایک ہی ڈھب سے سوچتے اور محسوس کرتے چلے جانے کا عادی بنادیتا ہے۔ بڑے سے بڑا خیال بھی جب عادت بن جائے تو وہ خیال نہیں رہتا، پتھر بن جاتا ہے۔ خیال تو بہتی ندی ہے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply