اِک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا/ڈاکٹر راحیل احمد

ہمارے ابو جان کا مقولہ تھا “Always keep smiling” اور آخری وقت بھی ان کے چہرے پر یہی مسکراہٹ تھی،یہ مسکراہٹ ان کے ساتھ قبر میں اُتر گئی اور ہم بغیر مسکراہٹ کے رہ گئے۔ دسمبر کا پہلا ہفتہ برطانیہ میں برف لاتا ہے۔ یہ اپنے ساتھ بڑی راتیں اور چھوٹے دن لاتا ہے۔ لیکن ہماری فیملی کے لیے یہ ہمارے ابو جان کی بہت سی یادیں بھی واپس لاتا ہے۔ اندر سب کچھ خالی ہو جاتا ہے۔ ایک لق ودق صحرا، اُڑتی ہوئی گرم ریت اور سائیں سائیں کرتی ہَوا ۔ اس گہرے خالی وجود میں ایک بے معنی شے کی مانند میں گرتا چلا جاتا ہوں،کہیں تو کوئی آسرا ہو، کوئی پڑاؤ ملے، کوئی ہاتھ پکڑ کر تھام لے، غم، دکھ، بے وزنی اور خالی پن کا احساس تازه ہو جاتا ہے۔ مسلسل ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے میرے وجود کی جڑوں پر کوئی ہاتھ پڑا ہے اور زور سے کھینچ رہا ہے۔ میں اندر سے ہل جاتا ہوں۔

باپ کے ساتھ ایک فطری محبت اور ساتھ کا تعلق ہوتا ہے،اس کی جڑیں سالوں پر محیط ہیں اور اتنی ہی گہری اور مضبوط۔۔ درد، دکھ، غم اور تکلیف کا احساس بھی اتنا ہی شدید ہے، میں اپنے وجود کو دیکھتا ہوں  تو وہ بدلا ہوا لگتا ہے،میرا گھر ویسا نہیں رہا، میرے ارد گرد کی دنیا جیسے تبدیل ہو گئی ہو، دل پر مردنی چھائی ہے، کوئی چیز اچھی نہیں لگتی، ہر چیز بے رنگ اور بے معنی ہو جاتی ہے۔

وہ بیماری کی حالت میں بھی اپنے آپ کو جوان سمجھتے تھے، زندگی میں پوری طرح سرگرم تھے، اگر ہم کسی پریشانی میں ہوتے تو ہمیں تسلی دیتے، وہ خود کو بیمار کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے، کہا کرتے تھے  بیماری کے ساتھ کمزوری اور بے بسی کا احساس اجاگر ہوتا ہے جبکہ طارق احمد ان خصوصیات سے مبرا ہے۔ palliative chemotherapy چل رہی ہوتی تھی اور وہ زندگی کو نئے سرے سے شروع کرنے کا پلان بنا رہے تھے۔ جب زیادہ تر لوگ ختم ہو جاتے ہیں۔ عمر رفتہ کو یاد کرتے اور موت کا انتظار ہوتا ہے، ہمارے والد اس عمر میں ایک متحرک اور پُرامید شخص تھے۔ان کے لئے زندگی ابھی ختم نہ ہوئی تھی، زندگی گزارنے کا طریقہ ہمیں بھی سمجھاتے رہے،وہ اس زندگی سے ابھی اپنا حصہ کشید کرنا چاہتے تھے چنانچہ وہ چل رہے تھے اور پھر موت ان کے لئے آ کر ٹھہر گئی اور انہیں خاموشی سے اپنے ساتھ لے گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مرتے وقت بھی آواز نہ دی اور خاموشی سے چلے گئے،میرے اندر قبرستان کی خاموشی طاری تھی اور صدمہ اور دکھ اور درد قبر کی کچی مٹی کی مانند آہستہ آہستہ بھر بھر کر نیچے گرتا رہا اور اندر ہی اندر ڈھیر بنتا رہا، لیکن مجھے معلوم ہے، یہ دنیا ہے  یہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ مجھے اب اپنے بچوں کا تناور درخت بننا ہے۔ وہ میرے پھول ہیں اور میں نے ان کو خزاں سے بچانا ہے، انشااللہ!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply