بنام سی ایم، آئی جی، سی ٹی او/نجم ولی خان

جی ہاں، میں پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور، سی سی پی او لاہور بلال کمیانہ اور سی ٹی او کیپٹن ریٹائرڈ مستنصر فیروز سے اٹھارہ سال سے کم عمر ان ہزاروں نوجوانوں کے لئے مکالمہ کرنا چاہتا ہوں جن کا مستقبل افنان شفقت اعوان کے ڈیفنس والے حادثے کے بعد تاریک کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ کم عمر ڈرائیور ہیں جنہیں پولیس والے سینکڑوں ناکے لگا کے پکڑ رہے ہیں، ان پر دھڑا دھڑ ایف آئی آرز کاٹ رہے ہیں اور صرف لاہور کے چار ہزار بچے اس وقت تک ’کریمنل ریکارڈ ہولڈر‘ بن چکے ہیں، سرکاری ملازمت سے ویزے تک کے لئے نااہل ہوچکے ہیں کیونکہ ہماری حکمرانوں کو شو ق ہے کہ سب ان کی واہ واہ کریں مگر اس واہ واہ کی قیمت ہمارے وہ بچے ادا کر رہے ہیں جن کا جرم قانون کے مطابق ایک چالان والا ہے یا چند سو روپے جرمانے والا۔

کیا کہا، افنان شفقت اعوان نے چھ بندے قتل کر دئیے تو میں اس پہلے دو باتیں کہوں گا کہ یہ بات عدالت میں ثابت کیجئے گا کہ وہ قتل بالسبب یا قتل بالخطا نہیں بلکہ قتل عمد تھا اور وہ ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں لگے ہوئے کیمروں کی وہ ویڈیوز ضرور عدالت میں (اور بعد میں اللہ کی عدالت میں بھی) ضرور پیش کیجئے گا جس میں افنان اس فیملی کا پیچھا کر رہا ہو، لڑکیوں کو چھیڑ رہا ہو، ریس لگا رہا ہو اور پھر جھگڑا کر رہا ہو۔ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی کیمرے میں یہ سب ضرور ہو گا اگر یہ ہوا ہے مگر دوسری بات یہ کہنی ہے کہ آپ افنان کی غلطی یا جرم کی سزا ان ہزاروں نوجوانوں کو کیسے دے سکتے ہیں جن کے پاس حکومتوں کی نااہلی وجہ سے سکول یا کالج جانے کے لئے مناسب سکول یا پبلک ٹرانسپورٹ تک موجود نہیں۔ ماں باپ مجبور ہیں کہ وہ اپنے بچے کو موٹرسائیکل لے دیں یا اپنی گاڑی دے دیں۔ آپ مجھ سے مکالمہ کریں تو میں آپ ثابت کروں گا کہ نوعمر ڈرائیور، ڈرائیونگ کرنے میں بالکل قصور وار نہیں ہے، یہ عمر تو ہوتی ہی نادانی والی ہے، مہم جوئی والی ہے یہ جرم حکومت، پولیس، معاشرے، سکول اور والدین کا ہے جوبچے کو شعور نہیں دیتے، تربیت نہیں دیتے۔ اس حکومت کا ہے جو سکول کالج کے لئے ٹرانسپورٹ کا بندوبست نہیں کرتی۔ ان والدین کا ہے جو اپنے بچوں کو موٹرسائیکل یا گاڑی کی چابی پکڑ ادیتے ہیں۔ اس معاشرے کا ہے جو قانون کی پابندی کو توہین آمیز، قانون شکنی کو عزت اور فخر قرار دیتا ہے۔ اس تعلیمی نظام کا ہے جو صرف کتابوں کے رٹے لگواتا ہے مگر جینے کا صحیح طریقہ اور اخلاقیات نہیں سکھاتا۔ یاد رکھیں، انڈر ٹریننگ کا قصو رنہیں ہوتا، ٹریننگ دینے والے کا ہوتا ہے۔ اگر آپ چاروں کے تصور میں کوئی ابہام ہے تو بھارتی فلم ’او ایم جی ٹو‘ ضرور دیکھیں، بہت کچھ سمجھ آئے گا۔

میرا سوال یہ بھی ہے کہ ویسے چوری ہو جائے یا ڈاکا پڑ جائے، پولیس ایف آئی آر درج کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتی، اس کے لئے مال لگانا پڑتا ہے یا عدالت سے حکم لانا پڑتا ہے مگر ان بچوں کے خلاف دس دنوں میں صرف لاہور میں چا ر ہزار سے زیادہ ایف آئی آرز درج ہو گئی ہیں جیسے وہ اس معاشرے کے سب سے بڑے مجرم ہوں۔ ٹھیک ہے، پولیس کے پاس تو ہر مرض کا علاج ایف آئی آر ہی ہے کہ مقدمہ درج کرو، اندر کر دو، تاریخیں بھگتے گا تو دماغ ٹھکانے آجائے گا مگر کیا معاشرے کے مہذب، دانشور اور ذمے دار طبقات بھی پولیس طرح سوچ سکتے ہیں۔ میں نے ایڈووکیٹ سپریم کورٹ فرہاد علی شاہ سے پوچھا، جی ہاں، وہی فرہاد علی شاہ جو لاہور کے فوجداری مقدمات کے تین بڑے ناموں میں سے ایک ہیں اور وہی فرہاد علی شاہ جو نومئی کے مقدمات میں پنجاب حکومت کے چیف پراسیکیوٹر ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ موٹروہیکل آرڈیننس کے تحت پولیس بغیر لائسنس ڈرائیونگ کرنے والے کو گرفتار نہیں کرسکتی، صرف چالان یا جرمانہ کر سکتی ہے سو یہ تمام ایف آئی آرز اور گرفتاریاں غیر قانونی ہیں۔ دوسرے انہوں نے بتایا کہ ان تمام بچوں پر جووینائل ایکٹ کا نفاذ ہوتا ہے یعنی یہ گرفتار نہیں ہوسکتے اور اگر پولیس ان کسی مجبوری میں گرفتار بھی کرے تو پابند ہے کہ دو گھنٹے کے اندر شورٹی بانڈ لے کر چھوڑ دے۔ یہ جو پولیس والے حوالاتیں بھرنے کی ویڈیوز شئیر کر رہے ہیں یہ کسی مہذب معاشرے (یاحتیٰ کہ بھارت جیسے ملک میں بھی) ہوتے تو سب اندر ہو چکے ہوتے کیونکہ قانون کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر ملزموں کو حوالات میں چوروں، ڈاکووں، قاتلوں اور منشیات فروشوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا۔ ان کے لئے الگ جگہ ضروری ہے۔ سی ٹی او اچھے آدمی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس الگ رکھنے کی جگہ ہی نہیں تو اس کا جواب ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو ہی نہیں قذافی سٹیڈیم بھی ہے، جب آپ نے ہزاروں کو پکڑنا ہے تو جگہ بھی الگ رکھیں مگر بنیادی بات یہ ہے کہ آپ قانون کے مطابق یہ سب کر ہی نہیں سکتے۔

کیا کہا؟، آپ یہ عدالت کے حکم پر کر رہے ہیں تو عدالت کا حکم یہ ہوتا ہے کہ قانون کے مطابق سخت اقدامات کئے جائیں مگر یہ قانون کے مطابق اقدامات نہیں ہیں۔ آپ بچوں کو گرفتار کر رہے ہیں تو ان پر ہمیشہ کے لئے ایف آئی آر، سی آر او میں جمع ہو گئی۔ وہ کریمنل ریکارڈ ہولڈر ہو گئے اور اب وہ ہزاروں بچے ساری عمر آپ کی جان کو روئیں گے اور آپ کو بددعائیں د یں گے۔ مجھے لگتا ہے کوئی بددعا ہی ہوتی ہے جب کوئی شارق جمال جیسی زندگی اور موت کا شکار ہوجاتاہے۔ کیا کل آپ بغیر لائسنس گاڑی چلانے والے کسی بچے کو گولی مار دیں گے تو آپ کہہ سکیں گے کہ آپ نے عدالت کے حکم پر ماری ہے۔ آہ، آپ آوٹ آف باکس کیوں نہیں سوچتے، کیوں گھسی پٹی ایف آئی آر میں پھنسے ہوئے ہیں جس کی اگلے روز ہی ضمانت ہوجاتی ہے اور آپ بچے میں تھانے، حوالات، عدالت کا خوف ہی ختم کر دیتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہی سب کچھ ہے جسے ہم نے بھگت لیا ہے توپھر کوئی بڑا کام بھی ڈالا جا سکتا ہے۔ میں ہرگز نہیں کہتاکہ آپ نوعمر ڈرائیوروں کو مت پکڑیں مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ غیر قانونی ایف آئی آر نہ دیں۔آپ تھوڑا سوچیں کہ یہ آپ کا بچہ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ اس سے شورٹی بانڈ لیں، اس کی گاڑی یا موٹرسائیکل بند کردیں، حکم دیں کہ محلے کے امام مسجد سمیت تین بندوں کی ضمانت لکھ کر دو، تم چودہ دن اپنے باپ کے ساتھ محلے کی جامع مسجد میں نماز پڑھوا وراس کی حاضری جمع کروا کے موٹرسائیکل واپس لے جاؤ کہ نماز سے احساس ذمہ داری پیدا ہوتی ہے یعنی کچھ تو آؤٹ آف باکس سوچیں، کچھ تو ایسا کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

رہ گئی بات افنان کیس کی تو اس پر میں الگ لکھوں گا۔ میرے شہرکے بہترین کرائم رپورٹر حماد اسلم کا کہنا ہے کہ پولیس نے وزیر اعلیٰ اور آئی جی کے نوٹس لینے پر قتل عمد اور دہشت گردی کی دفعات اسی طرح شامل کیں جس طرح دیہی معاشرے میں ہر ایف آئی آر سخت کی جاتی ہے اور یہ سب جھوٹ پر مبنی ہے۔ اس کیس پر میں الگ سے کالم لکھوں گا مگر ابھی آپ سے یہ کہنا ہے کہ میں آپ کاخیر خواہ ہوں۔ آپ اچھے، مہربان، نیک نام اور پروفیشنل لوگ ہیں مگر بچوں کامستقبل ایف آئی آرز کے ذریعے تباہ کر کے اچھا نہیں کر رہے، انہیں فوراً واپس لیں۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply