ٹیکنالوجی کا تاوان اور ذہنی سکون کی مجبوری۔۔تنویر سجیل

جدّت کا دلداہ انسان ٹیکنالوجی کے جس راکٹ پر سوار ہوکر اپنی سہولت کے لیے نت نئی ایجادات کے کمالات وجود میں لا رہا ہے وہ یقیناً ایک انقلابی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس انقلابی زمانے  نے حقیقت میں انسانی زندگی کی مشقت میں انتہا درجے کی کمی کی ہے ،فاصلوں کے عذاب کو کم کرکے رابطوں کی سہولت کے ڈھیر لگا دیے ہیں، ضروریاتِ زندگی کا کوئی ایسا پہلو باقی نہیں  بچا جس کی ایک نئی جہت متعارف نہ کروائی ہو، جس کے استعمال سے محنت اور وقت میں کمی نہ آئی ہو۔ ٹیک ورلڈسے لے کر ہوم بیسڈ پروڈکٹ ہر ایک نئے رنگ میں جدید سے جدید تر ہوتی ہوجارہی ہے جس نے انسان کی زندگی کو سہل تو کیا ہے مگر شاید اس کو پُر سکون نہیں کیا، یا دوسرے لفظوں میں انسان نے ان کے غلط استعمال سے اپنے لئے نئے چیلنجز اور مسائل پلے باندھ لیے ہیں، جن میں سب سے بڑا دھماکہ اس کے اپنے ذہنی سکون پر ہوا ہے ۔

ذرا سوچیے  کہ انسانی ذہانت کے کمالات کے یہ نمونے انسان کے ذہنی سکون سے کھیل رہے ہیں توایسی کونسی خاصیت ان میں دَر آئی ہے جس نے انسانی ذہن کو اس راہ پر دھکیل دیا ہے جس کی منزل سٹریس ڈپریشن اور ایسے ہی نفسیاتی اور جذباتی مسائل کی ہے جس سے انسان کا ذہن اتنا ڈسٹرب ہو رہا ہے کہ بہتر نیند کے ساتھ ساتھ ذہنی سکون سے بھی محروم ہوتا جا رہا ہے ؟

ایک حقیقت پسند ذہن کے نزدیک ان سوالات کے جوابات بہت آسان اور سادہ ہیں ،اور وہ جانتا ہے کہ انقلابی سہولیات والے ٹیکنالوجی کےان نمونوں میں اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ انسان کے ذہنی سکون سے کھیل سکیں ان کو صرف اس لئے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ یہ انسان کے مشقت طلب کاموں میں معاون و مددگار ہوں اس کی سہولت کا ایسا بندوبست کریں کہ وہ اپنے وقت اور توانائی دونوں کو بچا سکے اس کے ساتھ ساتھ ان کے پاس اس بات کا بھی جواب ہے کہ انسان کا ذہنی سکون اس لیے خراب نہیں ہوا کہ یہ جدت اس کے ذہنی سکون میں رکاوٹ ہے بلکہ اس جدت کے ساتھ خود کو ایڈجسٹ کرنے میں ناکامی اور ان کو شعور ی ومقصدی استعمال کے رجحان کی کمی کی وجہ سے ہے ۔

انسان کا سطحی شعور اس بات کا مسلسل تقاضاکرتا رہا ہے کہ زندگی کو سادہ اور آسان ہونا چاہیے اگر اس میں پیچیدگی کے کوئی پہلو ہوں بھی تو ان کو جدت کی سہولت کی دھونس دکھائی جائے مگر اس سطحی شعور کی سطح بھی آہستہ آہستہ لاشعوری ہوتی جارہی ہے جہاں پر وہ سب سادہ اور آسان تو چاہتا ہے مگر اس زندگی کو سادہ و آسان رہنے دینا نہیں چاہتا ،اس کی خواہش تو ہے کہ وہ جدت کی گود میں پلے ان نمونوں کواپنا غلام بنا کر رکھے ا ور ان کو اپنے ہر کام کی آسانی کے لئے حکم جاری کرے مگر حقیقت میں وہ خود ہی ان کا غلام بن کر رہ گیا ہے ۔

اور غلامی کی یہ صورتحال اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس نے اپنا وقت ، انرجی اور مشقت سب اس کے قدموں میں ڈھیر کر کے اپنا ذہنی سکون مفلوج کر لیا ہے جبکہ   وقت ، انرجی اور مشقت کو بچا کر ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے ہی  تو اس انقلاب کا سہارا لیا تھا مگر اب یہ سب ایک ایسا الٹا چکر بن کے رہ گیا ہے کہ انسان خود چکرا کے رہ گیا ہے کہ اس چکر سے کیسے نکلے،جس کی بنیادی وجہ بھی بہت سادہ سی ہے مگر اس کو سمجھنے کے لئے آپ کو عام انسان کے دماغ کے بجائے ایک سائنسی خطوط پر سوچنے والے دماغ کی ضرورت ہوگی جو آپ کو انسان اور مشین میں موجود بنیادی فرق کو سمجھنے میں مدد دے سکے اور اس بات سے بھی آگاہ کر سکےکہ انسان پر مشین کیسے حکومت کر رہی ہے ۔ایک سائنسی دماغ درحقیقت آپ کوان مفروضوں سے دور کرتا ہے جن کو حقیقت ثابت نہ کیا جا سکے اور وہ حقیقت میں ان حقائق کو ہی حق سمجھتا ہے جن کے نتائج متاثر کُن ہوں ۔

سائنسی دماغ کو علم ہے کہ کوئی بھی مشین کسی خاص فارمولے سے بنائی جاتی ہے جس کا انسانی حیاتیاتی عوامل کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے ،جیسا کہ موبائل جو کہ سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی مشین ہے اس کے استعمال میں ہمارے دماغ کے بہت سے حصّے اور ایسے کیمیکل بھی حصہ لیتے ہیں جو ہمارے عادات ،رویہ جات اور رجحانات کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، جب موبائل کااستعمال غیر ضروری استعمال کے طور پر زیادہ بڑھ جاتا ہے تو دماغ کے متعلقہ حصّے اپنے نیچرل پر اسس کو چھوڑ کر صرف اس خاص فارمولے سے ڈیزائن پروڈکٹ کی ہدایت کاری اور لطف کا عادی ہو جاتا ہے جو آہستہ آہستہ انسان کے نیچرل پر اسس کو ہائی جیک کرنا شروع کر دیتا ہے اور آخر کار وہ دماغ کی حکومت سنبھال کر آپ کو اپنا غلام بنا لیتا ہے ۔

تو پھر غلامی کی یہ صورت روٹین کے تمام کاموں سے الجھنا شروع کر دیتی ہےاور خومخواہ ایک ایسی جنگ میں دھکیل دیتی ہے جو آپ میں ہی موجود دو پراسس کے درمیان ہو رہی ہوتی ہے جس میں نیچرل پراسس مشین کے پراسس کے آگے ہتھیار ڈالنا شروع کر دیتا ہے اور آپ بے بسی سے اپنی نیند سے لے کر ذہنی سکون تک تاوان کی صورت میں اس کے سپرد کر دیتے ہیں ۔

لاچارگی کی یہ کیفیت کوئی ہم پر لاد کر نہیں جاتا بلکہ اس کا بندوبست ہم خود ہی کرتے ہیں جب ہم اپنی شعوری سطح کے تقاضے کو نظر انداز کرتے ہوئے لاشعوری محرکات کے ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں تواس دو طرفہ جنگ میں جیت بھی مشین پراسس کی یقیناً اس لیے ہوتی ہے   کہ ہم نے انتخاب ہی مشین کے پراسس کا کیا تھا، ہم نے نیچرل پراسس کو نظر انداز کر کے مشین کے پراسس کو حدسے زیادہ اہمیت دے دی تھی، جس کے سبب آج ہم بے بسی کی تصویر بنے اپنے ذہنی سکون کی تلاش میں پھر رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ذہنی سکون کی  کھوج کرنی  ہے تو اس کی قیمت بھی ادا کرنی پڑے گی ،جس میں سب سے بڑا بھاؤ مشین پراسس کے استعمال کو شعوری اور مقصدی بنانا ہے ،غیر ضروری استعمال کی بجائے تخلیقی استعمال کو پروان چڑھانا ہے ،سکرولنگ کی بجائے لرننگ کو مدنظر رکھنا ہے اور نیچرل پر اسس کے لوازمات جیسا کہ واک ،ورزش ،سماجی میل جول کو شامل کرنا ہے۔

Facebook Comments

Tanvir Sajeel
تنویر سجیل ماہر نفسیات حویلی لکھا (اوکاڑہ)

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply