• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اپنی بیٹی کی تیرھویں سالگرہ پر اسکے نام ایک کھلا خط/محمد وقاص رشید

اپنی بیٹی کی تیرھویں سالگرہ پر اسکے نام ایک کھلا خط/محمد وقاص رشید

     محورِ حیات بیٹی !

     تتلیاں چمن میں آتی ہیں پھولوں پر اپنے ننھے پروں سے رقص کرتی ہیں اور ہواؤں میں رنگ بکھیرتی ہیں ۔ دھنک ابرِ بہاراں کے بعد خشک زمین کی تراوت کو فلک پر رنگوں کا چراغاں کر کے ثبت کرتی ہے۔ بہار آنے پر خوشبو غنچوں سے چھلکتی ہوا کے بگولوں پر سوار ہوتی محسوسات کو پیامِ بہار دیتی ہے۔ صبح ، تیرگی کا کہسار سر کرنے والی سورج کی پہلی کرن کی فتح کی نوید ہوتی ہے۔ اور شفا دوا و دعا کی تاثیر بن کر راحتِ جاں ہوا کرتی  ہے۔ مگر تو کیا ہے بیٹی ؟

    یہ کیسی تتلی تھی کہ جو اک خارزار میں آئی تو اسکے معصوم پروں کے خراج سے چمن آباد ہوا۔ یہ کیسی دھنک تھی کہ جسکے رنگ کڑی دھوپ میں یوں جیون کے افق پر ابھرے کہ برکھا رت فریفتہ ہوئی۔ پدری محبت کی بنجر زمین سیراب ہوئی۔ یہ کیسی خوشبو تھی کہ جو پیامِ بہار کیا اہتمامِ بہار کرنے لگی۔ یہ کیسی صبح تھی کہ جسکے آنے پر تیرگی کا کہسار صبحِ نو کی امر روشنی کے لیے ریت کی دیوار ثابت ہوا۔ اور ۔۔۔اور یہ کیسی راحتِ جاں تھی یہ کیسی تشفیِ قلب تھی کہ دواؤں سے دعاؤں تک رشک کے عالم میں ہیں۔ کہ بیمار کو وہ یاد تک نہیں۔

    اچھا اچھا یہ تھی بیٹی۔ خدا کو ایک چادر پہ اتنا پیار آیا کہ قیامت تک اسکی کتاب پڑھنے والے اس چادر سے متعارف ہوتے رہیں گے۔ کیا ہو گی اس چادر کی شان۔ فلک کی طرح زمین کے اوپر تنی ہوئی یہ مقدس چادر ایک بیٹی کے لیے زمین پر بچھا دی چادر والے رہبرِ کائنات نے۔ کیا مقام ہے بیٹی کا۔ اور ہاں میں نے اپنے بچپن میں اپنے آسمان کی ہستی کی چادر بھی تو ایک بیٹی کے لیے بچھتے دیکھی تھی۔ دنیا کی ہر فاطمہ کے لیے اپنے باپ کی محبت اس آسمانی چادر پر لگنے والے خاک کے ذروں کا خراج ہے بیٹی۔ وہ عالمین کے لیے رحمت تھے بیٹی کا باپ بن کر  بیٹی کو رحمت بنا گئے۔ درود و سلام ان پر۔

    بیٹی ایک پرفیکشنسٹ فطرت کے ساتھ وقت کی درسگاہ کا طالبعلم ہمیشہ ادھورا رہتا ہے۔ میں بھی تھا۔ مگر میں ان ننھے ہاتھوں سے اپنی تعمیرِ نو کا قدردان ہوں۔ تو نے میری تکمیل کی میری گڑیا۔باپ میں تجھ سے پہلے بن چکا تھا شاید اس سے بھی پہلے مگر سکھایا مجھے تو نے کہ کیسے بننا ہے۔ محبت ہوتی کیا ہے۔؟؟؟ میں تیرا مشکور ہوں بیٹی۔اور قدردان بھی۔۔۔

      آج تیری تیرھویں سالگرہ ہے جسے انگریزی میں start of Teen Age کہتے ہیں۔ کیونکہ تو نے مجھے باپ بننا سکھایا تو اب میں بھی بدلے میں کچھ لوٹانا چاہتا ہوں۔ سُن۔ جینیات کی سائنس کو خالق کا سب سے بڑا آرٹ مانتا ہوں۔ تو مجھ سے ہے تجھ میں اپنا عکس دیکھتا ہوں۔ اگلی نسل کے ایک اور پرفیکشنسٹ فطرت کے انسان کو وقت کی درسگاہ میں داخل نہیں کروا سکتا۔ میں تجھے ادھورا نہیں دیکھ سکتا۔ وقت کو سب سے بڑا  استاد کہنے والے نہیں جانتے کہ یہ اس سبق کے بدلے عمر کی فیس مانگتا ہے اور۔۔۔ زندگی کا خراج۔۔۔۔ سو اس سخت گیر استاد کے حوالے میں اپنی روح کو نہیں کر سکتا کہ جن بیٹیوں کے باپ “واقعی” زندہ ہوں جیتے جی مر نہ گئے ہوں انہیں وقت نہیں باپ درس دیتا ہے باپ۔۔۔۔

    بیٹی !سب سے پہلے یہ سماج تجھے ایک احساسِ کمتری میں مبتلا کرے گا اور اسے مزہبی تقدیس کا خول چڑھا کر تیرے گلے میں تعویذ بنا کر ڈال دے گا کہ تیری عقل کو خدا نے ناقص بنایا۔ تیری گواہی آدھی ہے۔ تو مرد سے کمتر ہے۔۔۔۔ میری بچی ! انسان اشرف المخلوقات ہے اور عورت انسان ہے بس یہی کافی ہے۔۔۔۔ مگر اگر خدا ہی کے توسط سے بات کرنی ہے تو بیٹی یہ کیسے ممکن ہے کہ جسے خالق نے تخلیق میں حصے دار بنایا تقسیم میں نہیں بنایا۔ اپنی آدھی مخلوق کو اپنی سرشت میں جس شے سے محروم رکھا اسی کو باقی ماندہ آدھی مخلوق کو وہی جوہر عطا کرنے کا فریضہ سونپ دیا۔ اب جب خدا روزِ حشر عورت سے پوچھے گا تم نے میری کتاب میں پڑھا نہیں تھا ۔۔۔”افلا یتدبرون ، افلا یعقلون ، لعلکم تعقلون۔۔۔۔تو پوری کائنات کی آدھی مخلوق نے اگر یک زبان ہو کر کہا کہ اے خالق و مالک جب ہماری عقل کو ہی ناقص بنایا تو ہم کیا کرتے ؟۔ اے عقلمند بیٹی۔۔۔اتنے تضادات کے ساتھ خدا نہیں ہو سکتا ! بتاؤں کیا۔۔۔مزہب انسانوں کو تبدیل کرنے آیا تھا انسانوں نے مزہب ہی کو بدل کر رکھ دیا۔

      بیٹی ! “اپنے بیٹے کے نام خط” مضمون میں ، میں لکھ چکا کہ بیٹیوں کو گھر سے نکلتے وقت “حیا” کے نام پر جتنے آداب سکھائے جاتے ہیں وہ اس بات کا عملاً اعترافِ جرم ہوتے ہیں کہ ہم اپنے بیٹوں کی تربیت کرنے سے قاصر ہیں سو احساسِ کمتری کے ساتھ اب حیا کے نام پر ایک خوف نما احتیاط بھی شامل ہو جس سے اعتماد سے محروم عورت مردانہ استبداد کی تسکین کرے اور خراج کے طور پر باحیاء کہلوائے۔ میری بچی ! کاش اس دھرتی کی تمام عورتیں یک زبان ہو کر یہ سوال پوچھ سکیں کہ حیا تو مرد پر بھی اتنی ہی فرض ہے جتنی عورت پر تو عورت سے منسلک ہر مقدس رشتے کو عمومی گفتگو تک میں گالی کے لیے استعمال کرنے والے بے حیا اپنی بے حیائی کا خراج عورت سے حیا کے نام پر کیوں وصول کرتے ہیں۔ ہم تمہاری بے حیائی کی قیمت حیا کے نام پر اپنی خود اعتمادی سے محرومی کی صورت چکانے سے انکار کرتی ہیں۔ ہم پر خدا کے عائد کردہ پردے سے متجاوز دبیز پردے ڈالنے والو، اسی خدا کی جانب اپنی آنکھوں پر موجود لطیف پردے کے حساب دو۔ بے شک حیا کے سورج کے گرد گرد تو خدائی مذہب کا پورا نظامِ شمسی قائم ہے مگر اپنے اپنے مدار میں حرکت سے نظمِ جہاں قائم ہے۔۔

     پھر اسکے بعد اگلا مرحلہ غیرت  کا آئے گا۔ رانو ! یہ اس سماج میں سب سے زیادہ متنوع معانی رکھنے والا لفظ ہے ہر شخص کو  اپنی مرضی سے بیان کرنے کی آزادی اسے عجیب بے معنی سی چیز بنا دیتی ہے۔ غیرت۔۔۔ معاشی ، جغرافیائی اور سماجی اثرات کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔  یہ ایک مکمل طور پر کلچرل شے ہے جسے مقدس بنانے کے لیےمزہب کا رنگ دیا جاتا ہے۔ وگرنہ خدا کی طرف سے عاقل بالغ عورت کو نکاح کی اجازت دینے والے رحمت للعالمین کے میلاد کے دن اس “جرمِ غیرت” میں دو انسان خدا ہی کی دی ہوئی جان سے گئے۔ میں تیرے بھائی کی ایسی تربیت کرنے کی کوشش میں ہوں کہ وہ اپنی بہن کو اپنی طرح کا ایک جیتا جاگتا انسان اور انسانی فطرت ہی کا ایک علمبردار اپنا ازلی ساتھی سمجھے نہ کہ اسکی غیرت نامی صنفی برتری کی تسکین کرتی ایک کمتر مخلوق۔

     میری گڑیا ! ایک اور اہم بات میری بچی۔۔۔تیرے سکول اس ضمن میں ہمارا موضوعِ گفتگو رہا جو بات میں کہنے جا رہا ہوں۔ بہت داد و تحسین کہ تو نے خود کو دیکھا دیکھی کسی Premature Mental Frustration سے بچایا۔ زندگی میں اب اس عہد کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ یاد رکھ پتری آغاز ہونے جا رہا ہے جو ہماری کوئی پانچ سال سے جاری گفتگو میں “موزوں وقت Suitable Time” کے عنوان سے زیرِ بحث آتا رہا۔ بچی ! میں بتا چکا کہ مخالف جنس کی کشش کو ایک تکونی منشور سے گزر کر محبت کی دھنک بن کر زندگی کے افق پر رنگ بکھیرنے ہوتے ہیں۔ یاد ہے ناں ؟ ۔۔۔آنکھ ظاہری صورت دیکھتی ہے ، دل احساسات و جذبات کی فریکوئنسی میچ کرتا ہے اور دماغ ان دونوں کی سفارشات کے ساتھ شعوری کسوٹی سے گزار کر محبت کو ایک زمینی حقیقت بناتا ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ دل کے در پر محبت کی دستک ہو تو یہ تکون دربان بنے۔

      فاطمہ رشید ! سن میری تتلی ، میری گڑیا ، میری رانی میری خواہش ہے کہ یہ باتیں اس وقت ہر پاکستانی باپ اپنی بیٹی سے کرے اسی لیے میں اس خط کو پبلک کرنے جا رہا ہوں کہ کم ازکم اسے پڑھ کر ہی۔۔۔۔مگر اپنے خوابوں اپنی آدرش اپنے نظریات اور زمینی حقیقتوں کے درمیان ایک قابلِ عمل راستہ اختیار کرکے تم بیٹیاں اس نظریے کو غلط ثابت کر سکتی ہو کہ عورت ناقص العقل ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

      راستہ ایک ہی ہے بیٹی ! خود اعتمادی ، تیقن اور مثبت ذہنیت سے پیشہ ورانہ اعلی تعلیم کے راستے پر آگے بڑھتی رہو۔ دنیا کی ہر جنگ اس وقت سمٹ کر ایک لفظ “معیشت” میں مرتکز ہو چکی ، سو  اپنے پیروں پر کھڑی ہو کہ تمہیں روٹی اور چھت کے خراج میں اپنی نسائیت گروی نہ رکھنے پڑے، اپنی انسانیت دان نہ کرنی پڑے کہ اپنے بابا کی اس تتلی کے پروں کے رنگ ماند نہ پڑیں۔۔۔ان رنگوں سے بہار آئے گی ۔۔۔۔۔چاہے اسکی خوشبو زندہ ہوتے نصیب ہو چاہے قبر پر پھولوں کی صورت۔۔سالگرہ مبارک      جیتی رہو

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply