تاخیر اور انسانی دماغ /ندا اِسحاق

مغرب میں استاد ہوں یا طالبعلم انہیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ “پڑھائی” یا کسی بھی مقصد کو حاصل کرنا ایک فن ہے اور اس فن کو سمجھنے کے لیے سائنس کا سہارا لینا بہت ضروری ہوتا ہے۔ افسوس کہ ہمارے یہاں سائنس اور دانش دونوں کا فقدان ہے، ہمارے استاد اور بڑے کبھی اپنا دانش ہمارے ساتھ شیئر نہیں کرتے، سمجھدار بڑوں کے فقدان کی وجہ سے ہم سب بار بار پہیہ کو ایجاد (reinventing the wheel) کرکے اپنا وقت ضائع کررہے ہیں جس سے نہ صرف انرجی اور وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ ہم اس مقام تک بھی نہیں پہنچ پاتے جس کی ہم میں صلاحیت ہوتی ہے اور اسی کو ایش اور حسن (Ash and Hassan) اپنی کتاب میں “غیر منصفانہ فائدہ” (unfair advantage) کہتے ہیں جو ان بچوں کے پاس ہوتا ہے جن کو سمجھدار اور پروڈکٹو (productive) بڑے بزرگ ملتے ہیں۔ اپنے معاشرے کے سوئے ہوئے بڑوں کو الزام دینے کے بعد اب اصل ٹاپک پر آتے ہیں (یقیناً اس میں انکا بھی کوئی قصور نہیں، ہمارا ماضی اور حال دونوں ہی ٹروما اور غربت پر مشتمل ہے)۔

“تم نالائق ہو، کھیل کود میں تو بہت دل لگتا ہے تمہارا بس پڑھائی میں ہی نہیں لگتا، تم بہانے کررہے ہو اس فلاں بندے کو دیکھو کیسے سارا دن پڑھتا رہتا ہے” وغیرہ وغیرہ ہمارے یہاں کے نیشنل جملے ہیں، اور کسی ٹائم میں اپنے بیٹے کو بھی اس قسم کے طعنے دیتی تھی کیونکہ پڑھائی کو لے کر ہماری سوچ اور توقعات دونوں ہی غیر حقیقت پسندانہ ہیں۔ کیا کبھی ہم نے نیوروسائنس (neuroscience)، ارتقائی بیالوجی (evolutionary biology) اور ارتقائی سائیکالوجی (evolutionary psychology) کے زاویے اور ان کی مدد سے دماغ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ یہ کام کیسے کرتا ہے؟

کئی ملین سالوں سے جو ماحول اور حالات ہمارے دماغ نے سہے ان کا اس کے فعل (function) پر کیا اثر ہوا ہے اور اس ماڈرن دنیا میں یہ کس طرح سے نئے معاملات کی جانب اپنا ردِ عمل (react) دکھاتا ہے؟؟ کمزور، ڈر اور خوف میں رہنے والے انسان (hunter gatherer) کے لیے جنگل میں سب سے اہم تھا اپنا اور اپنی نسل کا بقاء، جنگل میں انسان کو بیالوجی اور طبیعات کے قوانین یا روحانیت سے منسلک سوالات کا سامنا نہیں تھا۔ کھانا، تحفظ اور نسل بڑھانا، یہی مقاصد تھے انسان کے۔ اور ان کاموں کے لیے ہمیں زیادہ فوکس کرنے کی ضرورت نہیں تھی، اور یہی وجہ ہے کہ ہم انسانوں کا فوکس کمزور ہوتا ہے یا پھر ہم ایک مخصوص ٹائم سے زیادہ توجہ (focus) نہیں دے پاتے۔

ماڈرن دنیا میں “تاخیر” (procrastination) ایک بڑا مسئلہ ہے۔ مجھے خود بھی اسکا سامنا رہا ہے، اور اسکی وجہ سے میں ہمیشہ خود کو کوستی رہی کہ میں نکمی عورت ہوں تبھی کام ٹالتی رہتی ہوں کیونکہ مجھے اپنے مستقبل کی کوئی فکر نہیں، لیکن بھلا ہو مغرب کے سائنسدانوں، استادوں اور سلجھے ہوئے طالبعلموں کا جنہوں نے مجھے یہ سمجھنے میں مدد دی کہ ہم تاخیر کیوں کرتے ہیں ؟؟اور ہمیں اس سے کس طرح نمٹنا چاہیے؟

اگر تو آپ کو کسی قسم کا انزائٹی ڈساڈر (anxiety disorder) یا ٹروما نہیں ہے تو پھر یہ آرٹیکل آپ کے لیے ہے، کیونکہ ٹروما والے بچوں کا مسئلہ عام بچوں سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ آرٹیکل ان بچوں کے لیے ہے جو باقی کے کام کرتے وقت تو نارمل ہوتے ہیں لیکن جہاں پڑھائی یا مقصد (goal) سے منسلک کام کرنا ہو تو انہیں انزائٹی ہونے لگتی ہے اور وہ اس کام کو ٹالتے رہتے ہیں۔
آپ کا دماغ ایک سمجھدار ڈیزائن ہے اور اس ڈیزائن کو کچھ اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ وہ کسی ایسی جگہ توانائی لگانا پسند نہیں کرتا جہاں مقصد واضح نہ ہو اور جہاں نظم و ضبط کی کمی ہو، جہاں اس بات کا مکمل یقین نہ دلایا جائے کہ جو مقصد (goal) ہم نے سیٹ کیا ہے اسے کتنی جلدی حاصل کیا جاسکتا ہے اور اسے مکمل کرنے پر جو انعام ملے گا وہ کتنا فائدہ مند ہے، اور کیا آپ میں اس مقصد کو حاصل کرنے کی قابلیت ہے بھی یا نہیں؟؟ یا پھر آپ نے جذبات میں آکر اور خاندان/دنیا والوں کے سامنے اپنا آپ ثابت کرنے کے لیے بہت زیادہ مقاصد طے کر لیے ہیں؟؟؟

اب جب آپ کوئی موٹیویشنل وڈیو دیکھ کر جذبات میں آکر مقاصد طے کرلیتے ہیں لیکن آپ کے پاس نہ ہی کوئی پلان ہے، نہ حکمتِ عملی (strategy)، نہ ہی خود-نظم و ضبط (self-discipline)، اور سب سے بڑھ کر آپ میں اس گول کو حاصل کرنے کی قابلیت بھی نہیں کیونکہ فرض کریں کہ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جو ہنر (skill set) چاہیے، پیچیدہ تصور (complex concepts) کو سمجھنے کے لیے جو بنیادی علم اور سمجھ درکار ہے وہ آپ کے پاس نہیں اور آپ کے مقصد میں اور آپ کے پاس موجودہ علم اور سمجھ میں بہت بڑا خلا (gap) ہے ، وہ خلا اتنا وسیع ہے کہ جب آپ اس مقصد سے منسلک کام کو سمجھنے بیٹھتے ہیں تو آپ کا “دماغ” انزائٹی (anxiety) میں چلا جاتا ہے اور پھر “تاخیر” کرنے لگتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ…..
“میں کسی بھی ایسے کام پر انرجی لگانے میں تمہاری مدد نہیں کروں گا جس کی نہ ہی ہم میں قابلیت ہے، یا پھر میرے لیے اتنے زیادہ مقاصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں، تم نے کوئی پلان یا حکمتِ عملی بھی نہیں بنائی اور نہ ہی تم میں خود-نظم و ضبط ہے۔”

آپ کا ‘ذہن’ چلا چلا کر کہتا ہے کہ “تم سب کرسکتے ہو” لیکن آپ کا ‘دماغ’ کہتا ہے کہ میری کچھ حدود (limitations) ہیں، میں اتنا سب کچھ نہیں کرسکتا، تم پہلے مجھے سمجھو کہ میں کس طرح سے کام کرتا ہوں پھر تم ٹریننگ (training) کے ذریعے مجھ سے وہ کروا سکتے ہو جو تم کرنا چاہتے ہو۔”

آپ جتنا اپنی پلیٹ میں زیادہ کھانا ڈالیں گے اور وہ بھی کئی مختلف ذائقوں والا تو پھر آپ کا دماغ اسے نہیں کھا سکے گا۔ دماغ کو وضاحت (clarity) پسند ہے، اسے نظم و ضبط (discipline) پسند ہے، اس کو پیشن گوئی (predictability) سے عشق ہے کیونکہ جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ ہم روز اس وقت پر اس جگہ بیٹھ کر پڑھتے ہیں تو وہ اسکا عادی ہوجاتا ہے اور اس کے لیے آپ کا ساتھ دینا آسان رہتا ہے، آپ کے دماغ کو “یقین” (certainty) سے محبت ہے (تھوڑی بہت عدم یقینی کی صورت حال بری نہیں وہ بھی ہمارے دماغ کی گروتھ کے لیے اچھی ہے، لیکن زیادہ نہیں) جب اسے یقین ہو کہ ہاں! ہم یہ کرلیں گے کیونکہ ہمارے مقاصد حقیقت پسندانہ اور کم ہیں اور پڑھتے وقت کوئی خلفشار (distraction)آس پاس نہیں ہے، تب وہ موٹیویٹڈ ہوکر آپ کا بھرپور ساتھ دیتا ہے۔

خلفشار (distraction) انسان کی توجہ دینے کی صلاحیت کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ چونکہ ہمارے دماغ کو توجہ دینے میں دقّت ہوتی ہے تبھی ہمیں زرا سی آہٹ یا فون پر آنے والی اطلاع (notifications) اپنی جانب کسی مقناطیس کی مانند کھینچتی ہیں۔اپنی قیمتی توجہ کو مزید بہتر کرنے کے لیے خلفشار کو کم سے کم کرنے کی کوشش کریں۔ یہ سب تربیت (training) کا کھیل ہے!!!
ٹاؤازم کا فلسفہ ہے “کم ہی زیادہ ہے” (less is more) اور اسے فضول نہ سمجھیں کہ کم کیسے زیادہ ہوسکتا ہے!!

Advertisements
julia rana solicitors london

کم مقاصد پر معیاری ٹائم دیں گے تو آپ کو خود ہی معلوم ہوجائے گا کہ کم ہی کیوں بہتر ہے…….اپنے مقاصد کو کم کریں اور حقیقت پسندانہ مقاصد بنائیں۔ اپنی قابلیت اور اپنی شخصیت اور صلاحیتوں کا حقیقی جائزہ لیں۔ اور سب سے بڑھ کر جو بھی مقصد حاصل کریں تو اس بات کا دھیان رہے کہ اگر اس مقصد سے منسلک ہنر کی کمی ہے تو اس ہنر کو تراشیں، بنیاد پر کام کریں، مقصد کو حاصل کرنا آسان ہوجائنداے گا اور اگر کبھی آپ کا دماغ تاخیر کرے بھی تو اسے کرنے دیں، تھوڑا بہت ٹالنا چلتا ہے، اکثر اسکا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ کے دماغ کو آرام کی ضرورت ہے، اسے آرام (rest) دیں، تاکہ وہ تروتازہ ہوکر دوبارہ کام پر لگ جائے۔

Facebook Comments

ندا اسحاق
سائیکو تھیراپسٹ ،مصنفہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply