• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا وائرس کا ٹیسٹ اور سندھ حکومت کے اقدامات۔۔بلال ظفر سولنگی

کرونا وائرس کا ٹیسٹ اور سندھ حکومت کے اقدامات۔۔بلال ظفر سولنگی

یقیناً خامیاں تو ہر حکومت میں ہوتی ہیں, چاہے وہ بلدیاتی، صوبائی یا وفاقی سطح کی حکومت ہی کیوں نہ ہو۔

ہم بطور صحافی ان خامیوں کو ہمیشہ اپنی تحریروں کے ذریعے اجاگر کرتے رہتے ہیں، اسی وجہ سے کئی مسائل ہماری نشاندہی کے بعد حل بھی ہوجاتے ہیں, لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم صرف خامیوں پر نہیں، خوبیوں پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک صوبائی حکومت کے مثبت اقدامات اجاگر ہونے کے سبب دیگر صوبوں کی حکومتیں ان کو اپناتی بھی ہیں اور سراہتی بھی ہیں۔

ان دنوں کرونا وائرس کا ذکر دنیا بھر میں ہورہا ہے, جب کہ پاکستان کی بات کی جائے تو یہاں بھی تمام صوبائی حکومتیں اس وائرس سے مقابلہ کرنے میں متحرک نظر آتی ہیں, سندھ حکومت کے کرونا وائرس کے حوالے سے اقدامات پر تعریف اور تنقید دونوں کا سلسلہ جاری ہے۔ جہاں تک بات ہے کرونا وائرس کے تشخیصی عمل یعنی ٹیسٹ کی تو اس حوالے سے میں کسی ابہام کے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ۔۔”کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے حوالے سے سندھ حکومت نے عوام کے لیے شہر کراچی میں زبردست اقدامات کیے ہیں، اور یہ بات میں کسی دوسرے فرد کی زبان سے سن کر نہیں بلکہ اپنے ذاتی تجربہ کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں”۔

دو روز قبل میں نے خود اپنا کرونا وائرس سے متعلق ٹیسٹ کروایا ،جو کہ الحمدللہ منفی آیا، کچھ دن سے طبیعت ناساز تھی، مجھے شبہ ہوا تو سوچا احتیاطاً ٹیسٹ کروا لوں، لہذا اس حوالے سے میں ڈاؤ یونیورسٹی ہسپتال اوجھا کیمپس گیا، یہاں کرونا وائرس کے ٹیسٹ کے لئے تمام وارڈز سے دور ایک جگہ مختص کی گئی ہے، جہاں پر صبح آٹھ، نو بجے سے دوپہر دو بجے تک ٹیسٹ کیے جاتے ہیں۔ یہاں پر جاتے ہی سب سے پہلے اپنی باری کا ٹوکن نمبر لینا پڑتا ہے، پھر کچھ دیر انتظار کے بعد آپ کا نمبر رجسٹریشن ڈیسک کے لیے پکارا جاتا ہے، اس ڈیسک پر موجود شخص آپ کا شناختی کارڈ دیکھتا ہے اور اس میں درج کوائف کا اندراج کرتا ہے، اس کے علاوہ دیگر چند سوالات جیسا کہ ٹیسٹ کروانے کی وجہ، رابطہ نمبر وغیرہ پوچھتا ہے، پھر پانچ سے دس منٹ انتظار کے بعد آپ کو نام سے پکارا جاتا ہے اور ایک شخص  آپ کوسکریننگ روم میں لے جاتا ہے، پھر وہاں موجود ڈاکٹر آپ سے علامات اور آپ کے گزشتہ دنوں سفر یا دیگر افراد سے ملاقات کے حوالے سے سوالات کے بعد یہ فیصلہ کرتا ہے کہ آپ کا ٹیسٹ کیا جائے یا نہیں، کیونکہ کرونا کی ٹیسٹ کٹس دنیا بھر میں اور صوبہ سندھ میں بھی ضرورت کے مطابق موجود نہیں ہیں ،لہذا  ڈاکٹر کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مریض کی کیس ہسٹری لینے کے بعد کرونا سے متعلق شبہ ہو تو ٹیسٹ کے لیے آگے ریفر کر دے۔

مجھے ڈاکٹر نےتمام تر تفصیلات لینے کے بعد ٹیسٹ کے لئے ریفر کیا۔سکریننگ روم سے باہر آنے اور  پھر چند منٹ انتظار کے بعد ٹیسٹ کے لیے نام پکارا گیا، ٹیسٹ کرنے کے لیے کمرے میں ایک ڈاکٹر حفاظتی کٹ زیب تن کیے موجود تھا، اس نے  سٹریچر پر بٹھانے کے بعد مجھ سے پرچی طلب کی جس پر درج نام اور سیریل نمبر کو اپنے پاس موجود کٹ پر درج سیریل نمبر سے ملایا ، پھر اس کے بعد منہ کھولنے کا کہا اور  ایک  سٹک نما چیز  کو حلق پر لگایا پھر باہر نکال لیا اور پھر مجھے باہر جانے کا کہا۔ اس ٹیسٹ کا مرحلہ بمشکل ایک یا دو منٹ کا تھا۔

اس کے بعد مجھے انتظار کرنے کا کہا گیا، دس پندرہ منٹ انتظار کے بعد پھر ڈاکٹر کے پاس بھیجا گیا، جو اپنے ہاتھ میں موبائل فون پر ٹیسٹ کروانے والوں سے ان کی معلومات طلب کر کے آن لائن فارم بھر رہا تھا، مجھ سے بھی چند سوالات کیے گئے کہ سانس میں کسی قسم کی تکلیف، بخار یا دیگر تکالیف ہیں، اس کے بعد ڈاکٹر نے موبائل منہ کے قریب کر کے سانس لینے اور کھانسنے کا کہا وہ یہ تمام علامات موبائل میں ریکارڈ کر رہے تھے۔

اس کے بعد وہاں پر موجود عملے سے میں نے ٹیسٹ رپورٹ  ملنے کا وقت دریافت کیا ، انہوں نے مجھے آگاہ کیا کہ ٹیسٹ مثبت آنے کی صورت میں رپورٹ آٹھ گھنٹے کے دورانیے میں آجائے گی، جبکہ منفی آنے کی صورت میں رپورٹ آنے میں ایک دن لگ سکتا ہے۔

یہ ٹیسٹ شہریوں کے لئے بالکل مفت کیا جارہا ہے، اس تمام عمل میں مَیں نے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا ،جبکہ مجھے جو پرچی دی گئی اس پر سات ہزار روپے کی رقم درج تھی اور پینل پر حکومت سندھ کا نام بھی درج تھا۔ اس ٹیسٹ کے تمام اخراجات سندھ حکومت برداشت کر رہی ہے ،جو کہ خوش آئند بات ہے، ورنہ ایک غریب یا متوسط طبقے  سے تعلق رکھنے والا شخص اس ٹیسٹ کو کروانے کے لیے محض سوچ ہی سکتا تھا۔

ٹیسٹ کروا کے گھر آنے کے بعد میں پریشانی میں مبتلا رہا۔ اللہ تعالی سے یہی دعا کرتا رہا کہ میری رپورٹ منفی آۓ۔ میری والدہ بھی میری صحت کے حوالے سے بے حد پریشان تھیں، میری نظر  دن بھر  گھڑی پر تھی کہ کسی طرح یہ دن گزر جائے اور آج کے روز میری رپورٹ نہ آئے ،رات کے بارہ بجنے کے بعد مجھے کچھ ذہنی سکون ہوا، بہت مشکل سے نیند آگئی، صبح اٹھنے کے بعد بھی مجھے رپورٹ آنے کی فکر تھی۔ تقریباً اگلے دن بارہ بجے موبائل پر رپورٹ آنے کا پیغام آیا جس میں آن لائن رپورٹ چیک کرنے کی معلومات بھی درج تھیں۔ میں نے رپورٹ آن لائن چیک کی جو کہ الحمداللہ منفی آئی۔

یہ ٹیسٹ کروانے سے لے کر رپورٹ آنے تک کے لمحات میرے لئے انتہائی تکلیف دہ تھے۔ ٹیسٹ کے اس تمام عمل میں رہنمائی پر میں اپنے ہردلعزیز دوستوں ماجداسلام اور رؤف بھائی کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔

آپ تمام شہریوں سے میری درخواست ہے کہ اگر آپ کو کرونا وائرس سے متعلق علامات ہیں تو ٹیسٹ ضرور کروائیں تا کہ آپ کے گھر کے دیگر افراد اور ملنے جلنے والے اس وائرس سے محفوظ رہ سکیں اور ٹیسٹ نہ کروانے کی صورت میں آپ بے شمار لوگوں میں اس وائرس کی منتقلی کا آلہ کار بن سکتے ہیں۔

سندھ حکومت اپنے طور پر اس وائرس کی روک تھام کے لئے جس حد تک اقدامات کر سکتی تھی وہ کر رہی ہے، کمیاں  کوتاہیاں تو ہر جگہ ہوتی ہیں، عوام کو چاہیے کہ وہ بھی حکومت کے احکامات کی پیروی کرے ،تاکہ ہم اس وائرس سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیں اس وائرس سے بچاؤ کا واحد حل صرف اور صرف احتیاط ہی ہے، کیونکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق کرونا وائرس کے علاج کے لئے ویکسین آنے میں ابھی کئی مہینے لگ سکتے ہیں۔

Facebook Comments

بلال ظفر سولنگی
Journalist, Reporter at Daily City News , Tobacco Control and Human rights activist from Karachi. Twitter : @bzsolangi Email : bzsolangi@gmail.com

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply