فیمینزم کیا ہے۔۔فرید مینگل/قسط3

عورت پر پدر شاہی جبر کا مختصر جائزہ

ہزاروں برس قبل مادر سری نظام کو شکست ہوئی تو پدرشاہی نے آہستہ آہستہ اس کی جگہ لے لی اور عورت انسانی سماج میں ملکیت قرار دی گئی۔ غلام داری سماج کے بعد جاگیردارانہ سماج میں جب ذرائع پیداوار سکڑ کر محض جاگیردار طبقے کے ہاتھ میں آئے، تب عورت کو مکمل طورپر انسانی حیثیت سے گرا دیا گیا۔ اسے باورچی خانے میں بند کر کے مسلسل غیر پیداواری مشقت پر لگا کر جبر کے نت نئے تجربات کیے گئے۔ یہاں تک کہ عورت محض ایک بچے پیدا کرنے والی ذاتی ملکیت نما جانور بن کر رہ گئی۔

مادر سری نظام کے دوران لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا۔ آج سے پانچ سے چھ ہزار سال قبل تشبیہات اور الفاظ کی صورت میں جب لکھنے پڑھنے کا رواج عام ہوا اور تحریری تاریخ کی شروعات ہوئی تو اس وقت انسانی سماج پر مکمل طورپر مرد کی بالادستی تھی۔ اس لیے ہمیں تاریخ کے مورچے میں عورت بے زبان، خاموش، بے عمل اور بغیر کسی اہم کردار ادا کرنے کے نظر آتی ہے۔ ہم ایک بار پھر واضح کردیں کہ عورت کی حیثیت راتوں رات ہر گز نہ گر گئی۔ بلکہ یہ سیکڑوں ہزاروں سال کی تاریخی عمل کے تسلسل کا نتیجہ تھا۔

اس حوالے سے مذہب اور پھر مذہب پر مردانہ بالادستی نے عورت کو مزید ظلمت اور جبر کی پستیوں میں گرا دیا۔ اس کےلیے ڈاکٹر مبارک علی کے توسط سے ہم گے روبنز (GAY Robbins) کی کتاب ”قدیم مصر میں عورت (Woman in Ancient Egypt) کی طرف رجوع کریں گے جس میں وہ قدیم مصر میں انسانی سماج کا جائزہ لے کر کہتی ہیں کہ

”مصری دنیا میں سب سے اوّل روحانی دنیا اور دیوی و دیوتا تھے۔ اس کے بعد بادشاہ کا درجہ آتا تھا جس کا تعلق روحانی دنیا سے بھی تھا۔ ( قدیم مصر کے بادشاہ خود کو سورج کا بیٹا کہتے تھے) اسی طرح پھر بیورو کریسی،آرٹسٹ، دست کار، ہنر مند آخر میں کسان اور غلام آتے تھے۔“

اس تمام تر درجہ بندی میں عورت کو نمائندگی حاصل نہ تھی۔ البتہ قدیم مصر کے شاہی طبقے میں سلطنت کا وارث عورت ہوتی تھی مگر وہاں بھی اسے کسی بادشاہ کے زیرِ تسلط ہی رہنا پڑتا تھا۔ شہنشاہِ سلطنت بننے کے لیے آنے والے بادشاہ کو اس عورت سے شادی کرنا ہوتا تھا جو سلطنت کی وارث تھی۔ چاہے وہ عورت اس کی ماں، بہن، بیٹی وغیرہ ہی کیوں نہ ہو۔ عورت قدیم پدرانہ سماج سے لے کر اب تک مرد سے کم تر محض ایک بولنے اور بچہ جننے والی مادہ جانور سمجھی گئی۔ جس نے عورت کے نفسیات کو متاثر کر دیا اور عورت بھی بسا اوقات خود کو مرد کی ملکیت، غلام اور کم تر سمجھنے لگی۔ جو عورت ذرا سی ہمت کرکے اپنے انسانی عقل کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی تو اسے بالادست مرد عیار، مکّار، سازشی اور دھوکہ باز قرار دے کر اس پر اپنی جبر کو مزید بڑھاتے تھے۔

ہم پھر قدیم مصری سماج کا جائزہ لیتے ہیں جہاں مصر کی دیوی ھاتھور (Hathor) ایک طرف زرخیرزی، آبادی، خوشحالی اور زندگی کی علامت تھی تو دوسری طرف تباہی اور بربادی کی۔ اسی دوہرے پن کو عورت پر بھی لاگو کیا جاتا تھا۔ یعنی کہ اگر عورت مردانہ جبر خاموشی سے سہہ لے تو وہ اچھی، نیک اور پاک دامن۔ نہیں تو پھر وہ بدکار گناہ گار و جہنمی۔

قدیم مصری سماج میں جب سلطنتیں آپسی جنگ و جدل میں غالب و مغلوب ہوتے تھے تو اس دوران بھی انتقام کا نشانہ سب سے پہلے عورت بنتی۔ اپنی طاقت اور بالادستی ثابت کرنے کےلیے مفتوح اقوام کے عورتوں کی عصمت دری کی جاتی۔ اور انہیں مزید مردانہ جبر کا نشانہ بنانے کےلیے مال غنیمت کے بطور قبضے میں لے کر غلام اور لونڈی بنایا جاتا تھا۔ یہاں بھی طبقاتی تفریق کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا تھا۔ مال غنیمت میں حاصل شدہ حکمران طبقے کی عورتوں کو حکمران اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کےلیے اپنے حرم کی زینت بناتے تھے۔ جب کہ دیگر طبقوں کی بد قسمت عورتوں کو اسی مناسبت سے فاتح لشکر کے طبقات میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔

بعض اوقات وحشی اور ہوس کے شکار مرد عورت کو اپنی ہوس کا شکار بنانے کےلیے آپسی جنگیں بھی لڑتے تھے تاکہ متعلقہ عورت کو مزید اپنی جبر کا نشانہ بنا سکیں۔ اس حوالے سے انگریز افسر سر مالگم نے اپنی کتاب ”وسط ہند کی یادداشتوں“ میں لکھا ہے کہ:

” راجستھان کی ریاست کی ایک خوبصورت شہزادی کے حصول کےلیے دو راجہ جنگ کےلیے تیار ہو چکے تھے۔ اس پر شہزادی کے باپ کو مشورہ دیا گیا کہ اس جنگ کی اصل وجہ شہزادی ہے اس لیے اسے کسی طرح سے راستے سے ہٹایا جائے۔ اس مشورے پر عمل کرکے شہزادی کو زہر دے کر مار دیا گیا اور اس طرح جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔“

یہاں پر بھی مردانہ جبر کا شکار عورت بن گئی اور اپنی زندگی تک ہار گئی۔ بجائے اس کے کہ جنگ سے نجات کےلیے اس کی اس قربانی کو تسلیم کردیا جاتا، الٹا عورت کو ہی موردِ الزام ٹھہرا کر تاریخ کے صفحات میں اسے فساد اور بدی کا جڑ قرار دیا گیا۔ اسی طرح ایک حاکم مصری بادشاہ نے اپنے ماتحت شامی حکمران کو لکھ بھیجا کہ ” اپنی بیٹی کو بادشاہ کے حضور بھیجو، جو کہ تمہارا مالک و آقا ہے۔ اس کے علاوہ بیس صحت مند غلام، چاندی کے رتھ اور صحت مند گھوڑے ساتھ ہونے چاہئیں۔“

بے بس شامی حکمران جو کہ خود عورت کا استحصالی تھا نے اپنی بیٹی (عورت) کو جبر و وحشت کا نشانہ بنانے کےلیے بادشاہ سلامت کی بارگاہ میں بھیجا اور عرض گزار ہوا کہ ” میں نے اپنی بیٹی کو بادشاہ کے حضور بھیجا ہے جو کہ میرا آقا دیوتا اور سورج خدا ہے۔“

قدیم مصری سماج میں بالائی طبقوں میں بادشاہ اور امرا کے مرنے پر ان کے ساتھ سونا، زیورات، کھانے پینے کی اشیا کے ساتھ ساتھ غلام کنیزیں اور لونڈیاں بھی چھوڑی دی جاتی تھیں۔ عقیدہ یہ تھا کہ مرنے کے بعد بھی مردہ کو ان چیزوں اور عورتوں کی ضرورت ہوگی۔ جب کہ ایسی کوئی سہولت یہ عقیدہ عورت کے لیے نہیں تھا۔ ماسوائے اوّلین ادوار کے۔

اس زمانے میں عورت کا کام محض آبادی بڑھانے کےلیے مسلسل بچے پیدا کرنا تھا۔ اس تخلیقی کردار کو بھی مرد ہی کے کھاتے میں ڈالا جاتا تھا۔ 11 سے 14 سال کی عمر میں لڑکی کی شادی کرادی جاتی تھی اور 25 برس کی عمر تک وہ اپنے بچے پیدا کرنے کے کام سے فراغت پاکر بے کار ہو جاتی تھی۔

عورت کی یہی حالت یونان میں بھی تھی گوکہ یونانی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں عورت کے کردار کا کسی حد تک ذکر ہے مگر بعد کے ادوار میں وہ بالکل تاریخ کے صفحات سے غائب ہوجاتی ہے۔ مثلاً ہیروڈوٹس کی تاریخ میں عورت ہر جگہ ہے مگر تھیوسی ڈائی ٹس کی تاریخ میں عورت کا کوئی ذکر نہیں۔ اس دوران اسے گھر میں قید کرکے اس کے پر کاٹ دیے گئے تھے۔ جیسے کہ ساٸمن ڈی بووائر کہتی ہیں:” مرد عورت کے پر کاٹ کر کہتا ہے کہ وہ اڑ نہیں سکتی۔“

اسی طرح عورت کی تمام صلاحیتوں اور قابلیتوں پر کڑی زنجیریں ڈال کر کہا گیا کہ عورت پست اور کم تر ہے۔ یہ واہیات بیانیہ صرف عام یونانی باشندے اور حکمران طبقے کا نہیں تھا۔ بلکہ یونان کے عظیم فلسفی و مفکر ارسطو بھی اسی مغالطے کا شکار تھے۔ اس کا بھی ماننا تھا کہ عورت مرد کے مقابلے میں قدرتی طورپر ذہنی اور جسمانی حوالے سے کم تر ہے۔ جب کہ سقراط کا کہنا تھا کہ ” عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی اور کوئی چیز نہیں ہے۔ میں نے جس بھی مسئلے پر غوروفکر کیا اس کی گہرائیوں تک آسانی سے پہنچ گیا لیکن آج تک میں عورت کی فطرت کو نہیں سمجھ سکا۔“

افلاطون عورت کے متعلق اس طرح زہر افشانی کرتا ہے کہ ” سانپ کے ڈسنے کا علاج تو موجود ہے مگر عورت کے شر کا علاج ممکن نہیں۔“

مشہور یونانی قانون دان سولین کا قانون تھا کہ ” اگر کویی عمل عورت کے زیر اثر کیا جاٸے تو اس کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔ مردانہ جبر کی حالت یہ تھی کہ قدیم یونان میں عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح سر عام بازار میں بولی لگا کر فروخت کر دیا جاتا تھا۔ اور انہیں اپنے برابر کا انسان سمجھنے کی زحمت بھی نہ کی جاتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply