• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کوفیہ بینڈ کے بجتے ڈھولوں کی آواز او آئی سی سے بلند ہے/ڈاکٹر ندیم عباس

کوفیہ بینڈ کے بجتے ڈھولوں کی آواز او آئی سی سے بلند ہے/ڈاکٹر ندیم عباس

آج کل سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو بہت وائرل ہے، اگر آپ فلسطین پر دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کو سرچ کرتے رہتے ہیں تو ہر پانچ منٹ بعد ایک آواز کانوں کو سرور دینے لگتی ہے۔ یہ آواز پر درد ہے، اس میں فقط فلسطین سمجھ میں آتا ہے اور جب آپ اس کے ترجمے کو دیکھتے ہیں تو سامنے بہت سادگی سے زمین زادوں کی زمین سے محبت کی باتیں ہیں۔ فلسطین کی مٹی، فلسطین کی گندم، فلسطین کے لیموں اور فلسطین کے زیتون کی بات ہے۔ ہاں اس پتھر کی بات ہے، جو ظالم پر برسایا جاتا ہے اور فلسطین زندہ باد اور صیہونیت مردہ باد کہا جا رہا ہے۔ یہ ترانہ بڑا پراثر ہے، اس کی کھوج شروع کی تو پتہ چلا کہ یہ تو پچاس سال پرانا ترانہ ہے اور سویڈش زبان میں ہے۔ آج بھی اس کے آفاقی اشعار سٹاک ہوم کو اپنے سحر میں لے لیتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں لوگ اہل فلسطین کی حمایت میں گھروں سے نکل آتے ہیں۔

یہ کوفیہ بینڈ ہے، جس کے ارکان والہانہ انداز میں فلسطین کے لیے گاتے ہیں اور ان کی ڈھول پر پڑنے والی چوٹیں یوں لگتا صیہونیت کے سینے پر پڑ رہی ہیں۔ کچھ جذبے انسانیت کی میراث ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس انسان کی زبان، نسل، قومیت اور عہدہ کیا ہے؟ اگر وہ انسان ہے تو مظلوم کے حق میں بولے گا اور اگر وہ انسانیت سے دور ہے یا اس کی انسانیت کے جذبات کو ختم کر دیا گیا ہے تو وہ خاموش رہے گا یا ظالم کا حمایتی بن جائے گا۔ آپ لندن، پیرس اور دیگر یورپی ممالک کے دارالحکومتوں حتیٰ چھوٹےچھوٹے شہروں میں ہونے والے مظاہرے دیکھیں، وہاں مسلمانوں کی تعداد دس فیصد بھی نہیں ہے۔ لوگ دیوانہ وار جنگ کے خلاف نکل پڑے ہیں، اس کے مقابل ذرا دبئی، قطر، سعودی اور بحرین سمیت دیگر ممالک کو چیک کریں، ایک کھا جانے والی خاموشی نظر آتی ہے۔

نعرے اپنے اثرات رکھتے ہیں، اسی طرح ترانوں اور نغموں کا اپنا اثر ہے۔ ایک دانشور بتا رہے تھے کہ مختلف یورپی ممالک میں مختلف سطح پر یہ بحث ہو رہی ہے کہ سمندر سے دریا تک کا نعرہ بند کر دینا چاہیئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نعرے میں اسرائیل کے خاتمے کی بات کی گئی ہے۔ دیکھیں آج بھی یورپ کے عام انسانوں کا نعرہ یہی ہے کہ زمین اس کے اصل مالکوں کو لوٹا دی جائے اور سمندر سے دریا تک صرف اور صرف فلسطین ہو۔ برا ہو بین الاقوامی ورلڈ آڈر اور اس کے کرتا دھرتا لوگوں کا، جو مشرق و مغرب کے عام انسانوں کی بات نہیں سنتے۔ آج امریکی سروے بتا رہے ہیں کہ امریکی جوانوں میں اسرائیل کی سپورٹ کم ترین سطح پر ہے۔ ظلم و جبر سے نفرت کے اثرات ہیں، جو مزید مضبوط ہوں گے۔

17 نومبر کو کراچی میں برطانوی ڈپٹی ہائی کمیشن میں کنگ چارلس سوم کی سالگرہ کی مناسبت سے ماحولیات کے موضوع پر تقریب جاری تھی اور اس میں برطانوی سفارتکار تقریر کر رہے تھے۔ حالات کی وجہ سے اس محفل کے شرکاء کا انتخاب بھی یقیناً بڑی احتیاط سے کیا گیا تھا، تاکہ کسی قسم کا مسئلہ نہ بنے۔ بلانے والے مطمئن تھے کہ ہم ایک ایسی آرٹسٹ کو بلا رہے ہیں، جو ناچ گانے کا کام کرتی ہیں۔ ایسے لوگ بے ضرر ہوتے بلکہ دبے لفظوں میں مغربی بیانیوں کی ہی تائید کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر اسی تقریر کے دوران ہی بلند آواز میں نعرہ گونجا، جس سے پہلے تو سب سکتے میں آگئے کہ یہ کیا ہوگیا ہے، پھر بار بار کہا: “سیز فائر ناؤ، سیز فائر ناؤ‘”

یہ شیما کرمانی ہیں، جنہوں نے اہل فلسطین کے لیے آواز کو بلند کیا۔ وہیں بہت سے اور لوگ بھی موجود تھے، مگر کسی نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور انہیں محفل سے جانا پڑا۔ وہ کہہ رہی تھی کہ تم یہاں موسمیاتی تبدیلیوں پر بات کر رہے ہو اور وہاں غزہ میں انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے۔ شیما نے بڑے موثر انداز میں مغربی موقف کو بے نقاب کیا کہ تم کتوں، بلیوں اور دیگر ایشوز کو لے کر آتے جاتے ہو، تمہیں وہاں مرتے ہوئے انسان نظر نہیں آتے؟ آزادی اظہار کے بہانوں سے ملکوں پر پابندیاں لگانے والوں نے شیما کو تقریب سے ہی باہر نکال دیا۔ تقریب سے باہر نکلنے سے پہلے ہی یہ خبر پاکستانی سوشل میڈیا اور پھر دوسرے میڈیا پر اپنی جگہ بنا چکی تھی۔ لوگ اس تقریب میں اہل غزہ کے لیے آواز بلند کرنے پر شیما کی تحسین کر رہے ہیں۔

ابھی کل کی بات ہے، انڈیا اور آسٹریلیا کا ورلڈ کپ میچ جاری تھا، لاکھوں لوگ براہ راست اور اربوں لوگ اسے لائیو دیکھ رہے تھے، ایسے میں ایک نوجوان داد دینے کے لیے میدان میں کود جاتا ہے اور کھلاڑی کے قریب پہنچ جاتا ہے۔سکیورٹی حکام کے پہنچنے تک وہ اپنا کام کرچکا تھا اور اس کی شرٹ پر لکھے نعرے دنیا بھر کی ٹی وی سکرینوں پر چل رہے تھے۔ مطالبات بڑے واضح تھے، فری فلسطین اور فوری جنگ بندی۔ ایسی صورتحال میں جب انڈیا میں مسلم مخالف جذبات موجود ہیں اور گجرات میں کئی دہائیوں سے بی جے پی کی حکومت ہے، مودوی وہاں پر موجود ہے، ایسے میں فلسطین کی حمایت میں جذبہ رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی چیز کی پرواہ کیے بغیر پہنچ جانا کسی عاشق کو ہی زیب دیتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں سوچتا ہوں کہ انسان جس مقصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے سوچتا ہے، اس کے لیے کوشش کرتا ہے۔ سویڈن کی سڑکوں پر ڈھول بجاتی اور فلسطین زندہ باد کے نعرے لگاتی خواتین، برطانوی سفارتخانے میں ان کے سامنے قیام کرتی ایک گانے والی اور کھیل کے میدان میں فلسطین پکارے بغیر دنیا کو متاثر کرتا نوجوان یہ بتا رہے ہیں کہ جہاں ارادہ ہوتا ہے، وہیں راستہ بھی موجود ہوتا ہے۔ یہ بظاہر گانے بجانے اور کھیل کود سے وابستہ لوگوں کی اہل فلسطین کے لیے آواز معمولی لگے گی، مگر یہ آوار عرب و عجم کے خاموش حکمرانوں اور آپسی جھگڑوں میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکاتے مفتیوں سے بہت بلند ہے۔ چند دن پہلے او آئی سی نامی سفید ہاتھی کا اجلاس ہوا تھا، اس سے تو سویڈن کی سڑکوں پر بجنے والے ڈھول کی آواز بہت بلند ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply