ڈیفالٹ/محمد اسد شاہ

سابق وزیر خزانہ جناب مفتاح اسمعیل نے کہا ہے کہ ڈیفالٹ کا خطرہ ابھی موجود ہے ، اور ملکی معیشت کی یہ حالت پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت نے کی ہے ۔چناں چہ انھوں نے عمران کو “بابائے ڈیفالٹ” کا لقب بھی دیا ۔

مفتاح اسمعیل کا تعلق مسلم لیگ نواز سے ہے ، دو مرتبہ وزیر خزانہ بنائے گئے اور دونو مرتبہ ایسے مواقع پر کہ جب مسلم لیگ نواز یا حکومت کے لیے مشکل وقت تھا ۔ پہلی بار انھیں تب اس عہدے پر فائز کیا گیا جب مسلم لیگ نواز کی حکومت کو مقتدر حلقوں کی شدید مخالفت کا سامنا تھا اور میاں محمد نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے ہٹایا جا چکا تھا ۔ ان کے وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار کے خلاف بھی سخت مقدمات قائم کیے گئے اور کہیں نہ کہیں ان کی گرفتاری کی سازشیں جاری تھیں ۔ ڈار صاحب برطانیہ کے سرکاری دورے پر تھے کہ انھیں ان سازشوں کا علم ہوا ۔ وہ دل کے مریض ہیں اور یہ خبریں ان کے مزید بیمار ہونے کے لیے کافی تھیں ۔ وہ وہیں ہسپتال میں داخل ہوئے اور چند دن بعد وزارت سے استعفیٰ بھجوا دیا ۔ ملک میں مصنوعی طریقے سے ہی سہی ، لیکن بدترین بحران پیدا کیا جا چکا تھا ۔ تب وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے میاں صاحب کی ہدایت پر مفتاح اسمعیل کو وزیر خزانہ مقرر کیا ۔ اس موقع پر انھوں نے جس جاں فشانی سے کام کیا ، قابلِ تعریف ہے ۔دوسری مرتبہ مفتاح اسمعیل کو تب وزیر خزانہ بنایا گیا جب پی ٹی آئی حکومت کے بدترین قرضوں اور تباہ کن معاشی اقدامات کے نتیجے میں معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا – تحریک عدم اعتماد کے ذریعے پی ٹی آئی حکومت سے جان چھڑائی گئی اور مسلم لیگ نواز کے امیدوار شہباز شریف وزیراعظم منتخب ہوئے – میں ان قلم کاروں میں شامل ہوں جنھوں نے تحریک عدم اعتماد سے بہت پہلے اپنے کالمز میں  بارہا یہ لکھا کہ عمران حکومت کو ختم نہ کیا جائے ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب ارکان پارلیمنٹ کی غالب اکثریت پی ٹی آئی حکومت کی نفرت انگیز مقدمہ بازیوں، بدترین کریشن اور تباہ کن معاشی اقدامات سے شدید پریشان ہو کر تحریک عدم اعتماد کا سوچ رہی تھی ۔ میں نے تو ایک کالم میں یہ بھی لکھا کہ عمران خان کو پورے پانچ سال حکومت کرنے دی جائے ، حتیٰ کہ اگر پوری اسمبلی میں ایک بھی رکن عمران کے ساتھ نہ ہو ، تب بھی اسے پانچ سال شہنشاہیت کی ہوس پوری کرنے دیجیے ۔ اس کے مضمرات میرے ان کالمز میں بیان کیے گئے تھے ۔ خیر ، شہباز شریف کی “خواہش” اور آصف زرداری کی “محنت” رنگ لائی ۔ تباہ شدہ معیشت کو نئی زندگی سے روشناس کروانے کے لیے میاں صاحب نے پھر سے مفتاح اسمعیل ہی کو نام زد کیا ۔ انھوں نے حسبِ عادت شان دار کام کیا ۔ معیشت بحال کرنے کی خاطر بہت سخت اور غیر مقبول فیصلے بھی کیے ۔ اس میں ذرہ برابر بھی کوئی شک نہیں کہ عمران کی تباہ شدہ معیشت و معاشرت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھانے کا فیصلہ کر کے مسلم لیگ نواز نے حقیقتاً اس ملک اور مستقبل کی نسلوں پر احسان کیا ہے ۔ وہ مسلم لیگ نواز ، جو جنرل پرویز اور عمران خان جیسے “آمروں” کے ادوار میں بھی ہر ضمنی انتخاب پوری قوت سے جیتتی رہی ، اور جسے ختم کرنے کے تمام حربے گزشتہ 23 سالوں سے ناکام ہو رہے ہیں ، وہی مسلم لیگ نواز شہباز شریف کے دور میں اپنی مقبولیت کے بدترین خطرے سے دوبار ہے ۔ حتیٰ کہ لاہور جیسے شہر میں مسلم لیگ نواز کے مخالفین نشستیں جیت رہے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسلم لیگ نواز کے اندر سے ایک مضبوط گروپ معاشی بحالی کے لیے مفتاح اسمعیل کے اقدامات کو پارٹی ووٹ بنک کے لیے خطرناک سمجھ رہا تھا اور اسی مقصد کے لیے ان کا اصرار تھا کہ وزارت خزانہ کسی اور کے حوالے کی جائے ۔ پارٹی کے اندر اس عہدے کے کئی خواہش مند موجود تھے ، جن میں سے ایک اسحاق ڈار صاحب بھی تھے ۔قرعہ فال ان کے نام نکلا ، لیکن یہاں ن لیگ کی قیادت سے ایک اور غلطی ہوئی ۔مفتاح اسمعیل کی محنتوں اور کاوشوں کو سراہا جانا ضروری تھا ۔انھیں ہٹانے کی بجائے کسی دوسرے محکمے کا ذمہ دار بنا دیا جاتا تو بہتر تھا ،لیکن جس طرح انھیں ہٹایا گیا ، اس سے ان کا ناراض ہونا عین فطری ہے ،اور اب ڈیفالٹ والے خطرے کی گھنٹی بجانا دراصل ان کی اسی ناراضی کا ایک شائستہ اور نرم قسم کا اظہار ہے ۔پارٹی کے ساتھ ان کی وابستگی پر کوئی سوال نہیں ،وہ مخلص اور محنتی آدمی ہیں ۔ پاکستان میں اس وقت 160 رجسٹرڈ سیاسی جماعتیں ہیں ، جن میں سے صرف ایک ، پی ٹی آئی ہی ہے جس نے مصنوعی طریقوں سے ملک میں عدم استحکام کا شور مچا رکھا ہے – ڈیفالٹ کی خواہش بھی پی ٹی آئی کی ہی ہے ۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام ، اور ڈیفالٹ کے لیے گزشتہ چھ ماہ میں عمران خان اور ان کے ساتھیوں مثلاً شوکت ترین وغیرہ نے بھی بہت کوششیں کی ہیں ۔ خاں صاحب پر کرپشن سمیت بہت سے سنگین مقدمات بھی ہیں ، اور بہت سے ٹھوس شواہد اور سوالات بھی موجود ہیں ، لیکن وہ برصغیر کے خوش قسمت ترین شخص ہیں کہ جنھیں ہر مقدمے میں بہت “تحمل” نصیب ہوتا ہے ، گھر بیٹھے ضمانتیں بھی انھی کو نصیب ہیں ، ورنہ ان سے بہت بڑے سیاسی قائدین کو ان سے بہت ہلکے اور کمزور مقدمات میں گرفتاریوں اور جیلوں سے گزرنا پڑا ۔ حتیٰ کہ خاں صاحب کو کوئی بھی ادارہ طلب کرے ، وہ پیش ہونا پسند نہیں فرماتے ۔ بار بار طلبی کا نوٹس ملے تو خاں صاحب ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دیتے ہیں ، لیکن کسی بھی تقتیشی یا تحقیقاتی ادارے کے سوالات کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں ، اور خود کو دیانت دار بھی کہتے ہیں ۔بار بار توہینِ عدالت کے مقدمات میں بریت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ ان کے وکیل بہت محنتی ہیں ۔ ورنہ حکومتی وکلاء تو اس قدر نااہل ہیں کہ ان کی بات کرنا ہی بے کار ہے ۔گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن میں بھی حسب عادت خاں صاحب اور ان کے مصاحب خاص فواد چودھری پیش نہ ہوئے – کمیشن کو بتایا گیا کہ خاں صاحب کو گزشتہ ماہ گولی لگی تھی ، اس لیے پیش نہیں ہو سکتے ۔الیکشن کمیشن یا حکومتی وکلاء نے یہ تک نہ کہا کہ اگر کوئی گولی لگی تھی تو اس کا سرکاری میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ (یا عرف عام میں ڈاکٹ) تو پیش کریں !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply