رفو گر چاہیے۔۔۔۔سہیل وڑائچ

سارا قصہ میری رنگین ریشمی اور عزیز از جان لنگی کا ہے۔ یہ خاندانی لنگی ہے، پُرکھوں کی پرم پرا اور روایات کی یاد دلاتی ہے۔ چند دن پہلے اسے آہنی کالے صندوق سے نکالا تو اس میں جابجا سوراخ نظر آئے۔ رنگ برنگی لنگی کی یہ افسوسناک حالت دیکھ کر فوراً خیال آیا کہ اسے رفو کروا لیا جائے۔ خستہ حال، پرانی مگر یادوں سے لبریز لنگی رفو کروانے نکلا تو پتہ چلا کہ زمانہ اپنی چال بدل چکا ہے، رفوگر مفقود ہو چکے، اب تار تار دامن سینے والے ناپید ہیں اسی لئے، جس کا دامن چاک ہو جائے وہ گریباں چاک ہی پھرتا رہتا ہے۔

یاد کیجئے چند سال پہلے تک کے گئے گزرے دور میں بھی ڈرائی کلیننگ کی ہر دوکان میں نمایاں طور پر لکھا ہوتا تھا ’’رفوگر کی سہولت موجود ہے‘‘ اب بخیہ گر اور رفوگر منظر سے غائب ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف لوگ بھی پرانی لنگیاں، سوراخ زدہ شالیں، چادریں اور کپڑے پھینک دیتے ہیں اور ان کی جگہ چمکتے دمکتے نئے لباس خرید لیتے ہیں۔ یوں وہ پرانی روایتوں اور یادوں سے خود ہی کٹ جاتے ہیں۔ نئے لباس اور کپڑوں میں نئے پن کی خوشبو تو ہوتی ہے مگر پیار بھرے ماضی کی مہک نہیں ہوتی۔ میری لنگی میرا ماضی ہے، میری عصمت و عفت کی محافظ ہے، میری غلطیوں، خامیوں اور گناہوں کی پردہ دار ہے۔ اسے رفو کروا لیا تو بہت کچھ بچ جائے گا ورنہ بہت کچھ ضائع ہو جائے گا۔

میرے سمیت قوم کے ہر فرد کو رفوگر کی ضرورت ہوتی ہے کبھی لنگی تار تار ہوتی ہے تو کبھی جذبات پر چھرا چلتا ہے، ایسے میں کوئی زخموں پر مرہم رکھنے والا چاہئے ہوتا ہے۔ خاندانی، قبائلی اور معاشرتی نظام کے تار و پود بکھرنے کے بعد سردار، چوہدری، بڑے اور بزرگ نہیں رہے جو مشکل میں ہمدردی کے دو بول بول کر سینے میں لگی آگ ٹھنڈا کرنے کی قدرت رکھتے تھے اب ہر فرد اکیلا اکیلا ہے۔ اس کی لنگی پھٹے یا اس کا دل شق ہو جائے کوئی سر پر ہاتھ پھیرنے والا نہیں، اس کا سب کچھ لٹ جائے یا ضائع ہو جائے کوئی ادارہ ایسا نہیں جو اس خستہ حال و بے سر و سامان کا سایہ بن سکے۔

ہمارا سب کا مسئلہ ہی یہی ہو گیا ہے کہ ہمیں رفوگر چاہئے جو ملتا نہیں ہے ہمیں جو بھی ملتا ہے یا مل رہا ہے وہ چاک سینے، زخم بھرنے اور بخیہ گری کے بجائے ہمیں اور اُدھیڑ رہا ہے۔ قوم کے جذباتی ہیجان میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے، ہم سب انسان ہیں ہمیں غصہ بھی ہوتا ہے، دکھ بھی آتا ہے۔ مہنگائی ہو تو تکلیف بھی ہوتی ہے اور اگر تکالیف اجتماعی ہوں تو فرد، گروہ اور قوم کو دیوارِ گریہ کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ اپنے آنسو بہا کر نفسیاتی سکون یا کتھارسس حاصل کر سکیں۔ مذاہب کو دیکھیں تو وہاں بھی غلطیوں، کوتاہیوں اور خامیوں کی معافی مانگنے کے لئے کوئی نہ کوئی دیوارِ گریہ ہوتی ہے۔ دنیا میں کہیں پادری کے سامنے اعترافِ گناہ کی روایت ہے تو کہیں مغربی ممالک میں Spiritual healerموجود ہوتے ہیں۔ پرانے زمانے میں ہمارے ہاں پیر تھے، ہندو مذہب میں پروہت نفسیاتی مسائل کو سنتے اور ان کا ممکنہ حل بتاتے ہیں گویا جس طرح لنگی کو رفوگر کی ضرورت ہے اسی طرح فرد کو رونے کے لئے کسی نہ کسی کندھے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کندھا وہ ہوتا ہے جو انسان کو حوصلہ دیتا ہے۔ معاشروں کو بھی ایسے اشخاص اور ایسے اداروں کی ضرورت ہوتی ہے جو دکھی شہریوں کے لئے دیوار گریہ ہوں، رفوگر ہوں انہیں حوصلہ دیں، انہیں گرنے سے بچائیں بلکہ گرے ہوئے لوگوں کو اٹھائیں۔ اگر یہ سب سچ ہے تو میرا سوال یہ ہے کہ ہمارا رفوگر کون ہے؟ چارہ ساز کہاں ہے؟ ہم پاکستانیوں کی دیوارِ گریہ کدھر ہے؟ یہاں زنجیر عدل کہاں لٹکی ہوئی ہے؟ ہم پاکستانیوں کو مہنگائی، غربت اور ناانصافی کی شکایت کرنی ہے تو وہ کس فورم پر کریں؟

پہلے سیاستدانوں کی شکایت کے لئے، بقول شیخ رشید گیٹ نمبر 4کے چکر لگائے جاتے تھے، معاشی اور سیاسی چیرہ دستیوں کے لئے اپوزیشن کو بریف کیا جاتا تھا، اپوزیشن ان معاملات کو اسمبلی میں اٹھاتی تھی اور حکومت انہیں نوٹ کر کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتی تھی لیکن یوں لگتا ہے کہ جس طرح اب رفوگر اور بخیہ گر ناپید ہو گئے اسی طرح عوام کی اشک شوئی کے لئے کوئی فرد یا ادارہ باقی نہیں رہا۔ حکومت کے خلاف شکایت کوئی نہ سنے تو پھر معاملات خراب سے خراب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

فرض کریں کہ ہم قدرت کے قانون کو نظر انداز کر دیں، نہ دیوارِ گریہ کا خیال کریں نہ رفوگر ہوں اور نہ بخیہ گر۔ دامن تار تار ہو کر پھٹتے رہیں، روح زخمی ہوتی رہے، زخم نہ بھریں تو بالآخر کیا ہو گا لاوہ پھٹے گا، غیر معمولی تبدیلیاں آئیں گی اور سب کچھ بدل جائے گا۔ کیا پاکستان میں واقعی ایسا ممکن ہے۔ صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس خطے کے لوگوں میں برداشت بہت زیادہ ہے، ظالموں، آمروں اور بادشاہوں کو برداشت کر لیتے ہیں البتہ معاملہ بھوک کا ہو، لنگی کے تار تار ہونے کا ہو تو پھر یہ ان کے لئے بھی ناقابل برداشت ہو جاتا ہے۔ جب وارث شاہ یہ بول اٹھے ’’کھادا پیتا لاہے دا، باقی احمد شاہے دا‘‘ تو پھر خانہ جنگی، بدامنی آتی رہی ہے۔ آج کے زمانے میں یہی حالات ہوئے تو تحریک چلے گی، ہڑتال ہو گی، لوگ باہر نکلیں گے۔ جب ٹیکس کے حوالے سے شنوائی نہ ہو گی، مہنگائی کے دکھ درد کو بانٹنے کے لئے کوئی کندھا نہ ہو گا، جب بے روزگاری کے غم کو کم کرنے کے لئے کوئی ہمدردی کے دو بول بھی نہ بولے گا تو پھر کچھ تو ہو گا۔

کاش قدرت کے ان اٹل اصولوں کو سمجھا جائے، دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے لیڈر کرپشن کے الزامات میں قید ہیں، معاشی بدحالی کا دور دورہ ہے، کاروبار مکمل بند ہیں، پراپرٹی کی قیمتیں گر چکی ہیں، کئی اداروں کی تنخواہیں بند ہیں اور کئی ایک نے تنخواہیں کم کر دی ہیں، مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے، اوپر سے وہ آزادی بھی نہیں کہ چیخ و پکار یا احتجاج ہو سکے۔ اگر یہی حال رہا تو پھٹی لنگیوں، ٹوٹی چپلوں اور پھٹے کپڑوں والے تنگ آ کر گلیوں بازاروں میں نکل آئیں گے۔ ستمبر، اکتوبر سے ڈریں، ٹیکس اور مہنگائی کا عذاب کہیں قاتل و مقتول اور حاکم و محکوم سب ہی کو نہ لے بیٹھے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply