تخیل کی موت/یاسر جواد

انسانیت کی کشتی ایک ایسے ساحل سے جا لگی ہے تخیل کا فقدان پیدا ہو رہا ہے۔ یوول حراری نے بہت درست بات کہی کہ آئیڈیا یا خیال نے انسان کو انسان بنایا۔ اسی میں تمام ممکنات، تمام دیوتا، کہانیاں، محبتوں کے واہمے، ساری شاعری اور حتیٰ کہ غم بھی رہتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ بندر یا بوزنے تخیل کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں، لیکن ہم انسان اِس سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔
کمپیوٹر سائنس، ایم بی اے اور ایسے ہی دیگر تکنیکی ’’علوم‘‘ نے تخیل کو باندھ کر صرف ایک سمت میں لگایا اور بشریات یا ہیومینیٹیز کا دور اچانک ختم ہوا۔ ساتھ ہی ہم کمپیوٹر کا دور مکمل کر کے سمارٹ فون کی دنیا میں داخل ہوئے اور اب اے آئی سے دوچار ہیں۔
غور کریں کہ ہم ریلز اور کلپس کی شکل میں روزانہ جو میٹریل دیکھتے ہیں وہ کیا ہے: نہایت حسین پیروں اور برفی جیسے رخساروں والی لڑکیاں، کولہے اور زینت، حتیٰ کہ مقدس کلام کا ری مکس، سیکس کے ٹوٹکے، نفس کی لمبائی کے لیے گدھے کے نام سے منسوب ٹانک، زنگ آلود نٹ بولٹ کھولنے کا طریقہ، لکڑی کی ڈوئیاں بنانا، ابلے انڈے جیسے بدن والی چینی لڑکیاں، معدے کے امراض کے متعلق راہنمائی، وغیرہ۔ فہرست غیر مختتم ہے۔
میرے اندازے کے مطابق انسانوں پر مشتمل کلپس میں چالیس فیصد کے قریب اے آئی کا کمال ہے، یا پھر ویڈیو ایڈیٹنگ کا۔ اب تو لطیفے بھی چھن چکے ہیں۔ غور کریں تو محسوس ہو گا کہ اب ہم ایک دوسرے کو لطیفے یا چٹکلے بھی نہیں سناتے۔ یہ ظرافت wit کی ایک عوامی صورت تھی۔ اب ہم لطیفوں پر فلمائے ہوئے کلپس پر انحصار کرتے ہیں۔ تخیل کی موت کا آغاز ہو چکا ہے۔ حتیٰ کہ پورن کی ضرورت بھی ختم ہو چکی ہے۔ ہم جلد ہی دیکھیں گے کہ ابھی جو ’’کمیاں‘‘ ہم فلٹرز اور اے آئی سے پوری کرتے ہیں، اُن کی جگہ مکمل طور پر اے آئی کی پروڈکٹس لے لیں گی۔
جن معاشروں سے ہم نے اندھا دھند یہ امیجز اور طریقے لیے ہیں، وہ اب ہیومینیٹیز پر زور دینے لگے ہیں۔ ہم تک تو ایسی خبریں تیس چالیس سال دیر سے پہنچا کرتی ہیں۔ ہمارا دانشور اور نقاد ابھی تک پوسٹ ماڈرن ازم کا ڈھول پیٹ رہا ہے۔ دنیا دوبارہ انسان کو تلاش کرنے اور مستحکم بنانے کی راہ پر چلنے لگی ہے۔ کیونکہ انسان کو جس تخیل کے ساتھ ہم جانتے ہیں، وہ تخیل کی بدولت ہی باقی بچے گا۔
ماضی اور پس منظر کا مطالعہ ہی ہمارے تخیل کو محفوظ رکھ سکتا یا اُس کا انحطاط سست کر سکتا ہے۔ ایک اندھے معاشرے میں رہنے کی وجہ سے ہمارے لیے توازن حاصل کرنے کی مشق اور تربیت اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے۔ ول ڈیورانٹ پروجیکٹ ہمیں عہد بہ عہد تصویریں دکھاتا ہے کہ انسان پہلے بھی ایسے اجتماعی اور انفرادی پاگل پن کا شکار ہوتے رہے ہیں، اور ہمیشہ سوچ، تخیل اور فلسفے نے ہی اُسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ اِس کے علاوہ کوئی صورت ہے تو بتائیں!
دوسری جلد کو ملنے والی پذیرائی (بالخصوص پری آرڈرز) سے مجھے پہلی بار اندازہ ہوا ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں جنھیں مشترکہ انسانی میراث کا حصہ آگے ہونے کا احساس ہے، اور وہ صرف کڑھنے کی بجائے اِس کے بہتر نصف فیصد میں شامل ہونے پر کتب کے احسان مند ہیں۔ مستقبل کیا ہوتا ہے، ہم بس اندازہ ہی کر سکتے ہیں۔ اُسے ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ نہیں لیا جا سکتا۔ ہمارا حال بھی کسی کا مستقبل ہے، جو کم ازکم انفرادی سطح پر ہمارے ہاتھ میں ہے۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply