پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے۔۔۔نواز رضا

خطہ پوٹھوہار سے میرا خون کا رشتہ ہے،والدہ مرحومہ کا تعلق چک برہمن سکھو(تحصیل گوجر خان)سے تھا جب کہ آباؤ اجداد وادی سواں کے اہم قصبے چونترہ سے نقل مکانی کرکے موضع مصریال راولپنڈی میں آباد ہو ئے، جو آج راولپنڈی چھاؤنی کی ایک اہم بستی ہے، گاؤں نے شہری آباد ی کی شکل اختیار کر لی ہے،ننھیال ہونے کے ناطے پوٹھوہار ہمیشہ میری محبتوں کا محورومرکز رہا،گوجر خان خطہ پوٹھوہار کا مرکز ی مقام ضرور ہے لیکن خطہ پوٹھوہار اصل میں راولپنڈی،اٹک،چکوال اور جہلم پر مشتمل ہے،اس کے حدود اربعہ کے بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے، بہر حال ان چار اضلاع میں ہی زیادہ پوٹھوہاری آباد ہیں،یہ خطہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے، نامورمورخ راجہ محمد عارف منہاس نے”تاریخ پوٹھو ہار“ اورڈاکٹر رشید نثار نے ”وادی پوٹھوہار“نامی کتب تحریر کی ہیں،پروفیسر کرم حیدری مرحوم نے بھی پوٹھوہار کی تاریخ پر قلم اٹھایا ہے جب کہ بزرگ سیاست دان اور ادیب کرنل (ر) سلطان ظہور اختر نے بھی ”صوبہ پوٹھوہار“ تحریک میں اپنا حصہ ڈالا ہے، ملک امریز حیدرنے بھی پوٹھوہار کوصوبہ بنانے کی تحریک زور وشور سے شروع کر رکھی ہے،مری کی ممتاز سیاسی شخصیت عرفان عباسی مرحوم بھی پوٹھوہار صوبہ بنوانے کے لئے کوشاں رہے، اڈیالہ کے جواں سال گلوکار اور سماجی کارکن راجہ اعجاز پرویز بھی اپنی پوری توانائی پوٹھوہار کو صوبہ بنانے میں صرف کر رہے ہیں۔

یہ خطہ جنگجو، بہادر اور سپہ گروں کا دیس ہے جو اپنی آن پر سر تو کٹوا دیتے ہیں لیکن سر نہیں جھکاتے،راجہ پورس کا تعلق بھی پوٹھوہار سے تھا جو سکندراعظم کی یلغار کے سامنے کھڑا ہو گیا تھا اور اپنے دشمن سے بھی داد شجاعت حاصل کی،پوٹھوہار کے جنگجو ؤں نے مغل حکمرانوں کی بھی مزاحمت کی، اگر یہ کہا جائے کہ پوٹھوہار کی سرزمین”مزاحمتی تحاریک“ کا مرکز رہی ہے تو مبالغہ آرائی نہیں ہو گی،اس خطہ نے جہاں لانس نائیک محفوظ شہید نشان حیدر، سوار محمد حسین شہید نشان حیدر اورکیپٹن سرور شہیدجیسے عظیم سپوت پیدا کئے ہیں وہاں جنرل ٹکا خان، جنرل سوار خا ن، جنرل اقبال خان،جنرل آصف نواز جنجوعہ اور جنرل اشفاق کیانی کو پاکستان کی فوج کی سپہ سالاری کے اعزاز سے نوازا۔ اس خطہ نے ملک کو لاتعداد جرنیل دئیے، اس لئے اسے جرنیلوں کی سرزمین بھی کہا جاسکتا ہے، خطہ پوٹھوہار کے کسی جرنیل نے مارشل لگایا اور نہ ہی عنان اقتدار سنبھالا، پروفیسر احمدرفیق اختر(دانشور محقق)، پروفیسر فتح محمد ملک (دانشور، ادیب و نقاد)، پروفیسر احسان اکبر (ادیب و شاعر) سید طارق مسعو د مرحوم (صحافی، شاعر و براڈکاسٹر) محمد فاضل مرحوم (ایڈیٹر روزنامہ تعمیر)، عنایت اللہ مرحوم (ایڈیٹر ماہنامہ حکایت، ناول نگار) جیسی عظیم ادبی شخصیات کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے، محمد یونس مرحوم (ایڈیٹر الہلال)، ڈاکٹر یوسف قمر مرحوم (شاعر) شریف شاد (پوٹھوہاری لغت)، شیراز طاہر (پوٹھوہاری محقق، شاعر، شاعر ناول و افسانہ نگار) یاسر محمود کیانی (پوٹھوہاری شاعر، محقق) اور اختر امام رضوی جیسے براڈ کاسٹرز نے پوٹھوہاری زبان کو زندہ رکھا، اردو اور پوٹھوہاری زبان میں شاعری کی، میرے دوست دلپذیر شاد عمر بھر پوٹھوہاری زبان کے فروغ کے لئے کوشاں رہے، باقی صدیقی مرحوم اور عزیز ملک کے بغیر خطہ پوٹھوہار کی ادبی شخصیات کا ذکر نامکمل رہے گا، سہام قبیلے کے نامور سپوت باقی صدیقی پوٹھوہاری اور اردو زبان کے ایک بڑے شاعر تھے جب کہ عزیز ملک مرحوم نے ”راول دیس“ تحریر کرکے خطہ پوٹھوہار کی بڑی خدمت کی ہے۔

خطہ پوٹھوہار کا یہ المیہ ہے کہ آہستہ آہستہ ”پوٹھوہاریوں“ نے اپنی مادری زبان کو بھلانا شروع کر دیا ہے البتہ دیار غیر میں جا بسنے والے ”پوٹھوہاریوں“ نے اپنی مادری زبان کو فراموش نہیں کیا وہ اپنے بچوں سے اردو زبان کی بجائے پوٹھو ہاری زبان میں گفتگو کرتے ہیں ،یہی وجہ ہے وہ پوٹھوہاریوں سے بہتر پوٹھوہاری زبان بول سکتے ہیں مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ میں  دنیا کی سب سے  میٹھی زبان میں روانی میں بات نہیں کر سکتا تھا لیکن اپنی ماں کی پوٹھو ہاری زبان میں گفتگو سے پوری طرح لطف اندوز ہوتا تھا۔ خطہ پوٹھوہار سے میری محبت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میری رگوں میں ایک پوٹھوہاری ماں کا خون گردش کررہا ہے۔ فیصل عرفان سے میری یاداللہ کا آغاز روزنامہ نوائے وقت کی ملازمت سے ہوا، پوٹھوہاری ہونے کے باعث اس نوجوان سے پیشہ وارانہ تعلق نے ”دوستی“ کی شکل اختیار کر لی ہے، میں نے رات کے پچھلے پہر جن ”نوائے وقتیوں“ کو ان کے ”ڈیروں“ تک پہنچانے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے ان میں ایک فیصل عرفان بھی شامل ہے، روزانہ کی پیار بھری”ڈانٹ ڈپٹ“ سننے کے باوجود وہ کبھی بے مزہ نہیں ہوا۔

ایک دن اس نے انکشاف کیا کہ وہ اڑھائی سال کی محنت کے بعداب ”صاحب کتاب“ بننے جارہا ہے اور پوٹھوہاری اکھانڑ (ضرب المثل اور محاوروں) پر مشتمل کتاب تحریر کر دی ہے بس اب کسی اچھے پبلشر کا انتظار ہے، میرے لئے یہ چونکا دینے والا انکشاف تھا کہ اس نے جہاں پوٹھوہاری زبان پر عرق ریزی کی ہے وہاں شاعرانہ ذوق بھی رکھتا ہے۔ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد میں بھی اس کی صلاحیتوں کا معترف ہو گیا، میں نے اسے پوٹھوہار کی تاریخ لکھنے کا مشورہ دیا تو اس نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا اور کہا کہ اس پر پہلے ہی نامی گرامی لوگ کام کر چکے ہیں، لیکن میں نے اصرار کیا کہ پوٹھوہار پر بہت کم لوگوں نے قلم اٹھایا ہے، اس بارے میں لکھنے کی گنجائش موجود ہے لیکن وہ نہیں مانا، تاہم اب وہ اپنی اگلی کتاب”تاریخ بھنگالی گوجر“ پر کام کر رہا ہے، سر دست وہ”بوجوہ“ اسے بھی تحریر کرنے سے گریزاں نظر آتا ہے، اس نے پہلی جماعت سے آٹھویں تک گورنمنٹ مڈل سکول بھنگالی گوجر میں تعلیم حاصل کی ہے،ہر جماعت میں اول پوزیشن حاصل کی، 1998ء میں آٹھویں میں مڈل سٹینڈرڈ کے امتحان میں تحصیل گوجر خان میں ٹاپ کیا،گورنمنٹ ہائی سکول جاتلی سے 2000ء میں میٹرک (سائنس) امتحان پاس کیا، 2006ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آبادسے بی اے اور 2009 میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ہی ایم ایس سی ماس کمیونی کیشن کا امتحان پاس کیا،مشق سخن تو 1998ء میں ہی شروع ہوگئی تھی تاہم اردوشاعری کا باقاعدہ آغاز 2004 ء میں کیا،اور پوٹھوہاری شاعری 2009ء کے لگ بھگ شروع کی،لیکن دونوں زبانو ں میں مستقل مزاجی سے شاعری نہیں کی۔ روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد، ہفت روزہ فیملی میگزین لاہور، روزنامہ پاکستان اسلام آباد دیگر جرائد میں ادبی، سیاسی، سماجی ا ور مذہبی موضوعات پر تحریر کر رہے ہیں۔ وہ اس وقت روزنامہ نوائے وقت اسلام آباد سے بطور سب ایڈیٹر وابستہ ہیں۔ خلوص،کام کی لگن اور شعروادب کے میدان میں سرگرم کردار کی ادائیگی نے اسے ایک باصلاحیت ادیب بنا دیا ہے، اس نوجوان کی قلمی کاوشوں کو اردو اور پوٹھوہاری ادب کے میدان میں ہمیشہ تحسین کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔

فیصل عرفان نے اپنے ادبی سفر کا آغاز اردو اورپوٹھوہاری زبان سے کیاہے، شعرگوئی سے لے کر شعری نثری تراجم، اپنے علاقہ کی علمی، ادبی اور سیاسی شخصیات کی سرگرمیوں کو ہر دو زبانوں میں قلمبند کیا ہے، شعروادب کی دنیا میں فیصل عرفان نیا نام ضرور ہے لیکن وہ دن دور نہیں جب اس کا شمار پوٹھوہار کے سکہ بند ادیبوں اور شعرا ء میں ہو گا، وہ اڑھائی سال کی محنت شاقہ سے پوٹھوہاری اکھانڑاور محاوروں کو کتابی شکل دینے میں کامیاب ہوا ہے ”بڑھے بوڑھوں“ سے ضرب المثل اکٹھے کرنا جان جوکھوں کا کام ہے یہ تحقیقی کام ہر کسی کے بس کی بات نہیں، اس نے حوصلہ نہیں ہارا، مالی مشکلات کے باوجود وہ اپنی کاوش کو کتابی شکل دینے میں کا میاب ہو گیا ہے۔

فیصل عرفان کی کتاب”پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے“ کی اشاعت کا اہتمام ادب و کتاب دوست حسن نواز شاہ کے ادارے”مخدومہ امیر جان لائبریری نڑالی“ نے کیا ہے، یہ کتاب 224صفحات پر مشتمل ہے، یاسر کیانی اور شیراز طاہر نے ابتدائی مضامین تحریر کیے ہیں، ممتاز شاعرڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے بھی خوبصورت الفاظ میں اس کی شخصیت کا خاکہ کھینچا ہے، اکھانڑ، لوک دانش کا اہم حصہ اور کسی بھی زبان کے علم و دانش کا انمول خزانہ ہوتے ہیں،ان سے علاقے کی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہوتی ہے۔ پوٹھوہاری زبان کے ”اکھانٹر“ بعض دیگر زبانوں میں بھی پائے جاتے ہیں،یہ بات کہی جا سکتی ہے یہ ضرب المثل سالہا سال کے تجربات کا نچوڑ ہیں اگرچہ خطہ پوٹھوہار میں پوٹھوہاری زبان بولی تو جاتی ہے لیکن کہیں لکھی نہیں جاتی جن زبانوں کا اپنا رسم الخط نہ ہو انہیں اظہار کا ذریعہ بنانا مشکل کام ہوتا ہے ”اکھانڑ“ انسانی زندگی کے تجربوں اور مشاہدوں کا نچوڑ ہوتے ہیں جسے فیصل عرفان نے کتاب میں سمو دیا ہے اس نے ہر”ا کھانڑ“ کا اردو ترجمہ کیا ہے ضرورت کے مطابق کچھ”اکھانٹروں“کی توضیحات بھی کی ہے اگر تمام ”اکھانڑوں“ کی توضیحات کر دی جاتی تو زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ بعض اکھانڑ تشریح طلب ہیں۔”اکھانڑ“ پوٹھوہار کی تاریخ،ثقافت، معاشرت کی عکاسی کرتے ہیں،اگر اس بارے میں مزید تحقیق کی جائے تو کئی اور ”اکھانڑوں“ کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اکھانڑ پوٹھوہار کی اجتماعی زندگی کی جس دل کشی کو پیش کرتے ہیں اسے فیصل عرفان نے برقرار رکھا ہے پوٹھوہاری زبان میں فیصل عرفان نے ”اکھانڑ“ پر پہلی بار جامع کام کیا ہے چونکہ انہوں نے اس کتاب کا تمام مواد خود ہی کمپوزکیا اور پروف ریڈنگ بھی کی لہٰذا اس میں شاید ہی کوئی غلطی کی ہو میں نے کتاب کا مطالعہ کیا ہے تو کچھ ایسے ”اکھانڑ“ بھی نظر آئے جن کے بارے میں میرے ذہن میں کوئی اور مطلب تھا لیکن فیصل عرفان نے کوئی اور توضیح پیش کی۔

توقع ہے کہ فیصل عرفان کی کاوش کو اہل پوٹھوہار رائیگاں نہیں جانے دیں گے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی رؤف کلاسرا جو خود علاقائی زبانوں کو فروغ دینے کے داعی ہیں نے بھی فیصل عرفان کو زبر دست الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے کہ ”پوٹھوہار کی خوبصورت دھرتی پر ویسے تو کئی خوبصورت لکھاریوں وادیبوں نے جنم لیا ہے لیکن سب نے اردو زبان کو اظہار کا ذریعہ بنایا ہے لیکن فیصل عرفان نے اپنی دھرتی ماں اور ماں بولی پر شاندار کام کیا۔ وہ  کسی  احساس کمتری کا شکار نہیں ہوا، ہزاروں سال پرانی تہذیبوں اور کلچر اور بولی کو زندہ رکھنے کے انعام کے طور پر ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی جانی چاہیے، خطہ پوٹھوہار کے اس فرزند کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے“۔ فیصل عرفان کی تصنیف پوٹھوہاری ادب میں ایک منفرد اضافہ ہے۔ میرے لئے فیصل عرفان کا تعارف شعبہ صحافت کے حوالے سے تھا لیکن جب سے اس کی ادبی تحریروں مجموعہ منظر عام پر آیا ہے اس کی ادبی صلاحیتوں کا معترف ہو گیاہوں میرے لئے نوجوان فیصل عرفان کا پوٹھوہاری زبان کا صاحب کتاب ہونا ایک بڑی بات ہے چونکہ ابھی تک اس کا شاعرانہ ذوق میرے سامنے نہیں آیا، لہذا اس بارے میں شاعری کا مجموعہ سامنے آنے پر ہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پوٹھوہاری تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے اسے زندہ رکھنے پر وہ تمام لوگ مبارک باد کے مستحق ہیں جو اپنے قلم سے پوٹھوہاری تہذیب کو زندہ رکھنے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں، اس وقت پوری دنیا ”گلوبل ویلج“ کی شکل اختیار کر گئی ہے لہذا جہاں عالمی زبانوں کو فروغ مل رہا ہے وہاں علاقائی زبانیں دم توڑتی نظر آ رہی ہیں ایسی صورت حال میں جو لکھاری علاقائی زبانوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں وہ قابل ستائش ہیں،ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد نے صحیح لکھا ہے کہ ”عالم گیریت کا طوفانِ بدتمیزی مقامی ثقافتوں، علاقائی روایتوں، تہذیبی قدروں اور جغرافیائی شناختوں کے خدوخال مٹانے کے درپے ہے۔پوٹھوہار کا خطہ دُنیا کے قدیم ترین انسانی مسکنوں میں سے ایک ہے مارگلہ کے درے سے لے کر دریائے جہلم کے کناروں تک آبادیہ دھرتی رنگا رنگ ثقافتوں اور تہذیبوں کی امین ہے۔ جواں سال تخلیق کار فیصل عرفان نے پوٹھوہار کے علاقے میں بکھرے ہوئے محاورات اور ضرب الامثال کواکٹھا کرنے کا شاندار کام کر دکھایا ہے۔“

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پوٹھوہاری اکھانڑ تے محاورے۔۔۔نواز رضا

  1. ہمارے خطے کی زبان کی عمر لگ بھگ باکیس سو ک سو سال ہےپر محیط ہے ۔پراچین وقتوں میں جو بھی دور گزرا ہوں لیکن چندر گپت موریا اور اسخاندان کے روح رواں ‏ساٹھ سالا طویل دور اقتدار کے زمانہ میں سنسکرت زبان رائج تھی اسی دور میں ٹیکسلا مانکیالہ اسٹوپ راج کٹاس تخت بھائی کشمیر شاردا اور بشمول ٹیلا جوگیاں جیسے مقامات علم وہنردرس وتدریس کے بہترین مقامات تھے ۔اور اس ہفتے کا جمہود اور رہن سہن اپنی جڑے گا چکا تھا انڈس ریور کہ مرکزی حیثیت کے حامل ٹیکسلا شہر کی مادری زبان سنسکرت کی جدید ماں بولی پوٹھوہاری ہے جس کی گہری جڑیں سندھی اور گجراتی سے میل کھاتی ہے جس جس زبان میں سنسکرت حائل ہے ان تمام میں پوٹھوہاری کا ذکر کئے بغیر تاارخیی حوالہ دینا بددیانتی کے مترادف ہے

Leave a Reply