• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ریاستی اداروں پر بے جا تنقید اور الزامات کی سیاست ختم ہونی چاہیے/ڈاکٹر ابرار ماجد

ریاستی اداروں پر بے جا تنقید اور الزامات کی سیاست ختم ہونی چاہیے/ڈاکٹر ابرار ماجد

ریاستی اداروں پر بے جا تنقید اور الزامات کی سیاست ختم ہونی چاہئیے
اس وقت ہماری سیاست کا یہ وطیرہ بنتا جارہا ہے کہ اگر کسی سیاستدان کو کہیں سے جائز ریلیف بھی ملتا ہے تو اس پر اور اگر کسی کو قانون کی پکڑ آتی ہے تو اداروں پر انگلیاں اٹھنی شروع ہوجاتی ہیں۔ انتشاری اور الزاماتی سیاست کا یہ اشتعال انگیز اور منافقانہ بیانیہ عوام میں اس قدر پھیل چکا ہے کہ سیاست کا سنجیدہ معاملہ بھی ایک تماشہ بن کر رہ گیا ہے۔ جس کی کئی اور وجوہات میں سے دو بنیادی وجوہات مفاداتی سیاست کی سوچ اور میڈیا کا بے لگام کردار بھی ہے جس میں سوشل میڈیا بھی پیش پیش ہے۔ اس کو کنٹرول کرنے کے لئے ریاست اور قوم کو سنجیدگی سے سوچ کر کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔

یوں تو اداروں کی سیاست میں مداخلت کی ایک تاریخ ہے مگر اس کی آڑ میں ان کے ریاستی معاملات میں فرائض کی ادائیگی کو مداخلت کے ساتھ گڈمڈ کرکے پیش کرنا بھی انتہائی افسوس ناک ہے جس نے اچھے برے اور صحیح غلط کی تمیز کو ختم کردیا ہے اور ہر آئے روز یہ صوتحال مزید گھمبیر ہوتی جارہی ہے۔ سیاستدان اور سیاسی جماعتیں تو آتی جاتی رہتی ہیں مگر ریاست کے اداروں کو تو قائم رہ کر ملک کو قوم کی خدمت کرنی ہوتی ہے۔

قوم کو اداروں کی طرف سے سیاست میں دخل اندازی اوربحیثیت ریاست کے اداروں کے قومی معاملات میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ان کے کردار کے فرق کو سمجھنا ہوگا تاکہ وہ جہاں کہیں آئینی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے عقب میں سیاسی مداخلت ہورہی ہے اس کی صحیح نشاندہی کریں اور ان کے دعوؤں کو سنجیدہ بھی لیا جاسکے اور اگر ایسا کچھ نہیں ہورہا تو پھر اداروں پر بے جا الزامات لگا کر ریاست کے دست و بازو کمزور نہ کئے جائیں۔ خواہ مخواہ کے بے بنیاد الزامات سے قوم اور ریاست کے درمیان اعتماد کا مضبوط رشتہ ضائع ہوجاتا ہے اور حساس پہلو عدم توجہی کا شکار ہونے لگتے ہیں جو بدقسمتی سے آج ہمارا سیاسی کلچر بن چکا ہے۔ شکایات پر عمل درآمد تب ہی ہوسکتا ہے جب ان کو سنجیدہ لیا جاسکے۔ اداروں کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانے کی بجائے شواہد کے ساتھ ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرکے ان کی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے چہ جائے کہ ان کو بے جا تنقید سے غیر فعال بنا کر ریاست کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جائے۔ اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ کسی فرد واحد کی خاطر اپنی ساکھ کو داؤ پر نہ لگنے دیں۔

الزامات کی سیاست سے تحقیقات کے بغیر چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ملک میں قانون کی حکمرانی ہو جس میں عدلیہ کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ جس ملک میں سول حقوق محفوظ ہوں اور لاء آف ٹارٹ عملی طور پر نافذ ہو وہاں لوگ سوچ سمجھ کر بات کرتے ہیں اور الزامات کی سیاست ختم ہوجاتی ہے۔ اگر کسی کے خلاف کوئی قومی سطح کا الزام سامنے آئے تو اس کی تحقیقات کروانا ریاست کی بھی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ اس امر میں تحقیقات کے بعد حقیقت کو قوم کے سامنے لائے اور جس ادارے یا فرد کے خلاف الزام تراشی کی جارہی ہو اس کو بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ عدالت کے زریعے سے الزامات لگانے والے کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کرے اور عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ترجیحاتی بنیادوں پر اس طرح کے قومی الزامات بارے معاملات کے فیصلے کریں تاکہ یہ الزامات کی ثقافت کا رجحان ختم ہوسکے۔

اسی طرح ریاست کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ میڈیا کو واچ کریں اور اگر کوئی بے بنیاد الزامات لگاتا ہے یا اس میں استعمال ہوتا ہے تو اس کی تحقیق کرکے شواہد کے ساتھ معاملے کو قوم کے سامنے رکھا جائے اور اُس میڈیا چینل یا کسی وی لاگر کو تنبیہ کے ساتھ ساتھ جرمانہ کیا جائے اور اگر وہ باز نہیں آتا تو اس کے چینل کو بند کیا جائے۔

لیکن اس معاملے میں جو ضروری بات ہے وہ غیر جانبداری اور شفافیت ہے تاکہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو پائے اور قوم کا اپنے ریاستی اداروں پر اعتماد بحال ہو اور ان عوام کی پشت پناہی کی طاقت سے ان کو مضبوطی ملے۔ اس کے لئے اعلیٰ اخلاقیات کا بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے جس سے اچھی سوچ کی سربراہی اور قیادت میسر آنے کی امیدیں وابسطہ ہوتی ہیں اور مسائل خود بخود ہی کم اور حل ڈھونڈنا آسان ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی مثالوں سے ہماری تاریخ بھری پڑی ہے جب جب بھی اعلیٰ اخلاق والی اداروں کی سربراہی اور قومی سطح کی قیادت میسر رہی حالات بہتری کر طرف بڑھے حالانکہ وہی ادارے ہوتے ہیں مگر سربراہی کے بدلنے سے حالت یکسر بدل جاتے ہیں۔

اس ضمن میں ملک و قوم کے اُن سنجیدہ شخصیات جو اس طرح کے ماحول سے پریشان ہیں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کو وہ قوم کی راہنمائی کے لئے آگے بڑھ کر کوئی ایسا اتحاد ترتیب دیں جو غیر سیاسی بنیادوں پر ایسے معاملات پر آواز اٹھائیں اور قوم کو کوئی ماڈل دینے کی خاطر ملک میں آئین و قانون کی پاسداری کے لئے اداروں کو حرکت میں لانے کے لئے سرگرم عمل ہوں اور جہاں جہاں ان کو مشکلات پیش آتی ہیں وہ بھی ریاست اور قوم کے سامنے لائی جائیں اور ان مشکلات کے خلاف عدلیہ اور دوسرے متعلقہ فورمز سے رجوع کیا جائے۔

اس سے نہ صرف عوام میں شعور اجاگر ہوگا بلکہ قومی سطح پر ایک عملی نمونہ بھی ملے گا اور اس سے سنجیدہ سوچ رکھنے والے لوگوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی سے ان کے لئے ایک امید کی کرن پیدا ہوگی بلکہ اس سے منفی سوچ رکھنے والے اور الزامات کی سیاست کرنے والوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوگی اور وہ مستقبل میں رسوائی سے بچنے کے لئے ایسے اعمال سے باز رہیں گے۔ اس سے ہماری قومی صلاحیتیں جو غلط سمت میں استعمال ہورہی ہیں وہ بھی محفوظ ہوکر ملکی ترقی کے لئے استعمال ہونے لگیں گی۔

اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگر وہ واقعی ملک قوم کے لئے مخلص ہیں تو ان کو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنی جماعت کو ایسے الزامات تراشی والی سیاست سے پاک کریں اور سختی سے اپنے کارکنان کو بے بنیاد الزامات کی سیاست سے باز رکھیں اور وہ اپنے اوپر لگائے جان والے بے بنیاد الزامات پر دوسروں کو لیگل نوٹسز بھیجیں اور اگر وہ باز نہیں آتے تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہونی چاہیے۔ سیاست صرف حکومت کا حصول ہی نہیں بلکہ جمہوری اقدار اور اصولی سیاست پر چلتے ہوئے قوم کو شعور دینا اور جہاں موقعہ ملے ملک و قوم کی خدمت کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے تاکہ ریاست میں تبدیلی کی اصل بنیاد معاشرت کو بھی ٹھیک کیا جاسکے۔ ایک ایسا ماحول پنپے جس میں قوم کے اندر ریاست اور اس کے اداروں کی اہمیت اور ملکیت کا احساس اجاگر ہو تاکہ ان کے اقدامانت سے صرف ایک دوسرے اور اداروں پر تنقید ہی نہ ہو بلکہ راست اقدامات کی صورت میں حوصلہ افزائی بھی ہو تاکہ مضبوط معاشرے اور اداروں کی تشکیل سے ریاست کو طاقت بخشی جاسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس طرح نہ صرف حالات میں بہتری آئے گی اور قوم کو بہتری کے ماڈلز ملیں گے بلکہ اس سے قوم کے اندر شعور اجاگر ہوکر ان کی مدد کے لئے وہ ان کے ساتھ آن کھڑے ہونگے اور دن بدن حالات بدلتے چلے جائیں گے کیونکہ انسان فطرتاً نصیحتوں، تقریروں اور دعوؤں سے زیادہ عمل پر یقین اور اس کو قبول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply