پچھلا کالم ’’بڈھا کھانستا بہت ہے‘‘ شادی کی عمر اور بچوں کی تعداد کے حوالے سے تھا۔بڈھا کھانستا بہت ہے ۔۔۔رعایت اللہ فاروقی اس کالم میں آپ کے سامنے اپنے والد، اپنی اور اپنے بیٹے کی مثال رکھی تھی۔ یوں وہ کالم شادی کی عمر اور بچوں کی تعداد کے حوالے سے صرف مردانہ پہلو کو لئے ہوئے تھا۔ میں چاہتا ہوں زیر نظر کالم میں خواتین کے پہلو کا بھی احاطہ کر لیا جائے تاکہ تصویر مکمل ہوجائے۔ آپ پچھلے کالم میں جان چکے کہ میرے والد کی شادی 36 برس کی عمر میں ہوئی تھی اور میری پیدائش کے وقت ان کی عمر 37 برس تھی۔ آج یہ بھی جان لیجئے کہ میری والدہ محترمہ کی عمر شادی کے موقع پر پندرہ برس تھی یوں میری اور میری والدہ کی عمر میں سولہ برس کا فرق ہے۔ میری والدہ کا کوئی بھی بچہ ضائع نہیں ہوا۔ ان کے نو بیٹے ہیں اور الحمدللہ وہ نہ صرف اپنے تمام بچوں سمیت حیات ہیں بلکہ ایک دبنگ ماں کی طرح ہم پر آج بھی یوں حکمرانی فرما رہی ہیں کہ جب ان کی کال آتی ہے تو ہم کال ریسیو کرنے سے قبل آیت الکرسی کا ورد شروع کر چکے ہوتے ہیں۔ اب یہاں دو باتیں فوری توجہ کھینچتی ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمارے والد مرحوم اور والدہ محترمہ کی عمروں کا بڑا فرق تھا اور دوسری یہ کہ شادی کے وقت ہماری والدہ محترمہ کی عمر خاصی کم تھی۔ ہمارے والد مرحوم کے ساتھ ان کا تعلق بہت ہی مثالی رہا۔ دونوں کے مابین ہنسی مذاق بھی خوب چلتا اور کبھی کبھار یکطرفہ نوعیت کی تلخی بھی آجاتی جو ہمارے والد صاحب کے سخت مزاج کے سبب انہی کے غصے کی صورت ہوتی۔ مگر اس تلخی میں کبھی بھی یہ شائبہ نہیں گزرا کہ ان دونوں کی عمروں کے واضح فرق کے سبب کوئی چیز اندر ہی اندر چل رہی ہے۔ خود ہم بھائی بھی والد صاحب سے بری طرح پٹتے اور اگر کبھی ان کی غیر موجودگی میں اپنی والدہ سے ان کی مار کا شکوہ کرتے تو والدہ محترمہ پیٹھ پیچھے بھی ہمارے والد کی ہی سائڈ لیتیں۔ ہم آج بھی فرصت کے لمحات میں والدہ محترمہ کی پرانی یادوں کو کریدتے ہیں تو وہ بہت ہی پیار سے اپنی یادیں ہمارے ساتھ بانٹتی ہیں جس کے دوران بسا اوقات ان حسین یادوں سے ان کی پلکیں بھی بھیگ جاتی ہیں۔ میرے والدین کے ساتھ یہ عجیب ہی اتفاق رہا کہ ایک کی شادی بہت تاخیر سے ہوئی جبکہ دوسرے کی بہت جلد۔ اپنی کم عمری میں شادی کے معاملے کا والدہ محترمہ کبھی کبھار ہلکا پھلکا تذکرہ فرماتی ہیں لیکن اس تذکرے میں ہربار ان کے چہرے پر کسی سنجیدگی کے بجائے ایک معصوم سی مسکراہٹ ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ جس طرح میرے والد کی شادی چھتیس برس کی عمر میں کرکے ان کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی اسی طرح میری والدہ محترمہ کی شادی بھی پندرہ برس کی عمر میں نہیں ہونی چاہئے تھی۔ مگر یہ محض میری رائے ہے، اپنے والدین سے کبھی اس حوالے سے کوئی شکوہ نہیں سنا۔
میری شادی کے موقع پر میں بیس برس کا جبکہ میری اہلیہ اٹھارہ برس کی تھیں۔ وہ میری طرح ہی پختون گھرانے کی خاتون ہیں لیکن پیدائش ان کی کراچی کی دھوراجی سوسائٹی میں ہوئی ہے جو میمن برادری کا مشہور علاقہ ہے۔ میرے والد اور میرے سسر چونکہ بچپن کے دوست تھے اس لئے ہمارا ایک دوسرے کے ہاں بکثرت آنا جانا تھا۔ ہم بچے بچپن میں ساتھ ہی کھیلے کودے لیکن چونکہ ہماری کوئی بہن نہ تھی اور میرے سسرال میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی تھے سو میرے سسرال کی بچیاں جوں ہی نو دس برس کی عمر تک پہنچتیں، ان کا ہم سے پردہ شروع ہوجاتا۔ چنانچہ جب ہمارا رشتہ طے ہونے لگا تو ہر چند کہ ہم بچپن میں ساتھ ہی کھیلے کودے تھے لیکن چونکہ بیچ میں پردے کا ایک کئی سال کا فاصلہ بھی آگیا تھا تو رشتہ طے کرنے سے قبل ہمیں چائے پیش کرنے کے بہانے ایک دوسرے کو دیکھنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ پختونوں یا مولویوں میں رشتے بڑے اپنی مرضی سے طے کر لیتے ہیں اور میاں بیوی ایک دوسرے کو دیکھتے بھی پہلی بار سہاگ رات پر ہی ہیں۔ لیکن ہم نے تو ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی۔ ہمارے والدین نے منگنی سے قبل ہمیں ایک دوسرے کو دیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا اور رشتہ طے کرنے سے قبل ہم سے صاف صاف پوچھا بھی کہ ’’ہم تمہارا اس سے رشتہ طے کرنا چاہتے ہیں، کیا تمہیں وہ پسند اور منظور ہے ؟‘‘ ہم نے ہاں کہا تو رشتہ طے ہوا۔ شادی کے ابتدائی ایام میں ہی میری اہلیہ نے مجھے ایک بات بتائی تھی جو قابل غور ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’میری سہیلیوں نے مجھ سے کہا، تم کتنی خوش قسمت ہو کہ تمہاری شادی وقت پر ہو رہی ہے، ہمیں تو پتہ نہیں ابھی اور کتنا سڑنا ہے‘‘ اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے ایک اور سماجی مسئلے کو سمجھنا پڑے گا۔ ہم پختونوں کے ہاں نہ تو لڑکے کو اپنی شادی کے اخراجات کے لئے کمائی کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی لڑکی کو۔ ہمارے ہاں شادی کرانا اور اس کے تمامتر اخراجات اٹھانا ماں باپ کی ہی ذمہ داری ہے۔ ہم بیٹے کی کمائی سے شادی کے شامیانے کھڑے کرکے انچا شملہ لہراتے ہوئے یہ مضحکہ خیز دعویٰ نہیں کرتے ’’مالک کا شکر ہے بچے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوا‘‘ ہم پختونوں کا نہ تو دولہا اپنی شادی کا خرچہ خود کرتا ہے اور نہ ہی دلہن۔لیکن دوسری طرف دیگر ثقافتوں میں لڑکے اور لڑکی دونوں ہی کو اپنی شادی کے لئے کمائی کرنی پڑتی ہے ۔ اسی کمائی کے چکر میں وہ بچے یا تو کڑھتے رہتے ہیں یا گرمی نکالنے کے لئے معاشقوں کی راہ اختیار کر لیتے ہیں جس سے کچھ اور سنگین مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔
ایک اہم مسئلہ ساس بہو کی پاک بھارت جنگیں بھی ہیں۔ ہماری والدہ محترمہ جب ہمیں نہیں بخشتیں تو ان کی بہو کس شاخ کی چڑیا ہے ؟ وہ جتنی دبنگ ماں ہیں اتنی ہی دبنگ ساس بھی ہیں۔ ظاہر ہے ان کی بہوؤں کو ان سے اس حوالے سے شکایات بھی رہی ہیں۔ اور جتنی کوئی بہو قدیمی ہے اتنی ہی اس کی شکایات کی فہرست بھی طولانی ہے۔ لیکن ایک بہت ہی دلچسپ بات شاید آپ کو حیران کردے۔ ہمارے خاندان کی پہلی تین بہویں سب سے میچور اور بالکل منفرد ہیں۔ ان تینوں نے ہماری والدہ کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گزارا ہے، یعنی سب سے زیادہ رگڑا انہی تینوں نے کھایا ہے۔ یہ تینوں اس بات پر متفق ہیں کہ ہماری تمام کی تمام میچورٹی اور ہماری ساری کی ساری انفرادیت صرف اور صرف ماں جی کی سختی کی دین ہے۔ اگر یہ سختی نہ ہوتی تو ہم شاید نکموں میں ہی شمار ہوتیں۔ اب یہاں بھی ایک اہم پہلو کو سمجھنا ضروری ہے۔ بچی جب ماں کے گھرہوتی ہے تو وہاں تو یہ ناز نخرے اٹھوا رہی ہوتی ہے۔ ماں نے کھانا بنانے کا کہا تو آگے سے کہدیا ’’میرا ڈرامہ چل رہا ہے آپ خود بنا لو‘‘ کام کاج سے جان چھڑانے کے لئے کبھی کوئی نخرہ تو کبھی کوئی نخرہ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب یہ بیاہ کر سسرال پہنچتی ہیں تو ان کے پراٹھے پر جنوبی افریقہ کے نقشے کا گمان گزرتا ہے اور سالن تو ایسا کہ لیبارٹری بھیجنا پڑ جائے تاکہ وہ خوردبینوں سے دیکھ دیکھ کر بتا سکیں کہ اس محلول کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں ؟۔ سو ان حالات میں ایک چنگیزی ساس ہی ہوتی ہے جو اس لاڈلی کے کس بل نکال کر اس کو بندی کا پتر بناتے ہوئے اپنے بیٹے کے لئے ’’بیگم جان‘‘ والا شیپ دیتی ہے۔ میرا ایمان ہے کہ اگر اس دنیا میں چنگیزی ساسیں نہ ہوتیں تو طلاقوں کی شرح مسلم ممالک میں بھی تین چار سو گنا ہی ہوتی اور ایسا نہ کرنے والے شوہر بچارے یا تو پاگل خانوں میں ملتے یا غاروں میں مفروری کی زندگی گزارتے !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں