• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت ،استحصال اور اصلاحات کی کہانی۔۔سائرہ ناز

افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت ،استحصال اور اصلاحات کی کہانی۔۔سائرہ ناز

پچھلی کچھ دہائیوں سے محنت کشوں کی منڈی labour force میں خواتین محنت کشوں کی شمولیت قابل ذکر حد تک بڑھ گئی ہے ۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن 1999 کے ایک سروے کے مطابق ایکسپورٹ پراسسنگ زون میں کام کرنے والے مزدوروں میں 90% خواتین محنت کش ہیں۔

نوٹ: یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ محنت کش یا مزدور سے مراد ہر وہ انسان ہے جو کسی طے شدہ اجرت کے بدلے اپنی ذہنی یا جسمانی محنت بیچتا ہے ۔اتنی بڑی تعداد میں خواتین کی لیبر فورس یا انسانی وسائل human resources میں شمولیت کیسے ممکن ہوئی؟

اس کے پیچھے کوئی فلاح انسانیت یا خواتین کی فلاح سے جڑا فلسفہ نہیں تھا نہ کسی کو پڑی تھی کہ خواتین معاشی طور پہ مستحکم ہوں، یا معیشت کا حصہ بنیں یا غربت کم ہو۔بلکہ خواتین کو باقاعدہ ایک حکمت عملی کے تحت افرادی قوت یا محنت منڈی کا حصہ بنایا گیا۔ جیسے زمانہ قدیم میں غلاموں کی منڈی میں ایسے غلاموں کو ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا جو کام زیادہ کرسکیں اور انکے دام کم ہوں ۔تاکہ کم لاگت سے زیادہ نفع یا فائدہ حاصل کیا جاسکے ۔

اسی طرح خواتین جو ایک وقت تک فقط گھرداری تک محدود تھیں انہیں لیبر فورس کا حصہ بنا یا جانےلگا اور وہ بھی اتنی بڑی تعداد میں۔ دراصل اس کے پیچھے سرمایہ داروں کی ایک ہی سوچ تھی ۔وہی سوچ جس پہ سارے کا سارا سرمایہ دارانہ نظام ٹکا ہے ۔”کم لاگت زیادہ نفع ”

کم اجرت پہ محنت کشوں کا حصول نفع کی شرح کو زیادہ سے زیادہ کرتا ہے۔کم اجرت پہ کام کرنے والے مزدور کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس کے لئے خواتین بہترین “سستی مزدور” ثابت ہوئیں۔ عورتوں کا سماجی استحصال ہوتا ہی آرہا تھا ۔صنعتی سرمایہ داری میں انکا معاشی استحصال بھی ہونے لگا ۔اور یہ مختلف جغرافیائی، ثقافتی اور معاشی وجوہات کی بنا پہ آسان ہدف بھی ثابت ہوئیں۔ عورتوں کو زیادہ سے زیادہ لیبر فورس میں شامل کرنے کے پیچھے بہت سے عوامل تھے جیسے کہ:

1: کم اجرت پہ کام کرنے پہ رضا مند ہوجاتی ہیں۔

2: اپنی روائتی نسوانی سماجی کردار کی وجہ سے مخصوص کاموں میں بہترین ہنر مند ثابت ہوتی ہیں

2: بلکہ بطور کارکن نرم مزاج اور تابع دار ہوتی ہیں۔

3: کم تعلیم اور کم مواقع میسر ہونے کی وجہ سے اپنے حقوق سے ناواقف ہوتی ہیں۔

4: شادی اور بچے کی پیدائش پہ انہیں برخاست کرنا آسان ہوتا ہے ۔

کام کے حصول سے عورتوں کو معاشی خودمختاری تو ملی مگر کام کرنے کی مناسب جگہ کا نہ ہونا، صحت کی سہولیات کا فقدان، زیادہ کام کم اجرت، مستقل نوکریوں کی بجائے عارضی اور ایڈہاک کی بنیاد پہ کام ملنا، صنفی امتیاز، شادی یا بچے کی پیدائش پہ نوکری کا چھن جانا،کام کی جگہ ہراساں کیے جانے، جیسے جبر کا بھی شکار بنی اور بن رہی ہے ۔

نیولبرل عناصر نے جہاں عورتوں کو سستی مزدور کے طور پہ معاشی چکر میں جگہ دی ۔وہیں کچھ نہ کچھ ریلیف بھی دیا ۔جسکا چرچا کچھ محترم لوگ کرتے ہیں۔جیسے کہ محنت کشوں سے متعلقہ قانون سازی اور یونین سازی وغیرہ ،مگر رسی ہمیشہ کھینچ کے رکھی گئی تاکہ غلام ہمیشہ غلام رہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کو صرف مزدور ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے، ہنر مند مزدور چاہئیں  تھے جو مشینوں کو چلا سکیں ۔انکی مرمت کرسکیں ۔تو تعلیم تک عام عوام کی رسائی ممکن ہوئی اور جب مزدور خواتین لیبر فورس کا حصہ بنیں تو انہیں بھی تعلیم تک رسائی ملی۔ مارکیٹ میں مقابلے کی فضا بنی تو مزدورں کو retain کرنے کی اصطلاح اور ضرورت نے جنم لیا کہ اچھا ہنر مند تعلیم یافتہ مزدورہماری کمپنی یا انڈسٹری کو چھوڑ کے دوسری جگہ نہ جائے تو مزید اصلاحات نے جنم لیا۔ کچھ نوالے اور ڈال دیے گئے ۔

مگر سیاست، معیشت  اور سماج میں عورت کو ہمیشہ اتنا ہی مقام اور اتنے ہی حقوق ملے ہیں جتنے آقاؤں کے مفادات کے لیے خطرہ نہیں بننے چاہیے تھے ۔مزدوروں سے متعلقہ قانون سازی ہو یا مزدور یونین سازی وہاں بھی سرمایہ داروں کا سیاسی اور معاشی اثر ورسوخ اور لیبر یونیز پہ مردانہ اجارہ داری نے عورتوں کے بنیادی حقوق کے حصول کو ہمیشہ ناممکن بنائے رکھا ۔
آج کی عورت شعوری اور تعلیمی لحاظ سے سابقہ نسلوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے ۔گلوبلائزیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی نے احساس محرومی اور حقوق کے حصول کے ادراک کو جلا دی ہے ۔امید بڑھ گئی ہے کہ غلامی کا دور اپنی آخری سانسیں گن رہا ہے ۔ طبقاتی سماجی معاشی استحصال سے آزادی ہمارا مقدر ہے۔
میرے ساتھیو! محاذ چھوڑ جانے کے سینکڑوں جواز ہیں ۔ڈٹے رہنے کے لئے ایک ہی کافی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

طبقاتی سماج سے آزادی!
Long live struggle

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply