• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حماس کی شیعت اور ناصبیت کا صیہونی پروپیگنڈا /ڈاکٹر ندیم عباس

حماس کی شیعت اور ناصبیت کا صیہونی پروپیگنڈا /ڈاکٹر ندیم عباس

اس وقت پوری دنیا فلسطین کی طرف متوجہ ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے باہمی اتحاد سے مسئلہ فلسطین کو اٹھایا ہے۔ میں حکومتوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ میں عام عوام کی بات کر رہا ہوں۔ اس وقت پوری امت شیعہ، سنی اور دیگر فکری گروہ مل کر قبلہ اول کے لیے آواز بلند کر رہی ہے۔ یہ اتحاد برکات دکھا رہا ہے۔ اب صیہونی پرور کمپنیاں شدید مالی نقصان اٹھا رہی ہیں۔ دشمن کو مسلمانوں کا باہمی اتحاد ہضم ہونا ممکن نہیں۔ اس لیے وہ آئے روز افتراق و اختلاف کی مہم چلاتا ہے اور منصوبہ سازی کرتا ہے کہ مسلمان باہم دست و گریبان ہو جائیں۔ چودہ سو سال پہلے کے واقعات کی توہین آمیز تشریح کرکے امت کو توڑا جاتا ہے۔ اب انہوں نے ایک اور منصوبہ سازی شروع کی ہے، جب عرب ممالک میں حماس کی تعریف و توصیف بڑھ گئی تو اس کے خلاف یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ حماس شیعہ نواز جماعت ہے۔ اس کے اسلامی جمہوری ایران سے تعلقات ہیں اور یہ ایران کے اشاروں پر چلتی ہے۔ ان لوگوں کا اصل مقصد ایرانیت اور شیعت کا فروغ ہے۔

فرقہ پرست ذہن پہلے ہی امت کو توڑنے کی کوشش میں ہوتے ہیں، انہیں یہ فکر لاحق ہوچکی تھی کہ کہیں ان کے ریال حرام نہ ہو جائیں، اس لیے فوراً اس پروپیگنڈے کو بڑے پیمانے پر نشر کیا گیا۔ اس حوالے سے باقاعدہ کمپین کے ساتھ ٹی وی پروگرام کیے جاتے ہیں اور سائیٹس پر کالم لکھوائے جاتے ہیں۔کالموں کے چند عناوین ملاحظہ کریں، اس سے آپ کے سامنے یہ حقیقت آشکار ہوگی کہ کیسا خطرناک کھیل جاری ہے:
۱۔ (الحماسیون) دعاة نشر (التشیع) فی فلسطین… فاللهم انتقم منهم شر انتقام “حماس کے پیروکار فلسطین میں شیعت کے پھیلاؤ کے مبلغ ہیں۔ خدایا! ان سے بدترین انتقام لے۔”
۲۔ حماس و العلاقة مع الشیعة و مشعل یحتفل بطقوس عاشوراء مع الشیعه فی لبنان۔ “حماس اور شیعوں سے تعلق، خالد مشعل نے لبنان کے شیعوں کے ساتھ عاشورہ کے مراسم میں شرکت کی۔”

۳۔ حماس اور سیاسی تشیع۔
۴۔ خالد مشعل نے اعلان کیا ہے کہ حماس، امام خمینیؒ کی معنوی اولاد ہے۔
۵۔ اخوان المسلمین، حماس اور ایران۔ حیرت انگیز سوالات۔
۶۔ اسلامی جہاد کی تحریک اور ایرانی شیعت کا عشق
۷۔ جب تک ایران کو غزہ میں پاؤں رکھنے کی جگہ نہ ملے
۸۔ فلسطین میں رافضیوں کا پلان
۹۔ فلسطین میں فارسی شیعت کا نفوذ
۱۰۔ شیعہ اور فلسطین، نفوذ جاری ہے
۱۱۔ فلسطین کو شیعہ کرنے کا ایرانی منصوبہ

اس کے مقابل شیعہ ممالک اور عوام میں یہ پروپیگنڈا بڑی تیزی سے کیا جا رہا ہے کہ حماس بلکہ سارے فلسطینی ہی ناصبی ہیں۔ اس لیے ایسے گروہ کی حمایت کرنا، جو ناصبی ہو ناصرف ضروری نہیں بلکہ حرام اور اہلبیتؑ سے دشمنی کے مترادف ہے۔ یہ پروپیگنڈا اس تیزی کی کیا جا رہا ہے کہ اچھے خاصے لوگ اس سے متاثر نظر آتے ہیں اور بار بار سوال کرتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی نسبت سے تو سیکولر لوگ اچھے ہیں، کم از کم وہ اہلبیتؑ کے دشمن تو نہیں ہیں، یہ تو اہلبیت کے دشمن ہیں۔ دیکھیں غزہ وہ علاقہ ہے، جہاں امام شافعی پیدا ہوئے اور اہل غزہ کی اکثریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ شافعی المسلک ہیں۔ امام شافعی کی محبت اہلبیتؑ کی دنیا قائل ہے، یہاں تک کہ انہیں شیعہ کہا جانے لگا۔ اس پر آپ نے وہ مشہور اشعار کہے تھے کہ اگر اہلبیت ؑسے محبت کا نام رفض ہے تو زمانہ گواہی دے کہ میں رافضی ہوں۔

اہل غزہ اور فلسطین بھی ناصبی نہیں ہیں۔ آپ آن لائن سرچ کرکے دیکھیں، یہاں کتنی مساجد کے نام اہلبیت ؑ کے ناموں پر ہیں۔ اسی طرح اہل غزہ اپنے بچوں کے نام اہلبیتؑ کے ناموں کی نسبت سے رکھتے ہیں۔ فلسطینی، آخر الزمان کے مصلح کے ہمرکاب جہاد اور تیاری کے لیے اپنے ملک کی مساجد میں حضرت مہدی علیہ السلام کی بیعت کرتے ہیں۔ مہدی موعود علیہ السلام سے یہی بیعت، حماس کی تحریک کے بڑے شہداء میں سے ایک شہید نضال فرحات کے وصیت نامے میں آئی ہے۔ نضال فرحات، قسام میزائلوں کے موجد ہیں، جو اسرائیلیوں کے دل میں رعب اور وحشت کے پیدا کرنے کا باعث بنے۔ ان سب سے بڑھ کا طول تاریخ میں شیعہ مراجع کا قبلہ اول اور فلسطین کے مظلوموں کی حمایت کا موقف رہا ہے اور بڑے بڑے علماء اہل فلسطین سے یکجہتی کرتے رہے ہیں۔ ہم چند مراجع کی آراء نقل کرتے ہیں:

علامہ سید شرف الدین عاملی، صاحب کتاب المراجعا نے دنیا بھر کی حکومتوں سے یہ خواہش کی کہ وہ برطانیہ پر دباؤ اور احتجاج کے ذریعے صیہونیوں کی اس پیشرفت کا راستہ روکیں۔ علامہ محمد حسین کاشف الغطاء نے 1350 ہجری قمری میں اپنے فلسطین کے تاریخی سفر کے دوران القدس شہر میں پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی مناسبت سے منعقدہ محفل میں شرکت کی اور اس میں مسلمانوں کے انحطاط اور زوال کے عملی اسباب بیان کیے، تفرقہ بازی سے پرہیز کی تلقین کی۔ آپ نے مسلمانوں کو اسلامی دنیا پر قبضے کی صیہونی تحریک کے خطرے سے آگاہ کیا اور اس سے مقابلے اور فلسطین کے دفاع کی دعوت دی۔ آپ کی یہ تقریر اس قدر موثر تھی کہ علماء نے کہا یہ ایک لاکھ تیار سپاہ سے زیادہ موثر ہے۔ آیت اللہ حکیمؒ نے ہمیشہ فلسطینیوں کی حمایت کی اور تحریک جہاد فلسطین کی مدد کی۔

امام خمینیؒ جس وقت نجف میں تھے، الفتح کے نمائندے کے جواب میں شرعی اموال کی ایک مخصوص مقدار اسرائیل سے جہاد کی خاطر فلسطینی مجاہدین کو دی۔ شہید مطہری ؒنے سورہ نور کی تفسیر میں افک کے بیان کے ذیل میں اس وسوسے کی طرف توجہ دی ہے اور اس کو رد کیا ہے۔ وہ ناصبی کا مفہوم سمجھانے کے ضمن میں اس افواہ کے رواج کو یہودیوں کی سازش قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فلسطین میں شیعہ بھی ہیں کہ جو دوسرے فلسطینیوں کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آیت اللہ کاشانی، آیت اللہ بروجردی، آیت اللہ طالقانی، علامہ طباطبائی، آیت اللہ گلپائیگانی، آیت اللہ نجفی مرعشی، آیت اللہ بہبہانی، آیت اللہ سید عبداللہ شیرازی جیسے عظیم مراجع نے ہمیشہ اہل فلسطین کی حمایت کی، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل فلسطین ناصبی نہیں ہیں۔ اگر ناصبی ہوتے تو اتنی بڑی تعداد میں مراجع کرام جن کی زندگی اہلبیت ؑ کے مکتب کی ترویج میں گزریں، کبھی بھی ان کی حمایت نہ کرتے۔

کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ جب فلسطین اور حماس ناصبی نہیں نہیں ہیں، مگر جب شام میں برا وقت آیا تو اس میں حماس نے پیٹھ میں چھرا گھونپ کر ہمیں نقصان پہنچایا۔ ایسے گروہ پر کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے، جو پہلے ہی بوقت ضرورت نقصان پہنچا چکا ہے؟ اس کا جواب کافی تفصیل طلب ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ حماس ایک بڑا گروہ ہے، اس میں بھی کئی طرح کے نظریات اور آراء ہیں۔ سب لوگ ایک رائے پر متفق نہیں ہوتے۔ ظاہراً شام کے مسئلے میں اہلسنت عوام تھی، اس کے ساتھ ساتھ ترکی اور قطر کا شدید دباو تھا۔ حماس کی سیاسی قیادت خالد مشعل سمیت وہاں مقیم ہے۔اس کے ساتھ بڑی مقدار میں پیسہ دینے کی بات تھی، جس سے غزہ کی تعمیر نو ہونا تھی۔ ان سب سے بڑھ کر اہل سنت عوام کا شدید دباو تھا، اس لیے حماس کے تین گروہ سامنے آئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک گروہ جو براہ راست اسرائیل سے لڑ رہا ہے، وہ اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ تھا، خالد مشعل وغیرہ قطر اور ترکی کے ساتھ تھے اور ایک گروپ دونوں کے درمیان تھا۔ اس طرح ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ گروپ مکمل طور پر شامی حکومت کے سامنے آگیا تھا، وہ اس کا ایک معمولی سا حصہ تھا۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ اسرائیل سے لڑنے والے اہل فلسطین کے گروپ نے شامی جنگ کے عروج کے زمانے میں بشار اور اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ اپنی وابستگی کا اظہار ایک کھلے خط کے ذریعے کیا تھا۔ یہ وقت باہمی طور پر اتفاق کے اظہار کا ہے، ایسے وقت میں کسی طور پر کھینچا تانی نہیں ہونی چاہیئے۔ ہمیں سوشل میڈیا پر متوجہ رہنا چاہیئے کہ جو جنگ کے زمانے میں اختلاف کی بات کرے، وہ ہمارا دشمن ہے۔ اہل فلسطین ناصبی نہیں ہیں اور عرب ملکوں میں جو انہیں شیعہ اور شیعیت پھیلانے والا کہا جا رہا ہے، یہ وہ بھی نہیں ہیں۔ شام میں ان کا کردار بہت قابل تعریف بھی نہیں ہے، مگر اس کی وجوہات موجود ہیں۔اس لیے ہمیں آگے بڑھنا چاہیئے اور اب قبلہ اول کی آزادی کی جدوجہد میں ان کی حمایت کرنی چاہیئے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply