• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلاول بھٹو زرداری کے نام تحریک شناخت کے بانی رضا کار کا کھلا خط

بلاول بھٹو زرداری کے نام تحریک شناخت کے بانی رضا کار کا کھلا خط

بلاول بھٹو زرداری
چیرمین پاکستان پیپلز پارٹی
بلاول ہاؤس کلفٹن کراچی
محترم بلاول صاحب
اسلام و علیکم
میرا نام اعظم معراج ہے ۔میں تحریک شناخت کا ایک رضاکار ہوں یہ تحریک معاشرتی آگاہی اور اجتماعی خؤد شناسی کی ایک فکری تحریک ہے۔جس کا نہ کوئی انتخابی سیاسی یا ،مذہبی ایجنڈا اور نہ ہی یہ کوئی این جی او ہے۔اس تحریک کا تفصیلی تعارف میں اس خط کے ساتھ بھیج رہا ہوں ۔میں اس خط کے ذریعے آپ کو چند ایسے حقائق بتانا چاہتا ہوں ۔جن کی مدد سے کوئی بھی قومی سطح کی سیاسی جماعت آنے والے انتخابات میں بہت بڑا سیاسی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں پر 75سال میں پندرہ انتخابات میں 6 بار 3 انتخابی نظام آزمائے گئے ۔لیکن یہ پاکستان کی ریاستی ،سیاسی،دانشور اشرفیہ آور مذہبی اقلیتوں کے ہر دور کے نمائندگان کی بہت بڑی ناکامی ہے،کہ عام غیر مسلم شہری کبھی ان نظاموں سے مطمئن نہیں ہوئے ۔پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 90لاکھ کے قریب ہے ۔جن کے ووٹوں کی تعداد 45 لاکھ کے قریب ہوگی۔۔یہ ووٹرز پاکستان کے کم و بیش ہر صوبائی و قومی حلقے میں پھیلے ہوئے ہیں ۔اس اعتبار سے یہ کوئی موثر سیاسی پریشر گروپ تو نہیں ہیں، لیکن یہ ووٹرز پنجاب اور سندھ میں 20 سے 15قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 45 سے50 انتخابی حلقوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ اسکے لئے ماضی اور حال کے انتخابی نظاموں سے بے چین، غیر مطمئن غیر مسلم شہریوں کے اس دیرینہ مسئلے کے حل کا عندیہ موجودہ انتخابی مہم میں دے گی۔، وہ ان 90لاکھ پاکستانیوں کے 45لاکھ ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کرکے ان حلقوں میں یقینی جیت حاصل کرے گی ۔ جیسے اوپر ذکر کیا گیا ہے ماضی میں ذمہ داروں  کی عدم دلچسپی اور متاثرین کا ہوم ورک نہ ہونے کی وجہ سے کبھی بھی یہ انتہائی اہم مسئلہ حل نہ ہؤا۔ گوکہ تاریخ میں تین بار ، اقلیتوں خصوصاً مسیحیوں کے مطالبے اور احتجاج پر ایک بار 1975میں بھٹو صاحب نے دوسری بار 1985میں ضیاء الحق صاحب نے اور تیسری بار پرویز مشرف صاحب نے2002میں اس مسلئے کو اہمیت دی۔ لیکن متاثرین اس وقت کے رائج نظام سے مطمئن تو نہ تھے۔۔ لیکن ان کے پاس بطور مطالبہ اپنی معاشرتی و سیاسی ضروریات اور پاکستان کے معروضی سیاسی حالات کے مطابق جمہوری ،آئینی باقاعدہ کوئی متبادل انتخابی نظام بھی نہیں تھا۔۔ اسی لئے یہ تین نظام بار بار دوہرائے جاتے رہے ۔۔میں اور میرے ساتھیوں نے پاکستان کے معروضی سیاسی و معاشرتی حالات اور ماضی و حال بلکہ 1909سے برصغیر میں اقلیتوں کے لئے رائج انتخابی  نظاموں کے بغور مطالعہ سے پہلی دفعہ مسلسل عرق ریزی سے نہ صرفِ مکمل لائحہ عمل کے ساتھ بے ضرر ، کسی بھی طرح ریاستی نہ کسی معاشرتی گروہ کے مفادات سے متصادم ہونے والا متبادل جمہوری آئینی انتخابی نظام تیار کیا ہے۔ بلکہ ملک بھر میں اس کے بارے دس سال سے بھرپور ،موثر آگاہی مہم چلائی ہوئی ہے۔ لیکن یہ ہمارے جمہوری نظام کا المیہ ہے۔۔ کہ نوے لاکھ لوگ 98 فیصد لوگ اس بات پر قائل ہیں۔۔کہ اس انتخابی نظام میں تبدیلی ضروری ہے ۔۔۔اس کے باوجود اس نظام میں تبدیلی کا فیصلہ صرفِ چار پانچ لوگ ہی کریں گے۔ جن میں سے ایک آپ ہیں ۔اب دیکھیں اس تاریخی کام کے لئے پہل کون کرتاہے ۔؟ ایک بات طے ہے ،جو سیاسی جماعت یا شخصیت پہل کرے گی، اسے بھرپور عوامی پذیرائی ملے گی۔۔ جس کے نتیجے نہ صرفِ اس جماعت کو ملک کے ہر حلقے میں اقلیتی ووٹ ملے گے، بلکہ اول الذکر نشستوں پر یقینی کامیابی بھی حاصل ہوگی۔ اور کسی قومی سیاسی جماعت کے لئے اس بات کے کریڈیٹ سے بڑی کوئی کامیابی بھی نہیں ہو سکتی کہ اس کے ریکارڈ پر یہ جملہ آ جائے کہ”اقلیتوں کے 75سالہ پرانے انتخابی نظام کا مسلہ ہم نے حل کیا ہے”اس بات سے یقیناً قومی کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی نیک نامی ملے گی۔۔ یہ قومی ترقی کے لئے بھی ایک اہم قدم ہوگا کیونکہ آج کے دور میں کسی ملک وقوم کی ترقی ماپنے کے اعشاریوں میں سے اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ اس ملک کے کمزور طبقات مثلاً بچوں عورتوں اور اقلیتیں کتنے خؤش اور مطمئن ہیں ۔۔لہٰذا مذہبی اقلیتوں کے لئے موجودہ انتخابی  نظام میں معمولی سی آئینی ترمیم جو اس دوہری نمائندگی والے انتخابی نظام کو دوہرے ووٹ سے مشروط کردینے کا عندیہ۔۔۔ اور انتخابی مہم میں بس یہ ایک جملہ کسی بھی سیاسی جماعت یا شخصیت کو اقلیتوں کا بھی ہر دل عزیز راہنماہ بنا سکتا ہے جو نیک نیتی سے اپنے انتخابی منشور میں یہ نعرہ شامل کرلے کہ” ہم اقتدارِ میں آکر اقلیتوں کو شفاف اور انصاف پر مبنی انتخابی نظام دیں گے ” میں اس خط کے ساتھ یہ مکمل لائحہ عمل اور مطالبے پر مبنی کتابچہ بھی بھیج رہا ہوں، آپ اپنے سیاسی ؤ معاشرتی حرکیات سمجھنے والے مشیروں سے کہیں اسے تفصیل سے پڑھیں۔یہ یاد رہے کہ آپکے اقلیتی نمائندے کبھی آپ کو آپکے اس مفت حاصل ہونے والے اتنے بڑے سیاسی فائدے سے آگاہ نہیں کریں گے ۔اس موضوع پر مزید بات چیت کے لئے میں اور میرے ساتھی ہر وقت دستیاب ہیں آپ یا آپ کا کوئی نمائندہ جب مرضی رابط کر سکتا ہے۔
واسلام

اعظم معراج
رضآ کار تحریک شناخت
منسلک
1.کتابچہ تحریک شناخت کے غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے دوہرے ووٹ کے مطالبے کا جائزہ.یہ کیوں ضروری ہے؟ آور کیسے ممکن ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

تعارف:اعظم معراج کا تعلق رئیل اسٹیٹ کے شعبے سے ہے۔ وہ ایک فکری تحریک” تحریک شناخت” کے بانی رضا کار اور 20کتب کے مصنف ہیں۔جن میں “رئیل سٹیٹ مینجمنٹ نظری و عملی”،پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کا کاروبار”،دھرتی جائے کیوں پرائے”پاکستان کے مسیحی معمار”شان سبزو سفید”“کئی خط اک متن” اور “شناخت نامہ”نمایاں ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply