ہمارے گرد انفارمیشن کا سیلاب ہے۔ خبروں کی کہانیاں، بازار کے فیشن، معیشت کے اعداد اور بہت کچھ۔ اور ان کے تجزئے سے ہم آج کا اور آنے والے وقت کا اندازہ لگاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اپنی دلچسپی کے سگنلز کو براہِ راست دماغ تک پہنچا کر نئی حس کی تخلیق کی جا سکتی ہے؟
مقناطیسی فیلڈ محسوس کرنے کا کامیابی سے تجربہ بائیوہیکر کر چکے ہیں، لیکن ہم اس سے زیادہ دلچسپ ممکنہ حسیات کی طرف جاتے ہیں۔
فرض کریں کہ آپ سٹاک ٹریڈر ہیں اور حصص کے اتار چڑھاوٗ کی انفارمیشن کے ڈیٹا سے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کونسا سٹاک کیسا پرفارم کر رہا ہے۔ تصور کیجئے کہ آپ کو یہ ڈیٹا براہِ راست بنیان کے ذریعے پہنچا دیا جائے؟ کیا آپ اس تجربے کا تجزیہ کر کے مستقبل کی پیشگوئی کی اچھی intuition بنا لیں گے کہ مارکیٹ کس سمت جا رہی ہے؟ اگر ہاں تو یہ ایک بہت ہی نئی قسم کی حس ہو گی۔
اب آپ سوال کریں گے کہ یہ کام آنکھ یا کان سے موصول شدہ سگنل سے بھی ہو سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آنکھ کے سگنل سے بہت سے دوسرے کام لئے جانے ہیں۔ جلد زیادہ بینڈوتھ کا انفارمیشن چینل ہے۔
کیا اس کی مدد سے سٹاک ٹریڈر محسوس کر سکے گا کہ تیل کی قیمت گرنے والی ہے؟ فلاں سٹاک بڑھنے والا ہے؟ یہ پھر یہ بے سروپا سوال ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے لئے سوچئے کہ آپ باغ میں چڑیا دیکھ رہے ہیں۔ آپ یہ نہیں کہتے کہ دیکھو یہ رہا فوٹون۔ اور اس کے ساتھ والا فوٹون کچھ مدہم ہے اور یہاں ایک لکیر ہے جو روشن ہے ۔۔۔۔ اور پس نتیجہ یہ نکلا کہ یہ چڑیا ہے۔ آپ بڑی تصویر دیکھتے ہیں۔ یہ حسیات کا تجربے میں ہونے والا ترجمہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انٹرنیٹ سے ان گنت اقسام کا ڈیٹا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کیوں نہ ٹوئٹر کی حس ہو جائے؟ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ٹوئٹر عالمی شعور کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ پوری دنیا پر پھیلا ہوا اعصابی سسٹم ہے۔ اس میں اہم (اور کچھ بالکل غیراہم) ٹرینڈ شور سے نکل کر اوپر آتے رہتے ہیں۔ اس لئے نہیں کہ کوئی کچھ کہنا چاہ رہا ہے بلکہ اس لئے کہ فلاں جگہ پر زلزلہ آیا ہے یا فلاں اہم شخصیت کا انتقال ہوا ہے یا فلاں نئی دریافت نے دنیا کی توجہ لے لی ہے یا فلاں میچ ہونے والا ہے۔ کسی جاندار کے لئے بھی اہمیت کی حامل انفارمیشن بہت سے شور میں ایسے ہی ابھرتی ہے (فلاں میرے پاس آ رہا ہے۔ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ مجھے پانی تلاش کرنا ہے)۔ بصارت انفارمیشن کے سیلاب سے نکالے گئے ٹویٹر پر سطح پر ابھرنے والے آئیڈیا اہم بھی ہو سکتے ہیں اور غیراہم بھی۔ لیکن یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ دنیا کی آبادی کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔
اگر میں اس کے کسی پہلو کو مزید قریب سے دیکھوں۔۔۔ جیسا کہ کسی شخص پر، کسی واقعے پر، کسی برانڈ پر، کسی آئیڈیا پر، یہ ہمیں مزید گہری انفارمیشن دے دے گا۔ مثبت تاثر ہے یا منفی، یہ موضوع زیرِبحث ہے یا پس منظر میں جا چکا ہے۔ کیا یہ خلاصہ جِلد کے ذریعے فرد کو اِن پُٹ کیا جا سکتا ہے؟ کیا اس کی مدد سے کسی محفل، کسی شہر یا دنیا کا موڈ معلوم کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں تو اس کی مدد سے ایسا تجربہ محسوس کیا جا سکتا ہے جو کسی فرد کے لئے ممکن نہیں۔ فرض کیجئے کہ ایک سیاستدان ایسی ڈیوائس کی مدد سے بڑے مجمع کا موڈ معلوم کر رہا ہے۔ یہ معلوم کر رہا ہے کہ جلسے کہاں پر کرنے کی ضرورت ہے۔ کونسے نعرے اور کونسی حکمتِ عملی کام کرتی ہے۔
اور پھر اس سے آگے بھی کیوں نہ نکل جائیں۔ کیوں نہ تمام ٹویٹ اصل زبان میں ہی فیڈ کر دئے جائیں۔ لاکھوں ٹویٹ فی سیکنڈ بنیان کے ذریعے جسم میں جا رہے ہوں۔ اب آپ دنیا کے شعور کے ساتھ پلگ ہو گئے۔ اس کی پراسسنگ دماغ میں شعور سے زیریں ہونے لگی۔ چلتے چلتے، کو معلوم ہو گیا کہ اسلام آباد میں کوئی سیاسی سکینڈل آیا ہے۔ برازیل کے جنگل میں آگ لگی ہے یا مشرقِ وسطیٰ میں کوئی تنازعہ شروع ہوا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ ایسا کرنا چاہیں گے لیکن یہ ہمیں عام سے ہٹ کر ممکنات کا بتاتا ہے۔ شاید آپ کہیں کہ اس ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کے لئے انسان کے بجائے کمپیوٹر کیوں استعمال نہ کر لیا جائے؟ کیا ذہین مصنوعی نیورل نیٹورک انسان سے کہیں بہتر پیٹرن نہیں پکڑ لیتا؟
ضروری نہیں۔ کمپیوٹر پیٹرن دیکھنے کے انتہائی زبردست کارنامے سرانجام دیتے ہیں لیکن جس میں بالکل ہی نکمے ہیں، وہ یہ جاننے میں کہ انسانوں کے لئے کیا اہم ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ایک وجہ یہ کہ انسانوں کو بھی پہلے سے نہیں معلوم ہوتا کہ انسانوں کے لئے اہم کیا ہے۔ کسی سڑک پر چلتے ہوئے اگر آپ منظر کا جائزہ لے رہے ہیں تو آپ کو خود بھی نہیں پتا کہ آپ دیکھنا کیا چاہ رہے ہیں۔ نیا فیشن؟ لوگوں کے موڈ؟ لیکن آوارہ پھرتی نگاہوں سے آنے والے سگنلز کی ہوتی پراسسنگ سے بھی بھی اچانک کچھ ابھر آتا ہے۔ مصنوعی نیٹ ورک تو صرف دئے گئے اعداد و شمار میں سے پیٹرن ڈھونڈتا ہے۔ اور یہ بھی صرف پروگرامر کی چوائسز تک محدود ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیکارٹ نے اس سوال پر سوچ بچار پر بہت وقت لگایا تھا کہ “ہمیں کیسے معلوم ہے کہ اصل رئیلیٹی کیا ہے؟” انہیں معلوم تھا کہ حسیات دھوکا دیتی ہیں۔ ہم کئی بار خواب کو حقیقت سمجھ لیتے ہیں۔ “مجھے کیا معلوم کہ کوئی مجھے جان کر اور طریقے سے اسی طرح دھوکا دے رہا ہے؟”۔ ہلیری پٹنام نے 1980 میں سوال کیا تھا، “کیا میں مرتبان میں رکھا ہوا دماغ ہوں جسے سائنسدانوں نے نکال لیا ہے اور تجربے کر رہے ہیں۔ کورٹیکس پر خاص سگنل دیتے ہیں تو لگتا ہے کہ کتاب کا لمس ہے، جلد کا درجہ حرارت ہے اور ہاتھ کا نظر آنا ہے”۔ اس سے اگلی دہائی میں یہ سوال “کیا میں میٹرکس میں ہوں؟” میں بدل گیا اور آج کل “کیا میں کمپیوٹر سمولیشن میں ہوں؟” سے جانا جاتا ہے۔
یہ سوالات فلسفے کی کلاس میں ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ ابل کر نیوروسائنس کی لیبارٹری میں آ رہے ہیں۔ یاد رکھیں کہ آپ کا تجربہ اور آپ کے گرد تخلیق کردہ دنیا حسیاتی ان پٹ کے سوا کچھ نہیں۔ سگنل کسی بھی طریقے سے پہنچ کر الیکٹروکیمیکل کرنسی میں تبدیل ہو جائیں، وہی کام کریں گے تو پھر سینسرز کی ضرورت بھی نہیں۔ زبان یا کان کے بجائے یہ براہِ راست دماغ کو ہی نہیں دیا جا سکتا؟
ایسی ٹیکنالوجی تو اس وقت بھی ہے۔ اس میں چند درجن الیکٹروڈز کے ذریعے سب کورٹیکل علاقے میں رعشے، ڈیپریشن یا نشے کی عادت سے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں۔ ایک لاکھ کی تعداد میں ایسے الیکٹروڈ کسی کے لئے مکمل رئیلیٹی تخلیق کر سکتے ہیں۔ ایسا تجربہ سٹینفورڈ میں بندروں پر ہو رہا ہے۔ اس میں فی الوقت رکاوٹ تھیوری کی نہیں، قابلِ عمل طریقے کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا سوال شاید یہ ہو کہ نئی حسیات حاصل ہونے والی حسیات کا احساس کس طرح ہوتا ہے؟ اور اس سے اگلا یہ کہ مقناطیسی فیلڈ کو ڈیٹکٹ کر لینے جیسی نئی صلاحیت حاصل کر لینے والوں کو کیا بو، نظارے، آواز، ذائقے کی طرح کچھ احساسات ناگوار لگتے ہیں جبکہ کچھ خوشگوار؟۔
خوشبو اور بدبو میں فزیکل فرق نہیں، ڈیٹکٹ ہونے کے طریقے کا فرق نہیں، ذہنی ادراک کا فرق نہیں، ہمارے ردِعمل اور جذبات کا فرق ہیں۔ کیا نئی حاصل ہونے والی حس بھی جذبات کے تار چھیڑ سکتی ہے؟
آپ کے یہ سوالات بہت ہی اچھے ہیں۔۔۔۔
(جاری ہے)
Facebook Comments