آمدہ الیکشن اور مغالطے/عمیر فاروق

صرف فوجی اشرافیہ ہی نہیں بہت سی سیاسی ایلیٹ بھی آمدہ الیکشن کے بارے میں بہت بنیادی مغالطوں کی شکار ہے جس کو ایڈریس نہ کیا تو ان کو اور ان کے سیاسی مستقبل کو یہ مغالطے لیکر بیٹھ جائیں گے۔

پہلا اور بہت بڑا مغالطہ یہ ہے کہ پیش آمدہ انتخابات سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونگے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ آئندہ انتخابات عوام اور جرنیل شاہی کے درمیان حق حکمرانی کے سوال پہ ہونگے۔ اور صورت حال کسی اور نے نہیں بلکہ خود جرنیل شاہی نے ہی پیدا کی ہے لیکن اب میدان سج چکا ہے صف بندی ہوچکی ہے۔

اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اگرچہ مراد سعید اور شاہ محمود قریشی دونوں ہی ہر مشکل میں عمران کے ساتھ کھڑے رہے لیکن عوام عمران کا جانشین شاہ محمود کو نہیں بلکہ مراد سعید کو صرف اس لیے سمجھتے ہیں کہ وہ لائن کے اس پار بڑی واضح طور پہ عوام کے ساتھ کھڑا ہے۔

اسی حقیقت سے ایک اور حقیقت بھی پھوٹتی ہے جہاں ایک بار پھر فوجی مقتدرہ مغالطہ کی شکار ہے اور وہ یہ حقیقت کہ اس وقت فوجی مقتدرہ اور عوام کے درمیان عمران ہی واحد پُل ہے جو کسی قابل قبول درمیانی حل پہ عوام کو قائل کر سکتا ہے۔ آپ عمران کو خارج کردیں تو پھر ایسا کوئی شخص موجود نہیں۔ سو سہیل وڑائچ جیسے چمچوں کا یہ بیان کہ” مقبولیت ہے لیکن قبولیت نہیں “بھی اسی حقیقت میں ڈوب جاتا ہے کیونکہ جنہوں نے قبول کرنا ہے خود انکی قبولیت ہی خطرہ سے دوچار ہے۔

ان حالات میں اگر جرنیلی اشرافیہ کوئی زبردستی کے انتخابی نتائج مسلط کرتی ہے تو یہ اس کی فتح ہرگز نہ ہوگی بلکہ یہ تقسیم اور کشمکش مزید گہری اور شدید تر ہوجائے گی۔ ایسی کوئی حکومت اور اسمبلی کی حیثیت ن لیگ کی پچھلی شہباز شریف والی حکومت سے بھی زیادہ پتلی ہوگی۔ عوام سے دور مخصوص افراد کے جھمگٹ میں عوام سے ڈری ڈری سہمی سہمی ، قوت فیصلہ سے محروم اور حکومت سے نکلتے ہی اپنی ہی حکومت سے اس طرح بریت کی کوشش جس طرح اب اختر مینگل اور محمود اچکزئی کرتے پھرتے ہیں۔

اس بات کا بھی پورا پورا امکان ہے کہ اگر انتخابی نتائج یوں بدلے گئے تو عوام پہلے دن سے ہی اسے مسترد کردینگے اور ایک نہ رکنے والی احتجاجی تحریک کی لپیٹ میں سارا ملک آ سکتا ہے۔

اسی طرح کا مغالطہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ کو زبردستی پارٹی چھوڑنے پہ مجبور کرنے کا ہے۔ پی ٹی آئی کی صحت پہ اس کا چنداں اثر نہیں کیونکہ جیسا عرض کیا کہ  ان انتخابات میں الیکٹیبلز کا کوئی خاص رول نہیں بلکہ ووٹ اسی تقسیم کی بنیاد پہ پڑے گا جو عرض کی۔ پی ٹی آئی کے پاس امیدواروں کی کمی نہیں وہ نئے امیدوار لے آئے  گی۔ فوجی مقتدرہ کو البتہ اس کا نقصان یہ ہوگا کہ دستبردار کئے جانے والے لوگ نسبتاً پرانے اور لچکدار اور ایسے لوگ ہونگے جو فوجی مقتدرہ سے کوئی سمجھوتہ کر لینے پہ تیار ہوسکتے ہیں۔ جبکہ انکی جگہ وہ نئے لوگ لیں گے جن کا فوجی اشرافیہ سے سرے سے کوئی رابطہ ہی نہیں اور نہ ہی وہ اس میں دلچسپی لینے والے ہونگے۔ اس غلطی کا اندازہ فوجی اشرافیہ کو الیکشن کے بعد ہوگا جب وہ پی ٹی آئی سے کوئی سمجھوتہ کرنے کی کوشش کرینگے تو علم ہوگا کہ سمجھوتہ کر لینے والوں کو خود اس نے نکلوا دیا تھا اور جو آئے ہیں وہ سمجھوتہ کے نام سے ہی بدکتے ہیں۔

اگلا مغالطہ بیانیہ کا مغالطہ ہے۔ وہ دور ہی گزر چکا جب کچھ ٹوئسٹ ماسٹرز کی مدد سے بیانیہ کا شربت تیار کرکے میڈیا کے ذریعہ عوام کو پلایا جا سکتا تھا۔ اب سوشل میڈیا اور بندے بندے کے ہاتھ میں موبائل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بیانیہ کا جن اب پوری طرح آزاد ہے اسے کوئی بھی کنٹرول نہیں کرسکتا ہے۔ آپ جو جی چاہے کرتے چلیں عوام اسے دیکھ کر اپنا بیانیہ خود ہی مرتب کرتی جائے گی۔
اسی کا ایک ذیلی نتیجہ یہ بھی ہے کہ الیکشن کمپین بھی کسی کی گرفت سے آزاد ہے۔ اگر فوجی اشرافیہ اس وہم کی شکار ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کو ہراساں کرکے ، بھٹو دور کی طرح اغوا کرکے الیکشن کمپین سے روک کر اپنی مرضی کے نتائج برآمد کر سکتی ہے تو یہ بھی بھول ہے۔ اصل الیکشن کمپین اب گلی محلے کے جلسوں، کارنر میٹنگز وغیرہ میں اتنی نہیں ہوگی جتنی سوشل میڈیا پہ ہوگی۔ سو ایسے ہھتکنڈے بھی کام دینے والے نہیں۔

بہرحال اب یہ فوجی اشرافیہ پہ ہے کہ ذہانت سے کام لیکر عوام کے گلیشیئر کے سامنے سے خود کو ہٹا لیتی ہے یا حماقت کا مظاہرہ کرتے اس تلے دب جاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اب تک فوجی اشرافیہ جس راہ پہ چلتی آئی وہ عین مین شاہ ایران والا راستہ ہے۔ اس راستہ پہ مزید کتنا سفر ممکن ہے شاہ ایران کے انجام کو پہنچنے سے قبل ؟ اس کا اندازہ الیکشن کے بعد ہی ہوگا فی الحال تو عوام بھی الیکشن کے انتظار میں بیٹھی ہے۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply