• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • جذباتیت سے بھر پور ہماری ناکام سفارتکاری۔۔۔ حبیب خواجہ

جذباتیت سے بھر پور ہماری ناکام سفارتکاری۔۔۔ حبیب خواجہ

کچھ عرصہ قبل سوشل میڈیا کے ہمارے بھائی لوگ ہم سب کے ممدوح و مقبول اور عالمِ اسلام کے ممتاز ترک لیڈر طیب اردگان کے نئے سفارتی کارنامے پر یوں بغلیں بجا رہے تھے جیسے اکیسویں صدی کی صلیبی جنگ میں کوئی بہت بڑی کامیابی مل گئی ہو ۔  اردگان کو پوپ فرانسس سے آفیشل ملاقات کیلیے جس کمرے میں لیجایا گیا ، وہاں ایک آفس ٹیبل رکھی ہوئی تھی جس کے ایک طرف ایگزیکٹو سیٹ تو دوسری طرف مہمانوں کیلیے دوسری چھوٹی کرسی رکھی تھیں ، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے ۔ شاذونادر ہی آپ آفس ٹیبل کے دونوں اطراف ایک جیسی ریوالونگ چیئرز دیکھیں گے . مگر اردگان کو نجانے اس میں کیا قباحت نظر آئی کہ ایک جیسی سیٹ کا مطالبہ کر دیا ۔ صاف ظاہر ہے میزبانوں کو ویسی ہی دوسری کرسی کہیں دوسرے آفس سے لانی پڑی اور تب ہی اردگان کہیں جا کر بیٹھے۔ تصویر میں دیکھا جا سکتا تھا کہ ٹیبل کرسیوں کا سیٹ یوں کیسے اور کتنا عجیب لگ رہا تھا۔

میں نہیں سمجھتا کہ میزبانوں کا اس میں ہتک کا کوئی ارادہ ہو سکتا تھا ۔ میرا خیال ہیکہ پوپ نے ملاقات کیلیے رسمی انداز سے ہٹ کر اپنے ذاتی آفس کا انتخاب ملاقات کو ذاتی پیرائے میں دوستانہ ماحول پیدا کرنے کیلیے کیا ہو گا  ورنہ ملاقات کا خصوصی آفیشل ھال کمرہ جہاں عموماً ایک چھوٹی سی میز کے دونوں جانب ایک جیسی نشستیں لگی ہوتی ہیں ۔ وہاں کیمروں کے سامنے میزبان اور مہمان ملاقات کی غرض و غایت پر رسماً کچھ مختصراً بولتے ہیں اور پھر باقاعدہ گفت و شنید کے مزید دور کیلیے دوسری رسمی جگہ آرامدہ صوفوں پر نشستند و گفتند ہوا جاتا ہے۔

سفارتکاری اور عالمی تعلقات کے تناظر میں بندہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ دو نشستوں کے درمیان تفاوت سے دو فریقوں کے مابین برابری کی حیثیت میں آخر کیا فرق آ سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس موقع پر اردگان کا مبینہ بیان خوب وائرل ہوا تھا : “ہم دنیا سے برابری کی حیثیت میں بات کرتے ہیں”۔

گو بعدازیں سوشل میڈیا پر ہی کچھ لوگ اس واقعے کی سند سے انکار بھی کر رہے تھے ، مگر آج کے اسلامسٹوں میں اس مزاج کی زیادتی سے بہرحال انکار نہیں کیا جا سکتا۔ وقت و وقت کی بات ہے ، تاریخ کے جھروکوں سے مختلف وقتوں میں جھانکا جائے تو ذیل میں دی گئی کچھ ملی جلی مثالیں نظر آتی ہیں۔

اسی ترکی کی سابقہ خلافت اور عظیم الشان سلطنت کے دوران اس کے عظیم حکمرانوں ، جنہیں سلاطین اور خلیفۃ المسلمین کہا جاتا تھا ، کے سامنے یورپ کے کتنے ہی عیسائی حکمران سندِ حکمرانی کے حصول کیلیے باقاعدہ جُھک کر قدم بوسی کرتے نظر آتے ہیں۔

سلطان صلاح الدین کا مد مقابل مسیحی بادشاہ جب میدان جنگ میں نظر نہ آیا تو معلوم کروانے پر پتہ چلا کہ وہ شدید علیل ہے۔ سلطان بے شمار خطرات کے باوجود اپنے شاہی حکیم کو ہمراہ لے کر دشمن فوج کے خیموں کے بیچوں بیچ سے گزرتے ہوئے اپنے ہم منصب دشمن کے خیمے میں جا پہنچا تاکہ اس کا علاج کیا جا سکے۔ اس حقیقی واقعہ پر یورپ میں کئی فلمیں بن چکی ہیں۔  یورپی زعماء و عوام آج تک اس بات کی بیحد قدر کرتے ہیں ، سلطان صلاح الدین ایوبی کی تکریم کرتے ہیں اور اسے انتہائی اچھے الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔  گویا اچھا بویا جائے تو اچھا کاٹنے کی امید بھی کی جا سکتی ہے۔

خاص طور پر جب اردگان پوپ کے پاس ایک خاص گفتگو کے لیے اور اس کو اپنے موقف کا ہمنوا بنانے کے مشن پر جائیں تو ضد پر مبنی ایسا انداز ہرگز نہیں اپنانا چاہیے ، جس سے ذاتی مخاصمت کو ہوا ملے۔  یاد رہے ، امریکی صدر ٹرمپ کے متنازعہ بیانیہ کے مد مقابل ترکی کے صدر یروشلم کو فلسطین کا دارالخلافہ قرار دینے کے ایشو پر پوپ سے مزاکرات کرنے گئے تھے۔ اس عظیم مشن کی کامیابی کیلیے جس نپے تلے انداز کی ، جس پائے اور انتہا کی سفارتکاری کی ضرورت ہوتی ہے ، اس قضیے کیبعد کسی حُسنِ ظن کی گنجائش نہیں رہتی۔

پوپ پوری کیتھولک دنیا کا مذہبی و غیر سیاسی پیشوا ہے۔ فلسطین کے ایشو پر امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک کے برعکس ہمیشہ مسلم دنیا کا حلیف رہا ہے اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کیلیے بھی “علامتی بڑے” کے طور پر ممتاز ہے۔ اور عمر میں بڑا ہونے کے سبب بھی اس کیلیے کم از کم اتنا سفارتی احترام ضروری ہے ، جتنا امریکی و یورپی حکمران سعودی یا دیگر مسلمان رائلز کیلیے بجا لاتے ہیں۔ ایسی بچگانہ ضد کسی نان ایشو کو خوامخواہ ناقابلِ رشک سفارتی بتنگڑ بنا سکتی ہے۔ یقین کریں یاسر عرفات ہوتا تو ایسا ہرگز نہ کرتا . کیونکہ پوپ کوئی بھی ہو ، ویٹیکن کی پالیسی مستقل طور پر اسرائیل مخالف اور فلسطین نواز رہی ہے اور فلسطینیوں سے بہتر اس بات کو کون جان سکتا ہے ، جن کا اسرائیل سے فلسطین کی آزادی کے حوالے سے ہمیشہ سے ویٹیکن کیساتھ مشترکہ موقف رہا ہے۔

انٹرنیشنل ریلیشنز اور سفارتکاری بھی آخر کوئی چیز ہے۔ ہمارے جذباتی لیڈر چھوٹے چھوٹے نان ایشوز پر نمبر ٹانک کر سادہ عوام کو خوش کر دیتے ہیں ، جو عرصہ دراز تک اپنے لیڈر کی نام نہاد جرات و بہادری کے ڈھول پیٹتے رہتے ہیں۔ جذبات کے رو میں بہہ کر کیے گئے فیصلوں اور بلنڈرز سے بعدازاں ملک و قوم ہی متاثر ہوتے ہیں اور عواقب بہرحال عوام کو بھگتنے پڑتے ہیں۔

پولینڈ میں بھٹو کا قرارداد کے صفحات چاک کرتے ہوئے ایک اہم اور فیصلہ کن میٹنگ سے اٹھ کھڑے ہونا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے   جس کے نتیجے میں مشرقی بازو کھونے جیسے ناقابل تلافی نقصان کے باوجود بھی بھٹو کے اس بلنڈر کو پاکستانی عوام آج تک کمال تفاخر سے یاد کرتے ہیں۔ حالانکہ سفارتکاری بُرے سے بُرے حالات میں بھی بساط الٹ کر جیت اپنے ملک کے نام کر دینے کا نام ہے۔ ہمیں بھٹو کے اس جزباتی عمل سے کیا ملا ؟ جس نے بالآخر مشرقی پاکستان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیئے۔

ایسا ہی کچھ سفارتی مزاق اس وقت بھی ہوا جب سعودی شاہ کی اچانک وفات پر امریکی صدر بھارت کے عرصے سے اپنے شیڈولڈ دورے کو مختصر کر کے تعزیت کیلیے سعودی عرب آئے تھے۔ وہ ابھی ائیر پورٹ پہنچے ہی تھے کہ عصر کی آذان کی آواز آئی۔  حالانکہ ابھی نماز میں کافی وقت تھا  مگر استقبال کیلیے آئے نئے سعودی شاہ دیگر عمائدین حکومت کے ہمراہ نماز کیلیے ایسے رخصت ہوئے کہ مہمان صدر اور انکی اہلیہ کو اکیلے ہی ائیر پورٹ پر چھوڑ دیا گیا۔ یوں مہمانوں کی بیجا سبکی ہوئی ، جسکا نہ صرف دنیا بھر کے مسلمان بھائیوں نے مزے لے لے کر خوب شغل منایا ، اور سعودی شاہ کے اس غیر سفارتکانہ فعل کی خوب واہ واہ کی گئی ، بلکہ دیگر ممالک کے میڈیا میں بھی پروگرامز روک کر بار بار امریکی صدر کی بیچارگی دکھائی گئی۔  یہ سفارتی بے ادبی تو تھی ہی مگر بمطابق اسلامی تعلیمات بھی مہمان کے شایانِ شان ہرگز نہیں تھا ، اسلام اتنا تنگ نظر بالکل نہیں جس طرح اس موقع پر پیش کیا گیا۔

اس جسارت کا خمیازہ سعودی حکومت نے یوں بھگتا کہ اوبامہ نے جاتے جاتے سعودیہ کو ناراض کر کے ایران کیساتھ طویل عرصہ سے حل طلب معاملات کو سعودی رضامندی سے بالا بالا ایک معاہدے کے ذریعے طے کر لیا   جس کو ریورس کرنے کیلیے سعودیوں کو پھر ٹرمپ کیساتھ شیطانی ناچ کے علاوہ نامعلوم اسکی کیا کیا خوشامدیں کرنا پڑیں۔ اسکی فیملی کو عالمی تاریخ کے مہنگے ترین تحائف دیئے گئے اور امریکہ کی ایسی ایسی شرائط پوری کی گئیں ، جن کو ماننا تو درکنار انکا سوچنا بھی سعودیہ کیلیے صرف تھوڑا عرصہ پہلے تک محال تھا۔  تا حال امریکیوں کی خواہش پر ایسا بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے جو سعودیہ کی اپنی اسلامی نظریاتی اساس سے بھی متصادم ہے۔

انٹرنیشنل ریلیشنز اور ڈپلومیسی دراصل بصیرت ، وسیع القلبی تحمل و بردباری کی متقاضی ہوتی ہے۔ ان لوازمات کے بغیر ٹرمپ بھی تمام عالمی حلقوں میں اَن ڈِپلومیٹک اور نا معقول سمجھا جاتا تھا۔ کم ہی کسی ملک میں اسے پسند کیا جاتا ہو گا۔ روایتی دوست ممالک سے بھی اسکے تعلقات سردمہری کا شکار رہے۔ عرصہ دراز سے متوقع اسکا برطانیہ کا دورہ بھی آخرکار ملتوی کرنا پڑا تھا ، کیونکہ والہانہ استقبال کی بجائے جگہ جگہ مظاہرے یا دوسرے معنوں میں جوتے پڑنے کا احتمال تھا۔  ممالک کے مابین دوستی ہو یا دشمنی ، ایک معقول سفارتی زبان اور مناسب و متناسب سفارتکارانہ رویے ہر حال میں ملحوظِ خاطر ہونے چاہئیں۔

سفارتکاری کا اصول ہے کہ کسی تنازعے کے شکار دونوں فریقوں سے جب تک آپ کے مفادات وابسطہ رہیں ، ہر دو کو حتی المقدور مطمئن و راضی رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر کے دورے پر آئے کئی سربراہانِ مملکت جب انڈیا جاتے ہیں تو بھارتیوں کو خوش کرنے کیلیے کچھ بولتے ہیں ، مگر اگلے ہی روز پاکستان آ کر ہمیں مطمئن کرنے کیلیے کچھ اور بیان دیتے ہیں۔

امریکہ عراق تنازعے کی شروعات میں عراق کے صدر صدام نے فرانس کے صدر متراں کو “بش کا کتا” کیا قرار دیا۔ پوری دنیا کے چینلز کو جیسے کچھ خاص مل گیا تھا ، جسکی بازگشت لمبے عرصے تک دنیا بھر میں سنی جاتی رہی۔ ایک اسٹیٹس مین ( statesman ) کے دوسرے ملک کے سربراہ مملکت کیلیے اس طرح کے ریمارکس سفارتی حلقوں میں انتہائی ناپسند کیئے جاتے ہیں۔ صدام کا جو حشر ہوا ، وہ سب کے سامنے ہے۔ کوئی بھی ملک یا سربراہِ مملکت اسکی مدد کو نہیں آیا تھا۔  ایسا ہی کچھ سفید ہاتھی کہنے والے کا ہوا۔ اپنے ہی ملک کی فوج سے پھانسی پا گیا ، مگر مرنا نصف صدی بعد بھی نصیب نہیں ہوا۔

دوسرے ہزارئیے کے شروع میں ایران سپین سفارتی مخمصہ اس وقت عروج پر پہنچ گیا ، جب ایرانی صدر ملٹی بیلئن یورو ڈیل کیلیے اسٹیٹ وزٹ پر اسپین آنے ہی والے تھے۔ شاہِ ہسپانیہ کی جانب سے ایرانی صدر کے اعزاز میں جو اسٹیٹ ڈنر دیا جانا تھا ، اس کے مینو میں وائن بھی شامل تھی۔ اسٹیٹ ڈنر میں ایرانی صدر اور ان کے وفد کے علاوہ شاہی خاندان کے افراد ، یورپی و دیگر ممالک کے سفارتکار اور بیشمار سرکاری لوگ بھی مدعو ہونا تھے۔  ایران نے مطالبہ کر دیا کہ سٹیٹ ڈنر کے مینو میں وائن کو شامل نہ کیا جائے۔ اسپینیشوں کا موقف تھا کہ وائن پینا اور پینے والے مہمانوں کو پیش کرنا ہماری پرانی روایت ہے۔ جسے نہیں پینا ، بھلے نہ پئے ، مگر چیف گیسٹ کو دیگر معزز مہمانانِ گرامی کو روکنے کا کوئی اخلاقی حق نہیں۔  اس وائن ایشو پر اچھا خاصہ سفارتی تنازعہ بن رہا تھا۔ عین ممکن تھا کہ اسٹیٹ ڈنر ہی منسوخ کر دیا جاتا یا دورہ ہی سرے سے منسوخ کر دیا جاتا ، جو یقیناً ایران کی بڑی سفارتی ناکامی اور انتہائی سبکی کا باعث بنتا۔

دنیا بھر کے کسی بھی فائیو سٹار ہوٹل کی ایک ٹیبل پر وائن کے شوقین اپنے جام ٹکرا رہے ہوتے ہیں تو کہیں قریب ہی باریش مسلمان اپنی باپردہ خواتین کے ساتھ  اپنے حلال مینو کو انجوائے کر رہے ہوتے ہیں۔ ہال کی کسی میز پر موجود وائن کو کوئی ہٹوا نہیں سکتا۔  ہاں البتہ باہمی عزت و احترام کا رشتہ استوار ہو تو آپ کا دوست احتراماً آپ کے سامنے اپنے لیے بھی نان الکوحل ڈرنک کا آرڈر کر سکتا ہے۔

یورپ میں قیام کے دوران کبھی بار جانا ہوتا تو غیر مسلم دوست اپنی بیئر منگواتے تو میں کوک طلب کر لیتا  مگر بارہا ایسا ہوا کہ کوئی غیر مسلم دوست میرے ساتھ ٹیبل پر شراب آرڈر نہ کرتا  بلکہ کہتا کہ آپ مسلم ہو ، نہیں پیتے ، میں آپکی اور آپکے مزہب کی عزت کرتا ہوں ، اور آپکے سامنے ایک میز پر شراب نہیں پی سکتا۔ یہ عزت و مروت حاصل کرنے کیلیے دوسروں کی عزت اور ترجیحات کا احترام بھی کرنا پڑتا ہے۔ عزت زبردستی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات ہمارے اسٹیٹس مین (statesmen) اور سفارتکار حضرات کو بخوبی ذہن نشین کرنا ہو گی۔

ایک سفیر جو میزبان ملک میں اپنے وطن ، مزہب و معاشرت کی نمائندگی کرتا ہے ، اس پر لازم ہیکہ ان کے ساتھ ساتھ میزبان ملک کے قوانین کی بھی پابندی اور تکریم کرے۔ غالباً نوے کے عشرے کے دوران اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب اور انتہائی معروف و کہنہ مشق سفارتکار کو امریکہ میں شراب پی کر غل غپاڑہ کرنے اور اپنی گرل فرینڈ پر جسمانی تشدد کے الزام میں جیل کی ہوا کھانا پڑی تھی  جس سے ہماری سفارتکاری پر بڑا سوالیہ نشان لگ گیا تھا۔

شمالی کوریا کے صدر کے صدر ٹرمپ کیساتھ تاریخی زبانی ٹاکرے پر اگر بات نہ ہو تو اس موضوع کیساتھ انصاف نہ ہوتا ۔ اس قسم کی سفارتکارانہ بدکلامی کا یہ اکلوتا واقعہ تھا جس میں معاملہ “جیسے کو تیسے” والا ہو گیا تھا۔ دونوں طرف کی لفظی گولہ باری نے دلچسپ سی مگر خطرناک صورتحال پیدا کر دی تھی۔  میرا یقین ہے کہ ٹرمپ کی جگہ اوبامہ ہوتا تو ڈپلومیٹک کرائسز کے باوجود دو سربراہان مملکت کے درمیان اتنا تناؤ ہرگز نہ پیدا ہوتا۔ جبکہ شمالی کوریا کا صدر اس قسم کی بد زبانی اگر بش دور میں کرتا تو جنگ یقینی تھی۔  ٹرمپ جیسا غیر مقبول امریکی صدر شمالی کوریا کیخلاف کوئی جارحیت کرتا بھی تو اسے اپنے جارحانہ ، متنازعہ اور غیر سفارتکارانہ رویے کیوجہ سے بش اور اوبامہ جیسی یورپی و عالمی تائید ہرگز حاصل نہ ہو پاتی۔

آئندہ دور میں جنگیں میدانِ جنگ میں ہرگز نہیں جیتی جائیں گی بلکہ ان کے فیصلے گفتگو کی میز پر ہونگے۔  علومِ تعلقاتِ عالم سے بہتیری شناسائی ، عالمی قوانین سے مکمل آگاہی اور بہترین سفارتکاری کے جوہر دکھا کر جیت اپنے نام کی جا سکے گی ؛ اور عالمی ترقی میں اپنا کردار اور جائز حق محفوظ کیا جا سکے گا۔  ان امور میں کسی بھی قسم کی غفلت کی قطعاً گنجائش نہیں ہو گی۔  کارگل جنگ اس بات کی گواہ ہے۔

عالمی قوانین اور تعلقاتِ عالم سے نابلد مشرف نے بھارت کی گردن تو دبوچ لی تھی ، مگر وزیر اعظم ، کابینہ اور وزارت خارجہ کو کسی قسم کے فیصلے میں شامل کیا اور نہ آگاہ کرنا مناسب سمجھا۔  نتیجتاً لاعلم سیاسی قیادت اور وزارتِ خارجہ پاکستان کی کوئی خاطرخواہ خدمت نہیں کر سکی۔  قریب تھا کہ کچھ حاصل کرنے کی بجائے پاکستان کو کچھ کھونا پڑ جاتا ، مشرف نے شریف کو کلنٹن کے پاس جانے کی درخواست کی  اور یوں انہوں نے ڈپلومیٹک کرائسز سے پاکستان کو نکالا۔

تعلقاتِ عالم اور عالمی سفارتکاری میں عامیانہ گفتگو کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں۔ جس ہمسایہ ملک کے ساتھ آپ پُر امن ، اچھے تعلقات کے متمنی ہوں ، اس ملک کے سربراہ بارے آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ “بڑے منصب پہ بیٹھا چھوٹا آدمی ہے”۔  ایسا کہہ کر ہمارا مہان وزیراعظم خود کو ٹرمپ اور صدام کی فہرست میں شمار کر چکا ہے۔ اس کے عواقب ہمارے سامنے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ ہمارا فون ہی نہیں اٹھاتا۔ کیوں اٹھائے بھئی ؟ کوئی آپ کو فون کرے یا کوئی آپ کا فون اٹھائے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ بھی ڈیڑھ چھٹانک کی زبان سنبھال کر رکھیں اور اپنی چونچ زرا دھیان سے کھولا کریں۔

برادر ممالک سے بے حد توقعات اور ان پر بیجا الزامات دو ممالک کے بیچ گہرے سفارتی رخنے پیدا کر سکتے ہیں۔  ایرانی سربراہِ حکومت کی آمد کے موقع پر ہی کلبھوشن گرفتاری کی اچانک نیوز بریک اور آرمی چیف کیساتھ ان کی ملاقات کے بعد جاسوسی ایشو میں ایران کی سرزمین کے استعمال پر بات چیت کی خبر ریلیز کرنے جیسے واقعات ایک بہت بڑا سفارتی تعطل پیدا کر سکتے تھے۔  واقفان حال بتاتے ہیں کہ ایرانی راہنما انتہائی رنجیدہ واپس تشریف لے گئے تھے جبکہ اس خفت میں ایرانی سفیر تو اپنے آنسوؤں پر قابو بھی نہ پا سکے تھے۔

سفارتی تعطل کی اسی قبیل کی ایک بدنما مثال موجودہ وزیر خارجہ کا سعودی مخالف بیان بھی تھا ، جس کے بعد کچھ عرصہ تک دو برادر اسلامی ممالک کے بیچ سفارتی تعطل اور سردمہری بھی رہی۔  ایران و سعودیہ کے ساتھ ہمارے اس سفاکانہ رویے کے سامنے آنے کے بعد آخر کونسا اور ملک ہم سے یوں برادرانہ تعلقات کا متمنی ہو سکتا ہے ؟ سوچنے کا مقام ہے۔

بارہویں صدی میں سلطان جلال الدین خوارزم نے اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات کے سراسر برخلاف اپنے دربار میں منگول سفیر کا قتل کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک لمبے عرصے تک پوری دنیا میں مسلمانوں پر زمین تنگ کر دی گئی۔ موقع دیکھ کر صلیبی جنگوں میں شرمناک شکست کا بدلہ لینے کے لیے عیسائی بھی منگولوں کے ہمرکاب ہو گئے تھے۔ دونوں نے مل کر مسلمانوں پہ پھر کیسے آسمان توڑے اور زمین نے کیسے فراوانی میں مسلمانوں کو نگلا اور دجلہ و فرات کیسے ہمارے اسلامی ، سائنسی و فلسفے کے علوم سے سیاہ اور مسلم خون سے سرخ ہو گئے تھے۔  علم کے گہوارے ، شاندار محلات ، قلعے اور دیگر عمارات کیسے مٹا کر خاکستر کر دئے گئے۔ ایک سفارتی جرم کی مسلمانوں کو اتنی بڑی سزا ملی ، جو وقت اور سرحدوں سے ماوراء ، اور تاریخ میں درج تمام ہی سابقہ حدوں سے متجاوز تھی۔

مگر کیا ہم نے اس سفارتی جرم اور اسک کی پاداش میں پانے والی طویل و شدید اور تاریخی سزا سے کوئی سبق اخز کیا ؟ افسوس کے ساتھ عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ اسکا جواب صرف نہیں ، نہیں اور نہیں میں ہے۔

ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب ہمارے طاقتور ترین مطلق العنان ڈکٹیٹر نے ہمسایہ برادر ملک کے سفیر کو انتہائی شرمناک طریقے سے امریکیوں کے حوالے کیا تھا۔ حالانکہ آج کے متفقہ مرتب شدہ عالمی قوانین بھی کسی صورت اس قبیح ، شرمناک اور قابل مزمت غیر اسلامی فعل کی اجازت نہیں دیتے۔ یوں ” نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ” ، مشرف نے جسے راضی کیا بھی تو وہ ایک شیطان تھا ، نام تھا جسکا جارج بش مگر ایک فوجی آمر سے بھلا کون پوچھے ؟

اس حقیقت کے باوجود کہ نبی مکرم نے نزاع کی حالت میں بھی امت کو بارہا سفراء اور سفارتی وفود کی اسی طرح تکریم کی وصیت کی تھی ، جیسے کہ آپ خود کرتے تھے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ نہ سلطان جلال خوارزمی نے نبی کی آخری وصیت کی پیروی کی ، نہ اسکی اقتداء میں ہمارے ڈکٹیٹر نے سبق سیکھا اور نہ ہی آگے کے امکانات کچھ بھی روشن ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسلامی دنیا کے ہمارے سفراء اور حکمران کب عقل کے ناخن لیں گے ؟ جبتک یہ سفارتکارانہ بلوغت نہیں پاتے ، نشاۃ الثانیہ اور رفعتوں کے اسلامی خواب بھی شرمندۂِ تعبیر ہرگز نہیں ہو سکتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply