کرکٹ کو شرفا کا کھیل یعنی Gentlemen Sports کہا جاتا ہے۔ کرکٹ کے افق کے دو عظیم ستارے ساچن ٹنڈولکر اور مرلی دھرن نے UNICEF کی جانب سے حالیہ ورلڈکپ کے ایک میچ کو “One Day For Children” کے نام کیے جانے کی تقریب میں بہت خوب صورت بات کہی۔
سپورٹس خصوصاً کرکٹ آپ کو وہ اقدار سکھاتا ہے جو ساری زندگی آپ کے ساتھ رہتی اور کام آتی ہیں۔ سو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے بچوں کی کھیلوں کی طرف رجحان سازی کے لیے خصوصی اقدامات کیے جانے چاہئیں تاکہ کھیل شروع ہی سے بچوں کو مقابلہ کرنا ، آگے بڑھنا ، ہار کو برداشت کرنا ، مخالف کے اچھے کھیل کی داد دینا ، فئیر پلے کے ذریعے ہی جیت کی کوشش کرنا ، اور محنت کے ذریعے کارکردگی کو بہتر بنانا جیسی انسانی خصوصیات سکھا سکیں جو زندگی کے ہر میدان میں انکے اور ملک و قوم کے کام آئیں۔
آپ اگر ان تمام خصائل کو ایک لفظ میں پرونا چاہیں تو وہ لفظ ہے “Sports Man Spirit” یا “Spirit of the Game”. غور کیجیے تو ان کھلاڑیوں کو آج بھی دنیا عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے جنہوں نے اپنے کیرئیر میں اچھی spirits کا مظاہرہ کیا۔ بڑے کھلاڑیوں کو میدان میں کبھی معیار سے گری ہوئی حرکتیں کرتے نہیں دیکھا۔ انہوں نے کھیل کو عزت دی تو بدلے میں کھیل نے انہیں مقام دیا۔ یہی ہر میدانِ عمل کا دستور ہے۔
اس جہان میں قوانین ہمیشہ اخلاقیات کی طرف سر اٹھا کے ہی دیکھتے ہیں۔ اخلاقیات ہمیشہ قوانین سے ایک قدم آگے چلتی ہیں۔ مثال کے طور پر زندگی میں بیشتر ایسے مقامات آتے ہیں جب کوئی شے قانون کے خلاف نہیں ہوتی مگر اخلاقی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتی۔ قانونی حقوق اخلاقی اصولوں کی پاسداری میں ترک کرنے پڑتے ہیں۔
کرکٹ کی دنیا کے بے تاج بادشاہ عمران خان کا سری کانت کا اپنے آؤٹ ہونے پر اعتراض کرنے پر دوبارہ واپس بلانا اور اس سے اگلی گیند پر دوبارہ آؤٹ ہونا کسے یاد نہیں ۔
دی گریٹ کورٹنی والش کا شارجہ کپ کے فائنل میں آخری وکٹ ہونے کے باوجود عبدالقادر کو اپنے رن اپ فالو تھرو میں رن آؤٹ نہ کرنا بھی اسی اخلاقیات کی سنہری مثال ہے۔ ان دونوں مواقع پر Spirit of the Game قانون سے جیت گئی تھی۔
کل سری لنکا اور بنگلہ دیش کے میچ میں ایک تاریخی واقعہ پیش آیا جب کسی بیٹسمین کو ٹائم آؤٹ قرار دیا گیا ہو۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ اینجلو میتھیوز پانچویں نمبر پر بیٹنگ کرنے کے لیے پہلے ہی کچھ دیر سے آئے تو کریز پر پہنچ کر انکے ہیلمٹ کا سٹریپ ٹوٹ گیا۔ اتنی دیر میں معینہ دو منٹ کا وقت پورا ہو چکا تھا بنگلہ دیش کے کپتان شاقب الحسن نے اپیل کی تو امپائرز نے میتھیوز کو آؤٹ قرار دے دیا۔
میتھیوز نے امپائرز کو ہیلمٹ دکھانے کے بعد شاقب سے باقاعدہ پاس جا کر درخواست بھی کی ہیلمٹ کا ٹوٹا ہوا سٹریپ بھی دکھایا۔ یہ بہترین موقع تھا کہ شاقب بحیثیت مخالف کپتان صرف میتھیوز کی اپنی جانب امید سے دیکھتی نظروں کا پاس نہ رکھتا بلکہ اپنی طرف ایک آس بھری نگاہ ڈالتی کھیل کی اخلاقیات کا مان رکھتا لیکن افسوس کہ بنگلہ دیشی کپتان نے کھیل کی اخلاقیات کا بھرم توڑ دیا وہاں اپیل واپس لے کر وہ ایک بڑا کھلاڑی بن سکتا تھا لیکن۔۔۔
کرکٹ کے کھیل کا میدان ہو یا زندگی کے کسی بھی میدان کا کھیل ، ٹریک ریکارڈ انسانی آنکھ کی وسعت سے آگے دیکھنے کے لیے اندھے کی لاٹھی کا کام کرتا ہے۔ شاقب الحسن کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ کبھی آؤٹ ہو کر وکٹوں پر بلا دے مارنا ، کبھی امپائر کے آؤٹ نہ دینے پر سٹمپس اکھیڑ دینا تو کبھی بحیثیت کپتان ہر بال پر لا ابالی سے ری ایکشنز دینا اسے اس مقام تک لے آیا کہ جہاں اس نے لمحاتی فائدے کا اسیر ہو کر ہمیشگی کا نقصان اٹھایا۔ جہاں اس نے بڑا آدمی بننے کا موقع گنوا دیا اور جہاں اس نے سپرٹ آف دی گیم کو قانون کی لاٹھی سے ہانک کر میدان سے باہر جا کیا۔ سوائے بنگلہ دیشی مبصر کے میں نے کسی بھی کرکٹ کے ماہر یا شائقین کو اس حرکت کی ستائش کرتے نہیں دیکھا۔ افسوس کہ جس اخلاقیات اور گیم اسپرٹ کا ہم عام شائقینِ کرکٹ تک خیال رکھتے ہیں اس سے بنگلہ دیشی ٹیم کا کپتان کتنا دور کھڑا دکھائی دیا۔
بحرحال میتھیوز کو “قدرت کے نظام ” میں شاقب الحسن کو آؤٹ کر کے گھڑی یعنی ٹائم آؤٹ کا اشارہ کر کے اپنا غم و غصہ کچھ نہ کچھ ٹھنڈا کرنے کا موقع مل گیا۔ کل شاقب الحسن نے شرفا کے اس کھیل کے ساتھ غیر شریفانہ حرکت کر کے اچھا نہیں کیا۔ یاد رہے کہ اس میچ سے دونوں ٹیموں کے پوائنٹس ٹیبل پر کوئی اثر نہیں پڑنا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں