فکرِ اقبال کا ایک تنقیدی مطالعہ/سلطان محمد

نومبر کا مہینہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرنے کا مہینہ ہے۔ اِس موقع پر اقبال ہی کے مصرع:

خُوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے
کے مطابق اقبال کو کچھ خراج “حقیقت” پیش کیا جانا بھی ضروری ہے۔ امید ہے کہ ان آرٹیکلز سے دوست اقبال شناسی کے ایک نئے پہلو سے آشنا ہوں گے۔ یہ اس سلسلے کا پہلا آرٹیکل ہے۔

“اقبال دہشت گردوں کا نفسیاتی مرجع اور فکری امام ہے۔”

اقبال کی فکر انتہا پسندوں اور ممکنہ طور پر دہشت گردوں کے لئے ایک معدن کا کام کرتی ہے جس میں سے وہ جب چاہیں فکری سطح پر اپنی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کے فروغ اور دفاع کے لئے اپنے مقصد کے جواہر برآمد کر سکتے ہیں اور کلامِ اقبال میں آپ کو یہ شگوفے جا بجا کھلے ہوئے نظر آئیں گے۔ مثلاً:

میں تُجھ کو بتاتا ہوں تقدیرِ امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے قومی نشاں ہمارا

ایسی ذہنیت سے “ترکھاناں دے منڈے” ہی جنم لے سکتے ہیں اور کچھ بعید نہیں کہ جو ریاست اس ذہنیت (شمشیر و سناں اور تیغ و خنجر) کو ریاستی پالیسی کے طور پر اپنائے، اسے دُنیا بھر میں دہشت گردی کے سرپرست کے طور پر دیکھا جائے۔ یہ شاید محض اتفاق نہیں کہ ہمارے قومی پرچم پر اسی ہلال کی شبیہ بنی ہوئی ہے جسے بیان کرنے کے لئے اقبال نے خنجر کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہی ہے کہ ہم ابھی تک ایف اے ٹی ایف کی واچ لسٹ پر ہیں اور دہشت گردی کے لئے فنڈز کے ممکنہ استعمال کو روکنے کی خاطر سٹیٹ بینک کو دی گئی انکی ہدایات کے باعث اپنے ملک میں، اپنے ہی اکاؤنٹ میں بغیر شناختی کارڈ کاپی کے پیسے جمع نہیں کرا سکتے۔

دی اذانیں کبھی یورپ کی کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں

ترکی میں رومن ایمپائر کے دور کے تاریخی کلیسا آیا صوفیہ کو عثمانی سلطنت کے دور میں مسجد میں تبدیل کرنا اس کی محض ایک مثال ہے۔ ساتھ ہی یورپ کے کلیساؤں میں “آذانیں” دینے والوں کو یہ دُکھ بھی ستائے جا رہا ہے کہ بھارت میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کیوں تعمیر کیا جا رہا ہے۔

دشت تو دشت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحرِ ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم نے،

اور
مغرب کی وادیوں میں گونجی اذاں ہماری
تھمتا نہ تھا کسی سے سیل رواں ہمارا

ہوسِ قبضہ گیری کی اس سے بہتر مثال کسی اور شاعر کے کلام میں کیا ملے گی؟ جب ایسا کلام کہنے والے کو قومی شاعر اور رہنما بنایا جائے گا تو خارجہ پالیسی میں آس پاس کے ممالک اور خطوں کو اپنا پانچواں صوبہ بنانے کی ذہنیت در آنے کو کون روک سکتا ہے!
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اِک بہانہ
ہماری سیاسی اور عسکری تاریخ شاہد ہے کہ اسی جھپٹنے اور پلٹنے کے شوق میں ہم نے کئی ایڈونچرز کیے۔ وہ الگ بات ہے کہ ان میں سے اکثر میں ہمیں ہزیمت اٹھانا پڑی، اور عالمی سطح پر رُسوائی ہوئی، سو الگ!

فاطمہ! تُو آبروئے اُمتِ مرحوم ہے

پوری مہذب دنیا میں بچّوں کو جنگ میں استعمال کرنے کی نہ صرف ممانعت ہے بلکہ اس کی مذمت کی جاتی ہے۔ اقبال نے جنگِ طرابلس میں ایک بارہ سالہ بچی فاطمہ بنت عبداللہ کی محاذ جنگ پر جانے، زخمیوں کو پانی پلانے ، اور اس دوران ایک اطالوی فوجی پر حملے کے نتیجے میں شہید ہونے کو گلوريفائی کرنے کے لئے اسی نام سے نظم لکھی جس میں اس بچی کو “آبروئے اُمتِ مرحوم” قرار دیا ہے۔ پوری نظم  اقبال کی کتاب بانگ درا یا ریختہ ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس ذہنیت سے بچّوں میں خودکش بمبار بننے کی سوچ پیدا نہیں ہوگی تو کیا ہوگا؟

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
شہادت کے نام پر موت کو گلوريفائی کرنا ایک بیمار ذہنیت کی نشانی ہے جسے مشہور جرمن نژاد امریکی ماہر نفسیات ایرک فرام نے “نیکرو فیلیا” (Necrophilia) کا نام دیا ہے۔ یہ کام دو ادارے، مذہب اور فوج، خوب کرتے ہیں۔۔ زندگی سے مایوسی اور نفرت اور موت سے محبّت ہی انتہا پسند ذہنوں کو دہشت گردی، حتیٰ کہ خودکش حملوں پر مائل کرتی ہے۔
ہماری رائے میں بعض علماء منبر پر بیٹھ کر اپنے بیانات میں حوروں کا سراپا اور جنّت کی تفصیلات بیان کرکے اسی نیکروفیلیا کو پروموٹ کرتے ہیں اور اس طرح ایک لحاظ سے خود کش بمباروں کی ذہنی آبیاری کرتے ہیں۔
دوسری طرف ادب، آرٹ، کھیل، رقص، اور موسیقی سے محبت زندہ رہنے کی خواہش اور زندگی سے محبت (Biophilia) کی غماز ہے۔اب بھی اگر بات سمجھنے میں کوئی دشواری پیش آرہی ہو تو یہاں سے واپس اوپر جا کر طاؤس و رباب آخر والا شعر ایک مرتبہ پھر پڑھیے۔
یادش بخیر: علامہ اقبال بعض غیر سویلین اداروں کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی، مولانا خادم حسین رضوی مرحوم اور اُن سے پہلے تنظیمِ اسلامی کے بانی اور عالمی خلافت کے علمبردار ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے بھی پسندیدہ شاعر تھے۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب جماعت اسلامی سے الگ ہونے سے پہلے اس کی طلبہ تنظیم، اسلامی جمیعت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہ چکے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ مضمون آزادی اظہارِ رائے کے تحت شائع کیا جارہا ہے،تحریر کے مندرجات سے ادارے کا اتفاق ضروری نہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply