دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ” تم بھی کرسکتے ہو”/ارشد خان آستک

بِنا  صلاحیت کے موٹیویشن کی مثال نشے کی سی ہے کہ نشے میں انسان پہاڑ پر بھی چڑھ دوڑ سکتا ہے لیکن جب نشہ اُترنے لگتا ہے تو وہ انسان اپنے مسلز اور ہڈیوں کا جو نقصان کرچکا ہوتا ہے اس کا احساس تب اسے ہونے لگتا ہے۔ لہٰذا یہ ٹھیک ہے کہ کامیابی محنت اور مشقت سے ملتی ہے لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہ ہوا کہ بندہ کامیابی پانے کے لیے خودکشی ہی کرلے۔ کامیابی تو ہاتھ آئے لیکن بندہ نہ رہے یا رہے بھی تو کام کا نہ ہو۔ یعنی اگلے جہاں کوچ کر جائے یا کوچ کرجانے کے مترادف والی حالت ہوجائے یعنی کوئی مستقل ذہنی یا جسمانی معذوری گلے پڑ جائے وغیرہ وغیرہ۔

دنیا کا سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ انسان اگرچاہے تو سب کچھ کرسکتا ہے بس صرف محنت، لگن ، خلوص اور ایمانداری شرط ہے یا بالفاظ دیگر کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ، سب ممکن ہے، ہرگز نہیں۔

میری طرف سے کوئی ڈیموٹیویٹ ہوتا ہے تو ہوجائے لیکن میں تو سچ ہی بولوں گا اور اسی لیے تو کہتے ہیں سچ کڑوا ہوتا ہے۔ کون کون سے کام ہیں جو آپ کی تمام تر محنت ، قابلیت اور خلوص کے باوجود بھی ناممکن ہیں اس کی ایک لمبی لسٹ بن سکتی ہے۔ مثلاً سورج یا چاند کو آپ آسمان(خلاء) سے اُتار کر اپنے گھر کے اندر لاکر قید نہیں کرسکتے۔ آپ کوہ ہمالیہ کا سارا کا سارا پہاڑی سلسلہ ایک دن میں ایک کلہاڑی سے نہیں ملیامیٹ کرسکتے۔ آپ ایک ہی وقت میں دنیا میں ہر جگہ بیک وقت فزیکلی موجود نہیں رہ سکتے! غرض ایک لمبی لسٹ بن سکتی ہے۔ لہٰذا یہ جھوٹ بولنا اور پروموٹ کرنا بند ہونا چاہیے کہ کچھ بھی نا ممکن نہیں ہے۔

ہٹلر اپنے سپاہیوں کو زیادہ ایکٹیو بنانے کو  رات کو بھی نہ سو پائے،اس  کے لیے میٹافیتامائن نامی کیمیکل کے نشے کے انجکشنز لگوایا کرتا تھا ،پھر وہ واقعی میں ساری ساری رات نہیں سوتے اور تھکتے تھے۔ گرمی سردی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ ہٹلر خود بھی چستی اور طاقت کے واسطے یہی نشہ کیا کرتا تھا، اسی لیے جب وہ مشہور زمانہ نازی سلیوٹ کرنے کے لیے ہاتھ اٹھاتا تو گھنٹوں ہَوا میں معلق رکھتا۔ لہٰذا اسی طرح ایک مخصوص وقت کے لیے ہٹلر اور اس کی فوج خود کو ابنارمل کرکے اکثر جنگیں جیت جایا کرتی تھی گوکہ بعد میں میڈیکل کونسیکوینسز انہیں فیس کرنے پڑتے تھے۔ بلوچستان کے سرحدی علاقوں کے حوالے سے ایک دوست کا کہنا تھا کہ وہاں مزدوروں کو نشہ کروایا جاتا ہے پھر اکیلے ایک مزدور گاڑیوں کے انجن کے اور دیگر انتہائی بھاری پارٹس اٹھاکر دور دور تک میلوں پیدل لے جاتے ہیں۔ یہ پارٹس اتنے بھاری ہوتے ہیں کہ عام بندہ اسے اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ لیکن   ! جب نشے کے  بادل  چَھٹنے لگتے ہیں تو بندہ درد سے کراہنے لگتا ہے۔ ٹوٹنے لگتا ہے، چیختا ہے ، چلاتا ہے۔ نفسیاتی طور پر بھی ایگریسیو بن جاتا ہے۔ اس درد کی کیفیت کو دور کرنے کے لیے اور اگلے دن پھر سے بھاری کام ایفیشنٹ طریقے سے کرنے کے لیے ایسا بندہ پھر سے وہ نشہ لے لیتا ہے۔ بس یہ پھر اس کی  روٹین بن حاتی  ہے اور اسی طرح بظاہر لوگوں کو طاقتور دِکھنے والا اندر سے مسلسل کھوکھلا ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر چند سال ہی جی پاتا ہے۔

لہٰذا اب اگر بِنا مناسب صلاحیت اور مہارت کے کچھ الگ کرکے دکھانے واسطے آپ کو نتیجتاً ذہنی یا جسمانی طور پر ابنارمل ہونا بھی قبول ہو تو پھر ٹھیک ہے بھئی !   چوائس اِز یورز! لیکن نارمل ہونے کی قدروقیمت کا ان سے پوچھیں جو قدرت کی جانب سے  ابنارمل یعنی ڈس ایبل پیدا کیے گئے ہیں۔ لہٰذا بہتر یہ ہوتا ہے کہ انسان میں جو قدرتی طور پر جس لیول کی صلاحیت ہے اسی کے مطابق ہی بس کام کیا کریں ، تھکن پر چھوڑا کریں،  جہاں دوسرے ماہر کی ضرورت ہو اس کے حوالے کیا کریں ، نیند آئے تو سویا کریں۔ اوور ایکٹ کرنے کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ استطاعت سے بڑھ کر کوئی کام آپ کریں گے تو نہ کام کا حق ادا ہوگا اور نہ آپ سلامت رہ پائیں گے۔ خرابی کی صورت میں مستقبل میں رہی سہی استطاعت بھی آپ کھو دیں گے۔

نشہ چاہے الفاظ کا ہو یا کیمیکل کا،  کسی بڑے کام میں کود کر دو چار اسٹیپ آگے جانے میں آپ کو ضرور مدد دے سکتا ہے لیکن اور تادیر    آپ اس بڑے کام کو  جاری  نہیں رکھ پاتے اور اگر بِنا حقیقی صلاحیت کے آپ محض نشے کے زور پر اس کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں تو نتیجتاً آپ کو
severe medical mental or physical consequences face
کرنے پڑیں گے۔ کام تو ہوجائے گا لیکن آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ ایک گارڈ خود کو سامنے کرکے بھی شیشے کے آفس میں بیٹھے ہوئے اپنے  مالک کی طرف آنے والی گولی  سے مالک کو کسی حد تک بچاسکتا ہے، اور یہی کام اگر وہ پروفیشنل ہو ریت کی بوری سامنے رکھ کر یا حملہ آور پر ادھر اُدھر فائرنگ کرکے اس کا نشانہ اپنی طرف موڑ کر اس کی فائرنگ کو ڈسٹریکٹ کرکے بھی کرسکتا ہے لیکن دونوں کیسز میں گارڈ کا انجام  یکسر مختلف ہوگا۔ یعنی بِنا مہارت اور صلاحیت کے خالی خولی مالک کو بچانے کی موٹیویشن کافی نہیں ہے ۔

بِنا حقیقی صلاحیت کے محض الفاظ کا موٹیویشن بھی ایک طرح کا ہیلوسینیشن ہی ہے۔ بالکل ایسے جیسے کوئی بھی نشہ آور چیز یا Pain killers بندہ استعمال کرتا ہو۔ اس سے واقتی طور پر بندہ  بہتر  نہیں ہوجاتا بلکہ وہ وقتی طور پر بھول جاتا ہے کہ وہ unfit ہے۔ مثلاً اگر میں آپ کو کہوں کہ بیٹا تم کرسکتے ہو! انسان اشرف المخلوقات ہے جاؤ ریل گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کر اسے ہاتھوں سے روکنے کی کوشش کرو انسان میں اللہ نے بہت طاقت رکھی ہے ؛ سچے دل سے کرنا چاہیے،   یقین کے ساتھ کرنا چاہیے  تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے  وغیرہ وغیرہ ، تو شاید آخر کار آپ اٹھ کر جانا شروع کردیں۔ غور کریں یہ ایک طرح کا ہیپناٹزم بھی ہوا۔ اس طرح سے شاید میں آپ کو اس کام کے لیے تیار ضرور کروں لیکن چونکہ آپ میں اور کسی بھی انسان میں یہ استعداد ہوتی تو نہیں ہے اس لیے انجام کیا ہوگا؟ آپ کی تباہی! آپ کی موت ! ریل گاڑی مگر نہیں رُکے گی!

ایک نفسیاتی بیماری ہے جس کوShining Object Syndromeکہتے ہیں یعنی ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگنا  ، اس بیماری کے شکار افراد ہی اکثر بِنا اس بات کا خیال کیے کہ ان میں استعداد ہے بھی کہ نہیں بس صرف دوسروں کی دیکھا دیکھی اور دوسروں کی  کامیابی کی کہانیاں  پڑھ سُن کر   کسی  بھی کام میں کود  جاتے  ہیں اور ایسا اس وجہ سے یہ لوگ کرلیتے ہیں کہ رہی سہی کسر موٹیویشنل سپیکرز نے ان کو یہ بتابتا کر پوری کی ہوتی ہے کہ فلاں بھی تو آپ جیسا انسان ہے اگر وہ کرسکتا ہے تو تم کیوں نہیں کرسکتے؟ یا میں کرسکتا  ہوں تو تم کیوں نہیں کرسکتے۔ سب ایک جیسے انسان ہیں۔ سب کے پاس ایک جیسا دماغ ہے۔ ایک جیسا جسم ہے، وغیرہ وغیرہ۔

اب یہ بھی سراسر جھوٹ ہے، سب کا جسم نوع کے حساب سے تو ایک جیسا ہے یعنی سب انسان ہیں تو باڈی پارٹس ایک جیسے ہوں گے لیکن بالکل ہی ایک جیسے اجسام بالکل بھی نہیں ہیں۔ انفرادیت ہے۔ انفرادیت ایک حقیقت ہے۔ یہی ایک انسان کی شناخت ہے۔ اپنی اس  انفرادیت  پر فخر کریں،اسے حقیر مت سمجھیں۔ ہمارے جس طرح فنگر پرنٹ یا آئی سکیننگز ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، نام مختلف ہیں، قوم اور قبیلہ مختلف ہے ، زبان مختلف ہے ، پسند نا پسند مختلف ہے، آواز مختلف ہے ،بالکل اسی طرح صلاحیتیں بھی مختلف ہیں اور مختلف رہیں گی اور یہ اختلاف ، تغیر اور ضد دنیا اور کائنات کے نظام کے چلتے رہنے کے لیے بے حد ضروری ہے۔ یکسانیت ہوتی تو نظام ہی رک جاتا۔ دن ہے تو رات ہے، گرمی ہے تو سردی ہے، مریض ہے تو ڈاکٹر ہے، غریب ہے تو مالدار ہے، نقشہ نویس یا انجینئر ہے تو رئیل اسٹیٹ والے بھی ہیں، رئیل اسٹیٹ والے ہیں تو عمارتیں تعمیر کرنے کے ضرورت مند بھی ہیں ،سب پیشوں اور صلاحیتوں کے لوگ ایک صحت مند اور کامل معاشرے کے ستون ہیں۔ لہٰذا   مختلف کامیابی کی کہانیاں   یا موٹیوشنل سپیکرز سے متاثر ہوکر کسی فیلڈ میں اترنے کی بجائے اترنے یا نہ اترنے یا کون سی  فیلڈ میں اترنے کا معیار اپنی صلاحیتوں کو بنائیں۔ اس فیصلے کا اختیار آپ کی صلاحیتوں کو ہونا چاہیے نہ کہ لوگوں کی سکسس سٹوریز یا موٹیویشنل سپیکرز کو۔

” فلاں کرسکتا ہے تو تم بھی کرسکتے ہو ” والے فلسفے کی وجہ سے پاکستانی والدین اکثر اپنے بچوں کا تعلیمی کیرئیر بھی تباہ کردیتے ہیں۔ یا والدین بچے کے انٹرسٹ کو جاننے میں یا دلچسپی ہی نہیں لیتے یا نظر انداز کردیتے ہیں اور زبردستی اپنی خواہش کے مطابق اسے ڈاکٹر یا انجینئر وغیرہ ہی بننے پر مجبور کیا کرتے ہیں یا پھر ہمارے تعلیمی نظام میں بچوں کی دلچسپی کو اینالائز کرنے اور اسے اسی لائن میں ایجوکیٹ کرنے کا موقع فراہم کرنے کا سیٹ اپ موجود ہی نہیں ہوتا یا پھر فیشن یا سکوپ کے چکر میں بس سٹوڈنٹ کو ایک خاص لائن میں جانے اور لگے رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے بھلے وہ لائن اس کے مزاج کے بالکل برعکس ہی کیوں نہ ہو جس کا نتیجہ یا ناکامی یا لیس پروڈکٹیونس کی صورت میں سامنے آنا ہے۔

یہ تو سارے ہم ان کاموں کے بارے میں ڈسکشن کرتے رہیں کہ جو بالکل صاف دکھائی دیتے ہیں کہ آپ کی استعداد سے باہر ہیں لیکن کچھ کام جو بظاہر آپ کی استعداد کے مطابق بھی ہوں ان میں بھی بعض اوقات بہت اچھی سٹریٹجی اختیار کرنے ، تمام تر ضروری محنت اور قابلیت ہونے کے باوجود بھی آپ ناکام ہوسکتے ہیں کسی قدرتی حادثے کی وجہ سے جسے ہم قسمت کہتے ہیں۔ آج کل بعض حد سے زیادہ موٹیویٹ ہونے والے یا بعض خود کو بڑا تیس مار خان سمجھنے والے ایسے موٹیویشنل سپیکرز جنہوں نے  اپنی  فیلڈ میں تھوڑی بہت کامیابی بھی حاصل کی ہو قسمت/تقدیر/نصیب کا صاف انکار کر رہے ہوتے ہیں اور بعض کو تو میں نے یہاں تک کہتے سنا ہے کہ قسمت کیا ہوتی ہے قسمت تو میں اپنے ہاتھ سے لکھتا ہوں نعوذ بااللہ۔ نہیں بھائی ! قسمت بھی ایک حقیقت ہے۔
ایک ٹرم ہے ” تُکّا”۔ اس کا مطلب ہوتا ہے بنا کسی خاص محنت ؛ علم اور تجربہ کے کوئی اٹیمپٹ کرنا۔ آپ نے دیکھا ہوگا بعض لوگ اس میں بھی کامیاب ہوحاتے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں بعض محنت کرجانے والے، صاحب ِ علم اور تجربہ کار لوگ بھی ناکام ہوجاتے ہیں۔ اگرچہ ایسا کم ہوتا ہے مگر کم ہونے کا مطلب سرے سے ہی نہ ہونا ہرگز نہیں ہے۔ اسی طرح بہت سارے بظاہر سموتھ چلتے دکھائی دینے والے معاملات بعض اوقات کسی اچانک پیش آنے والے حادثے کی وجہ سے پورے 180 ڈگری پر مخالف سمت مڑجاتے ہیں۔ آپ ایک کامیاب بزنس مین ہیں اور ایک ٹریڈ ایگریمنٹ میں آپ نے اپنی کل جمع پونجی انویسٹ کی یہ پلان کرکے کے یہ پیسہ تھری ٹائمز زیادہ پرافٹ کے ساتھ ریٹرن ہوگا اچانک وہ بحری جہاز ڈوب گیا جس پر آپ کا خریدا ہوا سامان لادا گیا تھا۔ آپ کو ایک بہترین مینٹور مل گیا ہے ؛ آپ بزنس کے وہ گر سیکھنے کے قریب ہیں کہ آپ کو پھر راتوں رات لکھ پتی بننے سے کوئی نہیں روکے پائے گا اچانک آپ کے مینٹور کی ہرٹ اٹیک سے ڈیتھ ہوجاتی ہے۔ بھئی دنیا ہے۔ سب جانتے ہیں ان سرٹن لائف ہے۔ حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے گزارش ہے حقیقت پسند بنیں۔ حقیقت کا سامنا کرنا سیکھیں۔ حقیقت کو تسلیم کرنا سیکھیں۔ ہیلوسینیشنز سے نکلیں۔

بہت ساری خواہشات ایسی ہوتی ہیں جو قطعاً پوری نہیں ہوسکتیں ،مان لیں، تسلیم کریں، یہ کوئی گالی نہیں ہے۔ کچھ بھی اپنی مرضی سے کرلینے اور کرسکنے کی طاقت اور اختیار صرف خدا کو ہوسکتا ہے اور آف کورس انسان خدا تو نہیں ہے۔ خیالی پلاؤ پکانا یا شیخ چلی کے خواب دیکھنا بند کردیں۔ ایسی خواہشات کو مکمل طور پر دفن کرلیں۔ دفن کریں گے تو کچھ عرصہ بعد اس کی طلب بھی خود بخود ختم ہوجائے گی۔ حاصل نہیں کرسکتے تو دبائیں اور طلب کو ختم کرکے خود کو محتاجی سے نکالیں۔ اس انرجی کو چینلائز کریں اور درست ڈائریکشن میں استعمال کریں۔ محض وقتی موٹیویشنل ڈوز کے بل بوتے پر بڑے بڑے کاموں میں کودنے والے بار بار ڈس ٹریکٹ ہوا کرتے ہیں اور کسی کام کو مکمل ڈیووشن نہیں دے پاتے اور انجام تک نہیں پہنچ پاتے۔ وہ ایک طرح سے مسلسل بس وقت اور انرجی کا ضیاع ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ انسان بہت کوشش کرے تو اکثر بہت کچھ ضرور کرسکتا ہے مگر سب کچھ بالکل نہیں۔ رینڈم موٹیویشنز کے شکار افراد سب کچھ کرنے کی کوشش میں
Jack of all master of none
والی سچویشن سے دوچار ہوجاتے ہیں اور یہ انسان دنیا کا ایک بے کار انسان بن جاتا ہے۔ کوئی بھی کمپنی یا ادارہ کسی کو رکھنا چاہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ master یعنی expert کو ہی رکھے۔ کامیابی دو روزہ موٹیویشنل شوق کی بجائے اپنی صلاحیتوں اور رجحانات کے مطابق سکلز سیکھنے اور انہیں یوٹیلائز کرنے کے ایک لانگ ٹرم پلان پر ڈسپلن اور مستقل مزاجی سے چلتے رہنے اور کنسرنڈ گولز مقرر کرنے اور کنسرنڈ خواب دیکھنے سے حاصل ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الفاظ یا ڈرگز کا سستہ نشہ لے کر کچھ بڑا کرنے کی شارٹ کٹ کی کوشش کی بجائے مستقل مزاجی کے ساتھ لانگ ٹرم ؛ مسلسل اور ڈائریکشنل محنت کو گلے لگائیں۔ وقتی موٹیویشن کا انجکشن لگاکر ہیلوسینیشن میں مبتلا ہو کر بڑے کام پر چڑھ دوڑنے کی بجائے آرام سے ؛ تحمل سے اپنی ذہنی ؛ جسمانی ؛ نفسیاتی ؛ معاشی اور معاشرتی حیثیت اور استعداد کا بغور جائزہ لیا کریں اور جائزہ بھی صرف اپنی نظروں میں نہیں۔ دوسرے آپ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ کے دوست آپ کی صلاحیتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ آپ فلاں کام میں ماہر ہیں اس کے کیا ثبوت ہیں؟ کتنا تجربہ ہے آپ کا؟ کتنوں کے ساتھ بیٹھک ہوئی ہے آپ کی؟ غرض بہت سارے اینگلز سے اپنا خوب اینالسز کیا کریں پھر ایک متوازن اپروچ اختیار کیا کریں یعنی یہ بھی نہیں کہ خود کو سب سے بیسٹ سمجھنا شروع کریں اور ہواؤں میں اڑنا شروع کریں لیکن یہ بھی نہیں کہ اس چمکتی دنیا میں خود کو مکمل بے کار سمجھنا شروع کریں۔ یہ دونوں انتہا پسندانہ اپروچز ہیں۔ معتدل مزاج بنیں۔۔۔ یاد رکھیں بغور اپنے تمام تر مذکورہ فیکٹرز کا جائزہ لینے کے بعد آپ صرف اس کام میں کودا کریں جس کو کرنے کی استعداد آپ کو خود میں نظر آئے۔ خدارا جس کام کو کرنے کی ذہنی یا جسمانی استعداد آپ میں نہ ہو بالکل اس کی طرف نہ بڑھیں۔ مزید یہ کہ جب اپنے رجحان کا پتہ چلے تو جس فیلڈ میں آپ کودنا چاہتے ہیں اس میں اپنا استاد محض ہی کسی موٹیویشنل سپیکر کو نہ رکھیں جو بس صرف گفتار کا غازی ہو بلکہ کسی پریکٹیکلی اس فیلڈ میں مستقل مزاجی سے چلتے رہنے والے مینٹور کو اِن لانگ رن اپنا استاد رکھیں۔

Facebook Comments

ارشد خان آستِک
ارشد خان آستِک تجزیہ کار ؛ شاعر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply