گلے سڑے نظام میں نواز شریف کی قربانی /اظہر سید

غلام اسحاق خان کے خلاف تقریر کر کے ایجنسیوں کا جو فخر سیاستدان بنا تھا وہ قربان ہونے جا رہا ہے ۔ سری نگر کی مسجد میں نماز پڑھنے کا ارادہ ظاہر کرنے والا بلاول طاق میں بیٹھا ہے نواز شریف کی قربانی ہو جائے تو وہ قربانی کیلئے خود کو پیش کرے ۔
نظام اس قدر گل سڑ گیا ہے سب کو قوم سے معافیاں مانگ کر آپریشن کرنا تھا لیکن صاف نظر آرہا ہے پٹیاں کر کے پیپ سے رستے ناسور چھپائے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی اپنی جگہ چھوڑنے ،پیچھے ہٹنے اور قربانی دینے کیلئے تیار نہیں ۔

نواز شریف کیا کرے گا ؟ نواز شریف تو کیا یہاں کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔تیل کا بہت بڑا کنواں دریافت ہو جائے ،سونے کے قیمتی زخائر مل جائیں ،کوئی چھپا خزانہ مل جائے تو بات بن سکتی ہے ۔ معاشی استحکام اور ترقی کرتا پاکستان موجودہ حالات میں ممکن نہیں ۔
نواز شریف کو بھی سانس لینے کیلئے اسی طرح ٹیکس لگانے پڑیں گے جس طرح شہباز شریف نے لگائے تھے ۔عوام کو ریلیف دے کر ووٹ بینک برقرار رکھنا نہ شہباز شریف کیلئے ممکن تھا نہ نواز شریف محجزہ دکھا سکے گا ۔

اندرونی اور بیرونی زمہ داریاں آمدن سے زیادہ ہیں نواز شریف وہ زمہ داریاں کہاں سے اور کیسے پوری کرے گا ۔ بھارت سے دوستانہ تجارتی تعلقات اور اسے سنٹرل ایشیائی ریاستوں تک رسائی سالانہ دو تین ارب ڈالر آمدن کا ایک ذریعہ ہے لیکن طاق میں بیٹھی پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین بلاول بھٹو کا سری نگر جامع مسجد میں نماز کی خواہش کرنا اس بات کی علامت ہے بلاول بھٹو مالکان کے جواز کیلئے بھارت دشمنی کی پالیسی جاری رکھیں گے ۔

بھارت کے ساتھ دشمنی ختم کر کے جنوبی ایشیا کو تجارتی مرکز بنانا محترمہ بینظیر بھٹو کی خواہش تھی ۔ یورپین یونین کے یورو کی طرح مشترکہ کرنسی اور اکنامک یونین کا تصور بھی دشمنی کی بجائے تجارت تھی ۔شنگھائی تعاون تنظیم کا مقصد بھی تجارت ہے دشمنی نہیں جبکہ سی پیک کی روح بھی معیشت ہی ہے دشمنی نہیں۔

گھر میں دانے ہوں تو سیانا پن خود بخود اجاتا ہے ۔حسن ہو تو نزاکت بھی آجاتی ہے ۔یہاں گھر میں دانے نہیں اور معاشی مسائل نے حسن گہنا دیا ہے ۔ ہم سری نگر کی جامع مسجد میں نماز پڑھنے اور دہلی کے لال قلعہ پر پرچم لہرانے کی سوچ سے باہر نہیں نکل رہے ۔
پہلے معیشت مستحکم ہو جائے تو خواہشات پوری کرنے کا سوچا جا سکتا ہے ۔معیشت وینٹی لیٹر پر ہے ۔

اس وقت بچ نکلنے کے دو ہی راستے نظر آرہے ہیں ۔ سی پیک پر چینی سرمایہ کاری دوبارہ شروع ہو جائے اور بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات شروع ہو جائیں ۔بھارت کے ساتھ تعلقات اور چینی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ عدلیہ اور مالکوں کی مداخلت سے پاک پانچ سے دس سال کی مضبوط اور مستحکم حکومت ہی بچ نکلنے کا راستہ ہے ۔

ہمیں لگتا ہے نواز شریف تو کیا بلاول بھٹو بھی اجائے عدلیہ اور مالکوں کی مداخلت سے نجات ممکن نہیں ۔ پھر کیا ممکن ہے ؟ ممکن یہ ہے نواز شریف کو حکومت دے کر قربان گاہ میں لایا جائے گا اور اہتمام سے اسکی قربانی کی جائے گی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر بلاول بھٹو پر داؤ لگایا جائے گا اور اسکی قربانی ہو گی ۔مسلہ یہ ہے پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ گیا ہے ۔ شائد وقت اب مزید قربانیوں کا موقع نہ دے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply