بنوں کا واقعہ اور تکرار کی منطق/ناصر عباس نیّر

بنوں کے واقعے میں کوئی نیا پن نہیں ہے۔ پاکستانی سماج کی ساخت میں جو کچھ واقعتاً موجود ہے، اس کا باردیگر اظہار ہے، بلکہ تکرار ہے۔
یہ کہ عقل، سماج میں مرکزی مقام کی حامل نہیں ہوسکتی۔یہ کہ عقل سچائیوں کی دریافت اور تفہیم وتعبیر کا سب سے معتبر پیمانہ نہیں ہوسکتی ۔ علاوہ ازیں یہ کہ عقل جن سچائیوں تک پہنچتی ہے، وہ اگر مذہبی اعتقادات وتعبیرات سے متصادم ہوں تو عقل کو اپنی نارسائی، خطاپذیری، گمراہی ، عیاری کا اعتراف کرناہوگا اور سر عام معانی مانگنا ہوگی،اور ہر طرح کی جسارت سے باز رہنے کا عہد کرناہوگا،وگرنہ سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا….پاکستانی سماج کی ساخت میں موجود ہے۔ بنوں کے واقعے میں یہی حقیقت ،ایک بار پھر ظاہر ہوئی ہے۔
اس میں بھی کوئی نیا پن نہیں تھا کہ سائنس کا ایک استاد ، علماے دین کی عدالت میں معافی طلب کررہا ہے اور اپنی گمراہیوں پر ندامت ظاہر کررہاہے اور عہد کررہا ہے کہ وہ وہاں موجود علماے دین کے تصور ِ دین کازبانی اور عملی طور پر پابند رہے گا۔اسےاحساس دلایاجارہاہےکہ اسےایک نئی زندگی ملی ہے،اوراس کی گمراہی کی کم سےکم سزا
اس میں بھی کوئی نیا پن نہیں تھا کہ پر وفیسر شیر علی وہاں اکیلا تھا ۔ اس کے خیالات سے اتفا ق کرنےو الے بنوں اور دوسری جگہوں پر موجود ہوں گے ، مگر اس کے ساتھ کوئی نہیں کھڑا نہیں ہوا۔ شیر علی کے ساتھی حقیقت پسند تھے۔ وہ مقدس نظریے کے حامل گروہ کی طاقت کا ٹھیک اندازہ رکھتے تھے۔
یہاں عقل وسائنس کی تنہائی وپسپائی سامنے کی حقیقت ہے۔ اس ضمن میں ریاست کس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے، ایک طفل بھی جانتا ہے۔ ہمارے ریاستی ادارے، جنھیں فرانسیسی نومارکسی مفکر التھیوسے کے لفظوں میں Repressive State Apparatus کہہ سکتے ہیں ، وہ عقل و سائنس کی حمایت میں آگے آنے کی تاریخ نہیں رکھتے۔ وہ خاموش تماشائی سے زیادہ خاموش حمایتی ہوتے ہیں۔ التھیوسے ہی کے لفظوں میں وہ Ideological State Apparatus ( خاندان ، تعلیم ،مذہبی اداروں،ذرائع ابلاغ، فلم ، ادب ، کھیلوں وغیرہ ) کو ان کی ’موجودہ حالت ‘ میں برقرار رکھنے میں مدد اور اشیر باد دیتے ہیں۔
یہاں عام سمجھ بوجھ کا اظہار بھی سو سو طرح کی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ یہاں ’ان کہے’ کا حجم ، ’کہے ‘ کی مقدار سے لامتناہی طور پر زیادہ ہے۔
یہ خام خیالی ہے کہ کبھی ’ان کہا‘ آتش فشاں بن کرپھٹےگا۔’ان کہے‘سےنمٹنا،طاقتوروں کوآتاہے۔’ان کہے‘کا شورکرنےوالے،جلدیابدیر،راہ راست پر آجاتے یا راہ اقتدارمیں پہنچ جاتےہیں۔توبہ کرلیتےہیں یابروےکارآتےہیں۔
شیر علی نے اپنی جان بچائی۔ اپنی جان کو، اپنے خیالات سے زیادہ قیمتی سمجھا۔زندہ رہنے کی جبلت کو ، جستجو پسند عقل پر فوقیت دی۔ بلاشبہ وہ جسے سچائی سمجھتا تھا، اس پر سمجھوتہ کیا۔ اس نے سورما بننے کی کوشش نہیں کی۔
وہ سائنس دان نہیں، سائنس کا ایک استاد ہے اور ترقی پسند خیالات کا حامل ہے، تاہم وہ اس راستے پر چلا ہے،جس پر قدیم و عہد وسطیٰ کے زمانوں میں بڑے بڑے فلاسفہ اور سائنس دان چلتے آئے ہیں۔
وہ سقراط کے نہیں، ارسطو اور گیلیلو کے راستے پر چلا ۔سکندر کی موت کے بعدارسطو کو بھی مواخذے کا ڈر پیدا ہوا تو وہ ایتھنز سے فرار ہو گیا ۔ کسی نے پوچھا کہ آپ سقراط کی مانند بہادر نہیں بنے۔ سچائی کی خاطر جان قربان نہیں کی ۔ ارسطو نے کہا کہ ’’ میں نہیں چاہتا تھا کہ تاریخ(بعض جگہ ایتھنز آیا ہے) دو مرتبہ ، فلسفے کے خلاف جرم کا ارتکاب کرے‘‘۔ ارسطو کو سچائی کی خاطر مرنے سےزیادہ ،زندہ رہ کر مزید سچائیوں کو دریافت کرنا زیادہ موزوں لگا۔
ارسطو ، تاریخ اور طاقت ہی کے نہیں ، سچائی اور طاقت کے رشتے سے بھی واقف تھا۔وہ جانتا تھا کہ ایک زمانے کا اعلیٰ ترین ذہن، اسی زمانے کے معمولی ذہنوں سے شکست کھاسکتا اور ذلت اٹھا سکتا ہے۔بجا کہ تاریخ ،دونوں کو دو مختلف طرح سے یاد رکھتی ہے…اپنے زمانے کا معتوب، تاریخ کا ممدوح ہوا کرتا ہے…. مگر اس سے اعلیٰ ترین ذہن کی ، معمولی ذہن کے ہاتھوں برداشت کی گئی مصیبت اور ذلت کم نہیں ہوتی۔ایک اعلیٰ ترین ذہن بھی ،ددر کی شدت اور ذلت کا زخم محسوس کیا کرتا ہے۔
سچائی اور طاقت کے رشتے کی یہی واقفیت ، گلیلیو کو بھی تھی۔ برٹولٹ بریخت کے ڈرامے ’’گلیلیو‘‘ میں گلیلیو تسلیم کر لیتا ہے کہ چرچ سچا اور وہ جھوٹا ہے۔اس کا یہ کہنا جھوٹ ہے کہ زمین ، سورج کے گرد گردش کرتی ہے۔ اس پر گلیلیو کے شاگردوں ، خصوصاً آندریا کا دل ٹوٹ جاتا ہے۔ وہ توقع کررہا تھا کہ گلیلیواپنی موت قبول کرلے گا، سچائی کی نہیں۔ اس پر گلیلیو کہتا ہے کہ مجھے اس سماج پر افسوس ہے ،جسے ہر وقت شہید چاہییں۔
گلیلیو کو اپنی دریافت کردہ سچائی پر شک نہیں تھا مگر اسے ایک بار ملنے والی زندگی اور اس کی مسرتیں عزیز تھیں اور ارسطو کی مانند وہ بھی جانتا تھا کہ وہ زندہ رہ کر مزید سچائیوں کو دریافت کرسکتا ہے اور اس نے ایسا ہی کیا۔
ارسطو کے بعد اور گلیلیو سے پہلے ابن رشد ،ابن سینا اور کچھ دوسرے مسلمان فلسفیوں کو بھی ذلت اٹھانا پڑی تھی۔ ابن رشد کو قرطبہ کے نواح میں ایک یہودی قصبے میں جلا وطن کیا گیا۔اس کی کتب پر پابندی لگائی گئی اور وہ جلادی گئیں۔ کوئی ابن رشد کے دل سے پوچھتا کہ ا س کے لیے بڑی سزا کیا تھی ؟جسم کی اذیت بڑی ہوتی ہے یا ذہن کی ذلت وتوہین ؟
ابن سینا کی کتب بھی جلائی گئیں۔
پاکستانی سماج میں اس نوع کے واقعے کی تکرار کا مطلب کیا ہے؟
تکرار ،طاقت کی ضرورت ہے۔ایک خیال، ایک امیج، ایک شخص ، ایک تصور کی مسلسل تکرار صرف اور صرف طاقت کو پسند اور درکار ہے۔ تکرا ر کے ذریعے چیزوں کو خاص طرح سے قائم و برقرار رکھا جاتا ہے۔ تکرار کے ذریعے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ کچھ طبقوں کی مخصوص معاملات پر گرفت بدستور موجود ہے۔
طاقت کو جس قدر تکرارا ور کلیشے پسندہیں، شاعری ،فکشن اور آرٹ کو اسی قدر ان سے گریز ہے۔ غالب کو بھی تکرار سے گریز تھا۔
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آپڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
کیا ہماری معاصر شاعری ، فکشن اور دانشورانہ تحریریں، تکرار کی منطق کو فروغ دے رہی ہیں یا اس سے جھگڑ رہی ہیں؟
ہم جیسے کم علم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ سماج کے اکثر بڑے فیصلے ، عدالتوں اور پارلیمنٹ میں نہیں، علم و ادب ودانش کی دنیا میں ہوا کرتے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply