باؤ جی ذرا عقل کرنا/رمشا تبسم

ویسے تو پی ٹی آئی  نے سیاست کو  کرنے اور ریاست کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ کسی خاکروب کی طرح سیاست اور ریاست کا صفایا ہی کر دیا ہے۔
اسکے باوجود بھی ریاست کسی نا کسی طرح بیساکھیوں پر ہی  سہی ، قائم رہنے کی کوشش میں ہے مگر سیاست کہیں نظر نہیں آتی۔سیاست کو جو ذاتیات کا رنگ دے دیا گیا  تھا اور تمام اداروں اور نیوز  چینلز کو  ایک شخص کو پلیٹ میں رکھ کر دے دیا گیا تھا اس نے سیاست کو جڑ سے اکھاڑ کر محض محلے کی آنٹیوں کی لڑائی بنا دیا۔نہ کسی کی عزت محفوظ ،نہ  ہی کسی کی ذات۔مگر اب بس ہو جانا چاہیے۔پاکستان اور پاکستانیوں  نے 2018 کے باوردی تجربات  سے اب تک جو  نقصان اٹھایا وہ آنے والے کئی  سالوں میں بھی  پورا نہیں ہو سکتا مگر  کوشش کی جا سکتی ہے اور کوشش ہی راہیں کھولتی اور ہموار کرتی ہے۔

لہذا باؤ جی کے ساتھ ذاتیات کی جو جنگ چھیڑی گئی  اور اس جنگ میں اداروں نے جو الگ سے کسی ایک شخص کو گود میں بٹھا کر اسکی مرضی  کے فیصلے دیئے اور میاں محمد نواز  شریف کے ساتھ اس ذاتی جنگ میں زیادتی ہوئی  وہ سب معاملہ اب درگزر کرنا چاہیے۔

سانپ گزر  یا قید ہو جانے کے بعد لکیر پیٹتے رہنے سے کچھ  حاصل نہیں ہوتا۔آگے بڑھنے کا وقت ہے۔آگے بڑھنے میں ہی بھلائی ہے۔اعتزاز احسن کا پارلیمنٹ میں بولا وہ جملہ شاید آپ کو یاد ہو گاکہ ” نواز شریف کو چاہیے اپنے آس پاس نظر رکھیں نواز شریف کو  اپنی لنکا ڈھانے والے یہیں  سے ملیں  گے” اسکا اشارہ اس وقت تو نواز شریف کے اندرونی ساتھی تھے مگر اس اشارے کو اب اداروں کی طرف  موڑ  کر بیرونی وقتی ساتھیوں کی طرف بھی دیکھا جانا چاہیے۔

آج لاہور آمد پر یہی اندرونی لنکا ڈھانے والوں نے پہلا مشورہ نواز شریف کو یہی دینا ہے کہ  عمران خان کا ذکر کریں۔ اپنی زیادتیوں پر روئیں  ،لعن طعن کریں جبکہ اسکا وقت گزر چکا ہے کیونکہ  عمران خان کا بھی فی الحال وقت گزر گیا ہے یا بظاہر گزارا جا چکا ہے۔اور اب ان اندرونی بے وقوفوں کے ساتھ ساتھ ان تمام بیرونی چال بازوں کی ہر چال سے بچنا ہے جو جب دل کرے جو مرضی چال چل کر سیاست میں ہلچل پیدا کر دیتے ہیں، حالات بہت کچھ سامنے لا چکے ہیں اور عوام پر بہت کچھ عیاں ہو چکا ہے۔۔مگر نواز شریف  یہ سوچے کہ اب حالات اور وقت یہ خود ہی  ثابت کر چکے ہیں کہ  جنہوں نے شطرنج کی  بساط بچھائی تھی اور اپنے مہرے رکھے تھے وہ بھی اور انکا کھیل بھی سب ختم ہو گیا غلط مہرے غلطی کا نتیجہ تھے  اور غلطی کو اب صحیح کرنے وہ نکل چکے ہیں  تو  یہ سوچنا بھی غلط اور بے وقوفی ہے اور ان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ  وہ سدھر گئے ہیں سراسر جہالت ہے۔ کیونکہ غربت اور ملک کی بربادی سے عوام کے ہاتھ انکے گریبانوں تک پہنچے تو وقت کی رفتار اور عوام کے جذبات کو قابو کرنے کے لئے وہ نئی بساط بچھانے کی کوشش میں ہے۔ نیا مہرا نا ملا تو تجربہ کار لوگوں کی مدد سے اپنا راستہ صاف کرنا چاہتے ہیں۔

لہذا ان کی کسی بات یا ساتھ  کو  دماغ میں رکھ کر غرور اور تکبر کی بجائے میاں صاحب   تحمل مزاجی اور عقل مندی سے چلنا ہو گا۔کیونکہ وہ شطرنج کھیلنے والے غلطی کو کبھی نہ  تو غلطی مانتے ہیں اور نہ  ہی صحیح کرتے ہیں ان کو بھی اپنے ذاتی مفاد سے غرض رہتا ہےاور اب بھی  چاہے  انکا مہرہ  غلط ثابت ہوا مگر وہ اب بھی انہی کی چار دیواری میں ان کی مرضی سے ہی  بیٹھا ہے جس کو کسی بھی وقت واپس نکال کر وہ میدان میں دوبارہ لا کر نئی کوئی ناکام ہی سہی مگر بساط بچھا لیں گے کیونکہ چال چلنا ہی انکا کام ہے۔

لہذا باؤ جی آپ ملک واپس آ گئے ہیں بس اس بار ذرا سی عقل کرنا ۔ آپ ایک بار پھر اس عوام کے سامنے ہونگے جنہوں نے ہمیشہ آپ پر اعتبار کیا۔اور آپ کا ساتھ دیا
عوام کسی بھی قسم کے رونے دھونے ماضی یا ذیادتیوں کو سننے کے لئے آپ کا انتظار نہیں کر رہی عوام نے ان سالوں میں جو زیادتی اور نقصان بھگتا ہے وہ شاید اس زیادتی سے زیادہ ہے جو آپ کے ساتھ ہوئی عوام اب تھک چکی ہے غربت اور ملک کی بربادی کی چکی میں پھنس کر رہ گئی  ہے۔عوام ملک کو آگے بڑھتا دیکھنے  کے لئے آپ کی حکمت عملی  سننا چاہتی ہے عوام  آپ کی ذہانت اور تجربے کی روشنی میں مثبت پیغام سننا چاہتی ہے۔
عوام نہیں سننا چاہتی کیا ہوا تھا کیا ہو رہا ہے کیا ہونے جا رہا ہے عوام سننا چاہتی ہے نواز شریف کیا کرنے آیا ہے؟
اسکی حکمت عملی کیا ہیں؟
وہ عوام کے لئے کیا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟
عوام دیکھنا سننا چاہتی ہے کہ نواز شریف عوام دوست ثابت ہوتا ہے کہ نہیں؟
عوام نواز شریف کو ملک کے مسیحا کے روپ میں عملی طور پر دیکھنا چاہتی ہے
لہذا باؤ جی عقل کرنا بس جو سانپ گزر گیا اسکا ذکر اسکی ناکامی اس پر رونا دھونا چھوڑ کر اپنے ملک پر بات کریں اپنے ملک کے لئے کام کریں
مگر دھیان رکھیں کے جتنا ذلیل انہوں نے خود کو اپنے لاڈلے کے ہاتھوں کروا لیا ہے فی الحال انکی مجبوری ہے پیچھے رہنا آپ آگئے ہیں اور آپ آگے ہیں اور آگے ہی عوام آپ کے ساتھ ہیں
دیوار کے ساتھ ہر اس سازش کو لگانے کے لئے حکمت عملی بنائیں جو ملک کو برباد کر چکی ہے یا اب بھی کسی بھی وقت برباد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یاد رکھیں وہ سدھرے نہیں ہیں وہ مجبور ہیں انکی مجبوری ہی آپ کو راستہ دکھائے گی بس آپ عقل کر لیں۔

آپ کی آج کی تقریر کوئی سیاسی تقریر نہیں ہونی چاہئے بلکہ آپ کی تقریر ایک پاکستانی کی تقریر ہونی چاہیے آپ کے ہر لفظ سے ہر پاکستانی کی دل کی آواز اور غم جھلکنا چاہیے
ہمیں امید ہے پاکستان کے گلستان میں نفرت کے جو کانٹے بچھائے گئے ہیں آپ اس میں عقل و شعور سے محبت اور محنت کا پھول کھلائیں گے

Advertisements
julia rana solicitors london

خوش آمدید باؤ جی

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply