سزائے موت کے قیدی کی ساری اپیلیں رد ہو جانے کے بعد جب اس کی سزا میں توثیق کر دی جاتی ہے۔ تو پھر اسے ایک علیحدہ کال کوٹھڑی میں رکھا جاتا ہے۔ وہاں اس کی حفاظت کا پہلے سے بھی زیادہ انتظام ہوتا ہے۔ یعنی وہ کہیں کسی طرح خود کو نقصان نہ پہنچا لے۔ پھر باقاعدگی سے اس کا طبی معائنہ کیا جاتا ہے۔ پھانسی والے دن اس کے چہرے کو سیاہ کپڑے سے ڈھانپ کر تختہ دار تک لایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طبی معائنہ کر کے اس کی صحتیابی کی تصدیق کرتا ہے۔ اور پھر اگلے کسی لمحے یکدم لیور کھینچا جاتا ہے۔ تختہ دار پیروں تلے سے سرکتا ہے۔ پھندا گردن میں تن جاتا ہے اور انسان کی روح جسم سے پرواز کر جاتی ہے۔ پھر بھی موت واقع ہونے کی تسلی کرنے کے لیے چند منٹ لاش پھندے پہ جھولتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر موت کی تصدیق کرتا ہے اور لاش کو ورثا کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ یہ پھانسی گھاٹ کی وہ چیدہ چیدہ تفصیلات ہیں جس کا سامنا ہمارے ملک میں پھانسی کی سزا پانے والے سب مجرم کرتے ہیں۔ ہر ملک کے قوانین اپنے اور موت کی سزا کا طریقہ کار بھی اپنا۔ کہیں بجلی کا جھٹکا لگایا جاتا ہے تو کہیں زہر کا ٹیکہ۔ یہ آج کی مہذب دنیا ہے۔ لیکن اس مہذب دنیا میں ان لگی بندھی مقتل گاہوں کے علاوہ ایسی نفیس مقتل گاہیں ہیں کہ ان پہ کسی مقتل گاہ کا گمان نہیں ہوتا۔ ایسی مقتل گاہوں میں آئے روز سینکڑوں لوگوں کو ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے لیکن ہماری نیند میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔
میں نے بطور انسان جس دنیا میں آنکھ کھولی یہ مقتل گاہ نہیں تھی۔ یہ در الامتحان تھا۔ مجھے رب نے اپنے خلیفہ کے طور پہ اس زمین پہ بھیجا گو کہ فرشتوں نے رب سے کہا کہ ممکن ہے یہ انسان زمین میں فساد پھیلائے۔ لیکن رب نے انسان کو علم عطا کیا گویا علم فساد سے روکتا ہے۔ میں نے علم کو پس پشت ڈالا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انسان فساد کی نظر ہوتا گیا۔ اِدھر انسان کو علم عطا ہوا ،اُدھر رب نے شیطان کو حکم عدولی پہ راندہ درگاہ کیا۔ یوں تاقیامت انسان کے امتحان کے لیے ایک راہ نکال دی گئی۔ روئے زمین پہ اللہ کی حکم عدولی کے بعد جو سب سے پہلا گناہ سرزد ہوا وہ بھی قتل ہی تھا۔ پہلی حکم عدولی شیطان نے کی۔ دوسری حکم عدولی حضرت آدم علیہ سے سرزد ہوئی۔ اور اس کے بعد جب ہابیل اور قابیل کے قضیے میں ہابیل کا ناحق قتل ہوا۔ تو زمین پہ باقاعدہ قتل کی روایت نے جنم لیا۔ اس کے بعد قتل کی روایت نے انسانوں کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ ہر دور میں فساد برپا ہوتا گیا اور فساد کا جواز مہیا کیا جاتا رہا۔ ہر دور میں جنگ اور فتح کے نام پہ لوگوں کا خون بہایا گیا۔ قبل از مسیح کے کردار رام اور راون کی جنگ ہو یا اسلامی تاریخ کی کربلا، بحرحال خون ہی بہایا گیا۔
یہ خونی تاریخ واقعات کے تسلسل کے ساتھ ہم تک پہنچ چکی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اب مقتل گاہ میں موجود انسانوں کے قتل کے بہت نفیس جواز ڈھونڈ لیے گئے ہیں۔ اس پہ مستزاد انسانوں کے درمیان قومیت، مذہب، وطنیت اور علاقائیت کی بنیاد پہ ایسی نفرت بٹھا دی گئی ہے کہ اب دوسرے گروہ کا مقتول، مقتول ہی محسوس نہیں ہوتا۔ گمان یہ ہوتا ہے کہ ان کا مرنا جائز ہے۔ ممکن ہے آپ کو میری بات سے اختلاف ہو اور آپ کہنا چاہیں کہ ہم تو سب مقتولوں کا نوحہ پڑھتے ہیں۔ شاید پھر میرے دیکھنے کی حِس ہی کچھ کمزور ہوتی جا رہی۔
گزشتہ چند روز افغانستان میں دو مختلف دھماکوں کے نتیجے میں کم و بیش ڈیڑھ سو لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ لیکن نہ تو سوشل میڈیا پہ تصویریں بدلیں، نہ ہیش ٹیگ بنے، نہ کسی تنظیم نے مسلمانوں کے نا حق خون بہنے کا نوحہ لکھا اور نہ ہی کوئی ماتم کناں نظر آیا۔ شاید ہم دل سے مان چکے ہیں کہ افغانستان اب ہمارا دوست ملک نہیں رہا۔ لیکن کیا دشمن کے مرنے پہ بھی اتنی بے حسی دکھائی جا سکتی ہے؟ “دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجنا وی مر جانا ہُو ”۔
گزشتہ دو ہفتوں سے کشمیر جنت نظیر کو بھی مقتل گاہ بنایا گیا ہے۔ ہماری اندرونی سیاسی چپقلش نے اتنی گہری خلیج ڈال دی ہے کہ اب ہم اس مسئلے پہ بھی منقسم نظر آ رہے ہیں۔ کاش کہ اس معاملے پہ یک زبان ہوا جائے۔ کاش کہ مہذب عالمی دنیا بھارت کی طرف سے کشمیر کو مقتل گاہ بنائے جانے کو روکے۔ جہاں ہمیں کشمیر کو کشت و خون میں نہلانے والا مودی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ ہمیں افغانستان پہ جنگ مسلط کرنے والا ٹرمپ بھی پسند نہیں۔ اور ان دونوں میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں نے بیگناہوں کا خون بہایا ہے۔ وہاں ہم خود اپنی ذات میں ٹرمپ اور مودی ہیں۔ یقین نہیں آتا تو چند روز پہلے بہادر آباد میں قتل ہونے والے ریحان کا واقعہ دیکھ لیں۔ ایک لمحہ کو مان لیں کہ وہ چور تھا لیکن کیا چور کی سزا موت ہے؟ ہم خود ہی منصف بنے اور خود ہی استغاثہ۔ اور موقع پہ سزائے موت سنا دی۔ ہم نے بازارکو مقتل بنایا۔ ہم نے چوک اور چوراہے کو مقتل بنا دیا۔ ایک چوراہے میں کسی سیاستدان کی لاش پڑی ہے تو ایک سڑک پہ کسی استاد کی۔ ایک بازار میں ریحان کو نشان عبرت بنایا تو ایک بیابان میں مِسنگ پرسن کی مسخ شدہ لاش۔ بطور پاکستانی اس ملک میں اور بطور انسان اس دنیا میں شاید لاشیں ہی اب ہمارا مقدر ہیں۔ اور اس کی وجہ سادہ سی ہے۔ جب فرشتوں نے رب سے کہا کہ انسان زمین میں فساد برپا کرے گا تو رب نے کہا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے اور پھر آدم علیہ السلام کو علم عطا کیا گیا۔ جب فرشتوں سے ان چیزوں کے ناموں بارے پوچھا تو وہ بے خبر تھے جب کہ آدم علیہ السلام نے عطا کردہ علم سے بتا دیا۔
ہمارے ہاں آج علم رخصت ہو چکا ہے۔ لہذا ہمارے حصے میں محض فساد رہ گیا ہے۔ ہم مقتل گاہ میں کھڑے ہیں، اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ کوئی کسی بھی وقت، کسی شک میں ہمیں بھی قتل کر دے یا ہمیں اٹھانے کے بعد تختہ دار پہ لے جائے گا اور ہم پتھرائی آنکھوں سے قابیل کے پیروکاروں کو گھوریں اور اپنا مقدمہ لے کر سب سے بڑی عدالت میں لے جائیں۔ اے گروہ انسان! اب بھی متحد ہو جاؤ اور قابیل کی تقلید چھوڑ دو۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں