اساتذہ کا عالمی دن مبارک/فرزانہ افضل

اساتذہ کے عالمی دن کے موقع پر مجھے مس زینب یاد آ گئیں۔ مس زینب ہماری چھوٹی سی تحصیل کے واحد گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں میتھس ٹیچر تھیں ۔ وہ کافی سخت مزاج مشہور تھیں ۔ مس زینب کی شادی نہیں ہوئی تھی اور جب کہ وہ بڑھاپے میں قدم رکھ چکی تھیں ۔ مجھے یاد ہے ، کہ ان کے بالوں میں سفیدی کافی حد تک پھیل چکی تھی ۔ سکول کی لڑکیوں کا کہنا تھا کہ ان کے چڑچڑے پن اور غصے کی وجہ ان کی شادی نہ ہونا ہے ۔ جس کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ ان کی برادری یا خاندان میں باہر شادی کرنے کا رواج نہیں تھا ۔ مس زینب سمیت وہ چھ بہنیں تھیں اور سب ٹیچرز تھیں ۔ اور تمام بہنیں کنواری بوڑھیاں تھیں۔ کچھ شریر لڑکیاں ان کی برادری کی مخصوص زبان میں ان کا مذاق اڑاتیں ،” خاندان میں منڈا کونو ، باہر شادی کونو ،”۔ لیکن لڑکیاں مس زینب کے غصے اور ڈانٹ ڈپٹ کو دل پر نہیں لیتی تھیں کیونکہ وہ ان کی اس محرومی کی کیفیت کو خوب سمجھتی تھیں۔

اتنے برس گزرنے کے بعد بھی ہمارے ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کی شادی قرآن پاک سے کروا دی جاتی ہے تاکہ زمین جائیداد باہر نہ جائے۔ لڑکیوں کی شادیوں کے حوالے سے بہت سے زیادتیاں اور ظلم ہوتے چلے آ رہے ہیں ۔ جن کو روکنے کے لیے بہت سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سے پہلے کہ بات کہیں اور نکل جائے واپس مس زینب کے موضوع پر آتے ہیں۔اس روز مس زینب ہمارے آٹھویں جماعت کے ششماہی امتحان کے میتھس کے پرچے کا رزلٹ اناؤنس کر رہی تھیں ۔ طریقہ کار کچھ یوں تھا کہ ایک ایک کر کے لڑکیوں کو بلایا جاتا، ان کے نمبرز بتاۓ جاتے ، اور پھر دونوں ہتھیلیاں سامنے کرنے کا حکم صادر ہوتا اور قریب رکھے فٹ رولر زبان عام فٹے سے دونوں ہاتھوں پر زور زور سے ایک ایک ضرب لگائی جاتی ۔ کلاس میں کسی حد تک خوف و ہراس کا ماحول تھا۔ میری بھی باری آئی۔ میں ڈرتے ڈرتے میں زینب کے پاس پہنچی۔ میرے نمبرز اناؤنس کیے گئے اٹھانوے بٹا سو 98/100 ، جو کہ کلاس میں سب سے زیادہ تھے مگر اس کے بعد مجھے بھی ہتھیلیاں پھیلانے کا آرڈر دیا گیا۔ میں نے ہمت کر کے پوری آنکھیں کھول کر میس زینب کی جانب سوالیہ نظروں سے حیرت سے دیکھا۔ مس زینب جنہیں کبھی کسی نے مسکراتے ہوئے نہیں دیکھا تھا، میری نظروں کو پڑھتے ہوئے نہایت دھیمے سے مسکرائیں اور بولیں ،” یہ دو نمبر کٹنے کی سزا ہے،” میرے ہاتھوں کو فٹے سے ہلکے سے چھوا اور کہا ،”ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا اور آئندہ بھی نہیں ہونا چاہیے،” یہ زندگی کا ایک سبق تھا جو عمر بھر میرے ساتھ رہا۔ ہمارے سکول کی تمام اساتذہ بہت محنتی اور قابل تھیں ۔ اور سٹوڈنٹس پر نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ غیر نصابی اور سپورٹس سرگرمیوں میں بھی بہت محنت کی جاتی تھی۔ مجھے سپورٹس کا تو کوئی شوق نہیں تھا مگر تقاریر، آرٹ، ڈرامہ ، میوزک ، شعر و شاعری ، لکھنے لکھانے اور ادبی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیش پیش رہتی۔ یہ سلسلہ انٹر، ڈگری کالج اور یونیورسٹی تک جاری رہا۔ کہتے ہیں بنیاد مضبوط ہونی چاہیے۔ اور تعلیمی بنیاد اور معیار کا موازنہ کسی چھوٹے شہر کے اردو میڈیم سکول یا کسی بڑے شہر کے کانونٹ سے نہیں کیا جانا چاہیے۔ میں اس دور کے خوش نصیبوں میں سے ہوں جنہیں ہمیشہ مخلص، محنتی اور اپنے پیشے سے محبت کرنے والے اساتذہ ملے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میری والدہ بھی سکول ٹیچر تھیں۔ لہٰذا گھر میں بڑا سخت قسم کا تعلیمی ماحول تھا جس کا ہدف میں ہی تھی ۔ آج میں زندگی کے جس مقام پر ہوں اس میں میرے والدین کی سپورٹ کے ساتھ ساتھ ان تمام اساتذہ کی محنت شامل ہے جنہوں نے مجھے اس قابل بنایا۔ مجھے فخر ہے کہ میری پریکٹیکل لائف کی کامیابی کا کریڈٹ اس تعلیمی بنیاد کو جاتا ہے جو گورنمنٹ گرلز ہائی سکول ہارون آباد نے رکھی۔ میرے تمام اساتذہ اور دنیا بھر کے مخلص اساتذہ کو میرا سیلوٹ اور سلام۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply