بنا فلم دیکھے تبصرہ۔۔ذوالفقار علی زلفی

عامر خان کی فلم “لال سنگھ چڈھا” پر تبصروں کا لگتا ہے طوفان آگیا ہے ـ بھارت کے بڑے بڑے اخبارات اور فلمی ویب سائٹس پر روزانہ تین تین چار چار تبصرے پبلش ہورہے ہیں ـ ممتاز بھارتی ہدایت کار ہنسل مہتا کا تبصرہ بھی اس وقت وائرل ہے جس میں انہوں نے فلم کی خامیوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ایک اچھی فلم قرار دیا ہے ـ اردو تبصرے کم ہیں ـ پاکستانی فیس بک پر تین ہی تبصرے نگاہ سے گزرے جن میں سے دو غیر سنجیدہ تھے ـ
اردو فیس بک پر سب سے زیادہ سندس جمیل صاحبہ کا تبصرہ پڑھا گیا ـ ان کے اور بھارت کے بیشتر مبصرین کے تبصروں میں زیادہ فرق نہیں ہے ـ دونوں نے بھارتی فلم کا امریکی فلم سے موازنہ کیا اور پھر اسی بنیاد پر اپنی رائے تشکیل دی ـ
میری نگاہ میں سندس جمیل اور ان کی رائے کے مماثل دیگر بھارتی مبصرین نے جو بنیاد بنائی وہ درست نہیں تھی ـ اس حوالے سے گارجین اور ٹائمز آف انڈیا کے تبصرے عمدہ تھے ـ انہوں نے ایک بھارتی فلم کو بھارت کے تناظر میں دیکھا اور اسی بنیاد پر اپنی رائے تشکیل دی ـ
ہر فلم کا ایک مخصوص تہذیبی و ثقافتی پس منظر ہوتا ہے جس کا تعلق اس خطے سے ہوتا ہے جہاں وہ بنتی ہے ـ یہ اہم نکتہ پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ “لال سنگھ چڈھا” امریکی فلم کی ریمیک ہے، اس کا ترجمہ نہیں ہے ـ “لال سنگھ چڈھا” کو امریکی تناظر میں دیکھنا اور ایک رائے بنانا گمراہ کن ہے ـ اس سے قاری بھی اسی گمراہ نہج پر سوچنے لگ جاتا ہے جس سے فلم کی تفہیم میں کوئی مدد نہیں ملتی ـ
فاریسٹ گمپ کیا کرتا ہے، کیوں کرتا ہے، امریکی سیاست میں کیا ہورہا ہے یا کیا ہوتا رہا ہے اس کا “لال سنگھ چڈھا” سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ـ تہذیبی لحاظ سے “لال سنگھ چڈھا” ایک ہندی فلم ہے اس لئے اس پر تجزیے و تبصرے بھی اسی تناظر میں ہونے چاہئیں ـ جیسے یہ اعتراض کہ فاریسٹ اگر ویتنام جنگ میں گیا تو اس کی وجہ امریکی ریاست کی فلاں پالیسی تھی لیکن لال سنگھ کیوں گیا؟ ـ یہاں بجائے تقابلی اعتراض کرنے کے اس سوال کا جواب بھارتی ریاست کی پالیسی میں ڈھونڈھنے کی ضرورت ہے ـ اسی طرح پاکستانی فیس بک پر سندس جمیل اور بالی ووڈ ہنگامہ پر ایک صاحب نے “فاریسٹ گمپ” کے ایلوس پریسلے پر توجہ دے کر شاہ رخ خان کو نظر انداز کردیا حالانکہ “لال سنگھ چڈھا” میں شاہ رخ خان کے cameo کا تہذیبی پسِ منظر ہے ـ شاہ رخ خان نے بھارتی ثقافت پر اپنے انمٹ نقوش مرتب کئے ہیں ـ بجائے اس پر بحث کرنے کے کہ یہ Cameo درست تھا یا غلط مبصرین ایلوس پریسلے کو لے آئے جس کا اس فلم سے دور دور تک کوئی رشتہ ہی نہیں ہے ـ
“لال سنگھ چڈھا” میں بابری مسجد تنازع، سکھ قتلِ عام اور کارگل جنگ وغیرہ پر بحث کی گئی ہے ـ اس بحث کا تناظر درست تھا یا غلط ، اس موضوع پر پاپولر مبصرین نے کوئی رائے ہی نہیں دی ـ بس یہی کہتے رہے جی وہ “محمد بھائی کو اٹھا کر لے آئے” ـ ممکن ہے محمد بھائی کے ذریعے یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہو کہ بھارتی اور پاکستانی ثقافتی لحاظ سے اس قدر یکساں ہیں کہ ان میں تفریق کرنا مشکل ہے ـ الغرض فلم کے سیکوینسز کے مطابق اس واقعے کا تجزیہ کیا جاتا مگر پھبتیاں کس کر تبصرے کو غیرسنجیدہ رخ دیا گیا ـ
“لال سنگھ چڈھا” پر تاحال انگریزی میں درجنوں تبصرے لکھے جاچکے ہیں ـ حیرت کی بات یہ ہے ان میں سے صرف بارہ ایسے تھے (کم از کم میں نے صرف اتنے ہی پڑھے ممکن ہے اس سے زیادہ ہوں) جنہوں نے فلم کو بھارت کے تناظر میں دیکھا اور اسی کی بنیاد پر فلم کی خوبیوں اور خامیوں پر بحث کی ـ اردو تبصروں میں سے تاحال ایک بھی ایسا نہ ملا جسے صحت مند قرار دیا جاسکے ـ
ممکن ہے “لال سنگھ چڈھا” ایک بری فلم ہو ـ ایک مبصر کم از کم سنجیدگی کے ساتھ فلم کا تجزیہ کرکے یہ تو بتائے کہ فلم بری کیوں ہے؟ ـ بہت کم مبصرین نے مناظر کی عکاسی پر بحث کی ہے ـ
بہرحال اس فلم پر آنے والے تبصروں کو مسلسل پڑھنے کی وجہ سے میں بھارت کے بعض سنجیدہ مبصرین سے واقف ہوگیا ـ تھینکس عامر خان ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply