ہماری بنیاد ہمارا بچپن/عالم زیب شناس

کہتے ہیں کچھ یادیں بھولنے سے بھی نہیں بھولتیں، اور پھر بات جب بچپن کی ہو تو وقت اتنی تیزی سے گزرتا محسوس ہوتا ہے کہ انسان چاہ کر بھی پیچھے نہیں دیکھ سکتا، نہ ہی ان یادوں کو دوبارہ جی سکتا ہے ۔

موجودہ ترقی یافتہ دور پر اگر ایک تفصیلی نگاہ ڈالی جائے تو بہت سی سہولیات جو گزرے وقت کے بادشاہوں کے پاس نہ تھیں ،ہمیں میسر ہیں ۔لیکن ایک قیمتی چیز ہم اس ترقی پذیر دنیا میں کھو رہے ہیں یا شاید کھو چکے ہیں، وہ ہے” سکون “، سکون نہ پیسوں سے مل رہا ہے نہ ہی کسی پسندیدہ جگہ جانے سے ، اپنی پسندیدہ شخصیت سے ملنے میں بھی سکون نہیں۔

میں بتاتا چلوں کہ بچپن ہر ایک کی زندگی کا بہترین حصّہ ہوتا ہے ۔ بچپن کی یادیں ہمیں طرح طرح کے تجربات دیتی ہیں ۔ ہم نے بچپن میں جو کچھ بھی سیکھا ہوتا ہے وہ آگے زندگی میں کام آتا ہے ۔ کچھ تجربات خوشگوار ہوتے ہیں جبکہ کچھ سبق سیکھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں ۔ یہ اسباق ہمیں زندگی میں مثبت رہنے کی طاقت دیتے ہیں، یہاں تک کہ جب حالات ہمارے حق میں نہ ہوں۔ جو چیزیں ہم اپنے بچپن میں سیکھتے ہیں وہ ہمارے لئے بحیثیت بالغ اہم ہیں، ہمارا بچپن اس بات کا بہت اہم حصّہ ہے کہ ہم کیسے بڑے ہوتے ہیں ۔

لوگ کہتے ہیں کہ بچپن زندگی کا بہترین وقت ہوتا ہے کیونکہ ہمیں کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی، بچپن کی یادیں ہمارے لیے بہت اہم ہیں، کیونکہ یہ ہمارے کردار اور شخصیت کو بنانے میں ہماری مدد کرتی ہیں ۔بچپن کی یادیں بھی اچھی عادات سے بہت زیادہ تعلق رکھتی ہیں، جیسے نظم و ضبط اور زندگی میں صحیح رویہ رکھنا ، لوگوں سے رویہ کیسا ہونا چاہیے یہ ہم بچپن میں سیکھتے ہیں ۔

مختصرا ً بچپن زندگی سنوارنے کا ایک بچے کے پاس بہترین موقع ہوتا ہے ۔ ہمارا معاشرہ اگر آج تباہ ہورہا ہے تو ان کی ایک بڑی وجہ بچوں کی تربیت میں کمی ہے جس عمر میں ایک بچے کو اخلاق ، آداب اور تمیز سیکھنی چاہیے  اس عمر میں والدین بچوں کے ہاتھ میں بڑے بڑے سمارٹ فونز پکڑا دیتے ہیں ۔

ٹیکنالوجی جتنی اہم اور مفید ہے آج کے دور میں اتنی ہی نقصان دہ ہے ۔ جہاں سوشل میڈیا نے انسان کی ترقی کی  منازل کو آسان کردیا ہے وہیں انسان کی منفی سوچ ،اندازِ  فکر اور سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی وجہ سے معاشرہ تباہی کی طرف جارہا ہے اور اس کا سبب خود انسان ہے، جنسی جرائم میں اضافے کا سبب سوشل میڈیا پہ ڈالا جانے والا فحش مواد ، فلمیں اور فحش لٹریچر اور موبائل فون کا غلط استعمال ہے ۔ اس کے مسلسل استعمال سے لوگوں کے ذہنی حالات خراب ہورہے ہیں ۔ خودکشیاں ، دھوکہ دہی ، فریب ، نظر کی کمزوری ، مسلسل تھکاؤٹ ، سستی ، لا پرواہی ، دین سے بیزاری ، جھوٹی محبتوں کے جال اور غیرت کی قلت میں اضافہ ہورہا ہے ۔

اکثر والدین بچوں کی تربیت میں کئی ایسی عادات کو اپنا لیتے ہیں جو دراصل بچوں کی شخصیت کو تباہ کرنے کا سبب بنتی ہیں اور والدین کو اس کا علم بھی نہیں ہو پاتا ۔

ہمارے بچپن کے  دور میں ہم بزرگوں کا کہا مانتے تھے ، ہمیں اچھے اور بُرے کی تمیز سکھائی جاتی تھی ، غلطی کرنے پر مار بھی پڑتی ، دوستوں کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لئے بہت سارا وقت تھا جس سے طرح طرح کی نئی باتیں سیکھنے اور سننے کو ملتی تھیں ۔اتفاق سے رہنا سکھایا جاتا تھا ، محبت بانٹنا اولین فریضہ سمجھا جاتا تھا لیکن ان کچھ سالوں میں کافی تبدیلیاں آئی  ہیں۔

بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے ، قتل عام ہورہے ہیں ، دروغ گوئی وبا کی طرح پھیل رہی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اپنے بچوں کو بہترین مستقبل دینے کے لئے ان کی تربیت پرانی  سوچ کے ساتھ کریں۔نئے دور میں کیسے رہنا ہے یہ سکھائیں، نفرت پھیلانا چھوڑ دیں اور محبت عام کریں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply