ہمیں محبت کا درس دیجئے اللہ کے لیے :

عجیب دنیا ہے ہماری بھی عجیب رسمیں اور عجیب طرز مخاطب، عجیب حال و احوال ۔ سب سے عجیب بات ہماری ہے کہ اس کے برعکس یعنی اردو پڑھا کر انگریزی میں اول نمبرات حاصل کروانے کی کچھ نادان سی خواہشات ہیں ۔۔ہمارے معاشرے میں بچپن سے ہی تربیت اک خوف کے زیر سایہ کی جاتی ہے، یعنی کے بچہ جوں ہی بڑا ہوتا اس کو بتایا جاتا یہ کام کرو اس لیے نہیں کے اچھا ہے بلکہ اس لیے کرو کے یہ تمہیں کرنا ہے ۔اگر نا کیا تو والد صاحب اور کچھ چیزوں سے ڈرایا جاتا ہے پھر جب اسکول جاتا تو یوں ہی استاد صاحب کا خوف اور اسی طرح ہر معاملے کے بعد اس میں اللہ کا خوف بھر دیا جاتا ہے۔اب اک خوف وہ ہوتا ہے جس سے انسان پر ہیبت طاری ہوتی ہے مگر وہ تب تلک ہی ہوتی جب تلک اسے بات یاد رہتی ہےجیسے ہی بڑا ہوتا جاتا ہےوہ استادوں اور والدین کے اس خوف سے باہر نکلتا جاتا ہے۔ اسی طرح اس دنیا کی رنگ رلیوں میں گم ہو کر خدا کا خوف بھی اسے اک” شوشہ “ہی لگتا ۔
ہمیں لاکھ بتایا جاتا کے اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو مگر میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں اکثریت ایسی ہو گی جس کو کبھی کسی معلم نے یہ نہیں بتایا ہو گا، کسی خطیب نے یہ نہیں کہا ہو گا کے اللہ سے محبت کرو ، جب محبتیں پروان چڑھتی ہیں تو اپنی گہرائی میں اترنے لگتی ہیں پھر انسان محبوب کی خوشنودی کے لیے دن رات اک کر دیتا ہے۔ اگر کوئی رانجھا ہیر کے لیے اپنی جاں ہتھیلی پر رکھ سکتا ہے توخالق کائنات کی محبت کا عالم کیا ہو گا ؟کیا پھر کوئی اپنے محبوب کی ناراضگی کو برداشت کرنے کی جسارت کرے گا ۔؟اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے
: (اے رسول) فرمایئے کہ اگر تُم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو ، (اس کے بدلے میں ) اللہ تُم لوگوں سے محبت کرے گا اور تُمھارے گناہ معاف کرے گا اور اللہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔اللہ کے ننانوے نام ہیں اور اس میں سے ایک نام بھی ایسا نہیں جس میں انسان کے لیے محبت نا چھلکتی ہو ، ایسے قرآن پاک میں کتنی ہی آیات ایسی ہیں کے اللہ پاک ایمان والوں سے نہیں بلکہ انسانوں سے مخاطب ہو کر انہیں سمجھانا چاہتا ہے کہ سدھر جاو۔کیا یہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام اور الہامی کتابیں اللہ کی محبت کی دلیلیں نہیں؟
آج ہمیں فقط خوف اور نفرت کی تعلیمات دے کر مومن بننے پر مجبور کیا جاتا ہے، تو یہ کسے ممکن ہے کہ اصل محبت کو درمیاں سے نکال کر پھر وہ خوف پیدا ہو جائے کہ جو صحابہ کرام رضی اللہ میں تھا وہ محبت ہم کیسے اپنے رب کے لیے پیدا کر ڈالیں جو ان کے دلوں میں تھی۔تو خدارا ہمیں محبتوں کی تعلیم دیجیئے ، ہمیں محبتوں کے تقاضے سمجھائیں ، ہمیں عشق و چاہت کی حقیقت سے آشنا کروائیے،معلمین کو چاہیے کے شاگردوں کو انس کی تربیت دیجئے اس ذات کی شناخت سکھائیں ،نا کہ خوف و نفرت سے حقیقت کو دھندلا کریں۔
محبتیں امر ہوتی ہیں اور ان سے پیدا ہونے والا ڈر بھی امر ہوتا ہے ۔

Facebook Comments

عدیس الطاف
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply