• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • غیر ملکی سیاح خواتین اور پاکستانی وحشت/محمد وقاص رشید

غیر ملکی سیاح خواتین اور پاکستانی وحشت/محمد وقاص رشید

یہ نمک منڈی پشاور ہے یہاں چرسی تکہ کے نام سے پورے پاکستان کیا دنیا میں مشہور دکان ہے۔ کہتے ہیں گوشت خور پشاور اترتے ہی باربی کیو کے دھویں سے اٹھتی خاص خوشبو کو سونگھتے سونگھتے ادھر کا رخ کرتے ہیں جیسے شکاری اپنے شکار کی بو سونگھتے اس تلک پہنچ جاتا ہے۔ اس افسوسناک کہانی کا تعلق بھی گوشت ہی سے ہے۔

پاکستان کا شمال سیاحت کی آماجگاہ ہونے کی وجہ سے یہاں بھی بیرونِ ملک سیاح آتے رہتے ہیں۔ گویا اسکے مالک کے لیے سیاحوں کی آمدورفت معمول کی بات ہے۔

فلپائن اور چائنہ کی چند خواتین سیاح پاکستان آتی ہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں مغربی ملبوسات زیبِ تن کیے جاتے ہیں۔ یہ خواتین پاکستان آتی ہیں تو خصوصی طور پر یہاں کے کلچر کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستانی یا کہہ لیجیے مشرقی لباس خریدتی ہیں اور زیبِ تن کرتی ہیں۔ کیونکہ وہ ایک ایسے علاقے میں جا رہی ہیں جہاں عورت کا جسم ٹوپی والے برقعے میں محبوس ہوتا ہے۔

چرسی تکہ کے مالک کی ظاہری وضع قطع تصویر سے واضح ہے۔ سر پر سفید ٹوپی ، چہرے پر داڑھی، نہیں بات واضح نہیں ہوئی سفید داڑھی۔ ہو سکتا ہے وہ فلپائن چائنہ کے کلچر کو دیکھ کر چار بندوں میں لا حول بھی پڑھتا ہو۔ اس ضمن میں اسلام اور مشرقی روایات کا بھی پرچار کرتا ہو۔

قصہ مختصر وہ خواتین اسکی دکان پر آتی ہیں اور مالک انکے ساتھ تصاویر بنوانے کی خواہش کرتا ہے ہو سکتا ہے کہ ان خواتین نے سفید ٹوپی ، سفید داڑھی ، ٹخنوں سے اوپر شلوار کو اپنے لیے تحفظ کی ضمانت سمجھا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے پاکستانی لباس کو اپنے گرد ایک تقدس کا حصار گردانا ہو۔ یہ بات بھی قرینِ قیاس ہے کہ انہوں نے سن رکھا ہو کہ اس علاقے کے لوگ بڑے مہمان نواز اور گھر آئے مہمانوں کی عورتوں کے ساتھ دست درازی کون کرتا ہے یا پھر انہیں کسی نے یہ بتایا ہو کہ مسلمان غیر محرم عورت پر دوسری نگاہ کو شیطان کی نگاہ قرار دیتے ہیں۔

بہرحال جن خواتین کو اپنے ملکوں میں سن باتھ کرتے کوئی یوں دست درازی نہیں کرتا کہ وہاں اسے قانون اور اخلاقیات دونوں معیوب سمجھتے ہیں یہاں ایک ایک سفید ٹوپی اور داڑھی والے کے ہاتھوں سے وہ مشرقی و پاکستانی لباس میں اسلامی اقدار اور روایات وغیرہ کے باوجود بھی محفوظ نہیں

مکروہ ہنسی ہنستے وہ فخریہ انداز میں مندرجہ بالا تمام نام نہاد بیرئیرز کی دھجیاں اڑانے کی باقاعدہ تصویر کشی کرتا ہے جسکی بنیاد پر قانون حرکت میں آتا ہے اور  وحشی گرفتار کر لیا جاتا ہے۔

حالیہ دوتین اسی طرح کے واقعات میں یہی کچھ  دیکھا گیا ہے۔ اس سے پچھلا واقعہ غالباً اسلام آباد کا تھا جس میں چھوٹے چھوٹے لڑکے تک ایک سیاح فیملی کے گرد باقاعدہ گھیرا ڈال کر انہیں ہراساں کر رہے تھے۔ یومِ آزادی پر بھی مادرپدر آزاد نوجوانوں نے یہی کچھ کیا تھا۔

یہ مقامِ فکر ہے۔ دیکھے جانے کی ضرورت ہے کہ وہ ممالک جہاں مغربی لباس میں بھی عورت محفوظ ہے اور یہاں اس ملک کے تہذیب و تمدن کا لباس پہن کر بھی سیاح خواتین لونڈے لپاڑوں سے لے کر سفیدریش والے بوڑھوں تک سے محفوظ نہیں تو اسکی وجہ کیا ہے۔

ہمیں غور کرنا ہو گا۔ انسانی نفسیات سازی کے ہر ذمہ دارکو اسطرح کے واقعات کے آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنا ہو گا۔

بیٹوں کی خواہش کے مارے اس پیدائش کدے میں بسنے والے ماں باپ ان تصاویر میں اپنے فخر کی علامت بیٹوں کو دیکھیں اور جواب دیں کہ کیا انکا کام صرف بیٹے پیدا کر کے انہیں یوں ملکی و غیر ملکی خواتین کے ساتھ دست درازی کرنے کے لیے کھلا چھوڑ دینا ہے۔ کیوں ایک عورت کے جسم کی طرف میلا ہاتھ بڑھاتے ہوئے اسے گھر میں موجود اس عورت کا جسم یاد نہیں آتا جس سے اس نے وجود پایا ، جنم پایا اور اپنی پہلی خوراک حاصل کی۔ اسکی تربیت میں یہ بات کیوں شامل نہیں کہ میرا کسی عورت کی طرف بڑھا ہوا ہاتھ اس عورت قبیلے کی نمائندہ میری ماں اپنی طرف محسوس کر کے اپنے جسم کے نیچے دبی میری جنت پر حملہ تصور کرے گی۔

ایک باپ جواب دے کہ کیا اس نے بیٹے، ایک مرد کے سامنے اسکی ماں سے لے کر پرائی عورت کو عزت و تکریم دے کر بیٹے کی عملی تربیت کی کہ وہ اسکے خون میں رچی بسی ہو وہ کسی عورت پر یوں دست درازی کرنا اپنے مردانہ قبیلے کی توہین سمجھے جسکا نمائندہ اسکا باپ ہے جس کا سر شرم سے جھک جائے گا یہ دیکھ کر یہ جان کر۔

اساتذہ کرام گزارش ہے ہاتھ جوڑ کر کہ آپ میں اور دیگر تمام طرح کے ملازمین میں فرق ہے آپ قوم کے معمار ہیں۔ لڑکوں کو یہ بتائیے کہ راہ چلتے انسانوں پر حملہ آور ہونا انسانوں کا نہیں حیوانوں کا شیوہ ہے۔ ہماری قوم کے بارے کیا سوچتے ہونگے یہ لوگ۔ پوچھو اپنے ملک کی ماؤں بہنوں بیٹیوں سے کتنا محفوظ خود کو تصور کرتی ہیں انکے ممالک میں۔

اور آخر پہ ممبرِ رسول ﷺ  پہ براجمان قبیلے سے گزارش ہے کہ عورت کی عزت و عصمت کو اسکے لباس اسکے مذہب اسکی فکری وابستگی سے جوڑنے کی یہ تفہیم ختم کیجیے۔ جمعہ کے خطبات میں چودہ سو سال پہلے کی جنگی تاریخ پر لوگوں کو تقسیم کرنے سے بہتر ہے انہیں آج کے قومی و سماجی محاذ پر اکٹھا کیا جائے انہیں بتایا جائے اس سوال کا جواب تلاش کیا جائے کہ دوسری نگاہ کو حرام قرار دیتی فلاسفی اتنی کمزور کیوں ہے کہ دوسرے ہاتھ کو بھی نہیں روک پاتی۔ مفتی تقی عثمانی صاحب ایک ٹویٹ ادھر بھی کہ اس سے بھی  شدید قومی اسلامی اور سماجی بدنامی ہوتی ہے۔

اور آخر میں ریاست سے گزارش کہ اس طرح کے انسانیت سوز جرائم میں مجرموں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہیے اور اسکی تشہیر ہونی چاہیے ناکہ مجرموں کے کچھ دن میں آزاد پھر کر دوسروں کے لیے انسپریشن بننے کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ تحریر ! ڈیلی پاکستان والے یاسر شامی صاحب خدا نے آپکو اتنا مقام دیا آپ معاشرے کے ایک influencer  ۔ جو کردار آپ نے سانحہِ مینارِ پاکستان میں ادا کیا تھا ایسے معاملات میں وہی کردار ادا کیا کیجیے۔ اس قومی شرمندگی کے معاملے میں آپکی حظ اٹھاتی مزاحیہ کمنٹری اس طرح کی ذہنیت کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ ہر جگہ حریم شاہ کے انٹرویو والے مائنڈ سیٹ سے نہ پہنچا کریں پلیز۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply