دوستوں سے مل لیا پھر/ڈاکٹر مجاہد مرزا

مثل برگ آوارہ’سے
میں نے سعید کو آتے ہی بتا دیا تھا کہ میں اگلے روز نکل جاوں گا، اسی لیے میں نے سعید کے ہمراہ پورچ کی جانب بڑھتے ہوئے مسز سعید کو خدا حافظ کہہ دیا تھا۔ باتیں کرتے ہوئے ایسے لگا تھا جیسے ہم بہت جلد سعید کے دفتر پہنچ گئے تھے۔ جی ہاں یہاں ڈاکٹروں کے کلینکس کو عموما” “آفس” کہا جاتا ہے۔ سعید نے ذاتی دفتر میں داخل ہونے سے پہلے راہداری میں موجود سیکرٹری ریسپشنسٹ کو میرے لیے نیویارک جانے والی بس میں ٹکٹ بک کروانے کو کہہ دیا تھا۔ سعید کے مریضوں کی اپائنٹمنٹس دو بجے کے بعد تھیں۔ سعید ہسپتال کا راؤنڈ کرنے چلا گیا تھا اور میں اس کے دفتر میں بیٹھا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد سیکرٹری نے آ کر بتایا تھا کہ میرے لیے ایک بجے کی بس میں نشست ریزرو ہو گئی تھی۔ سیکرٹری نے مجھ سے کافی چائے سے متعلق پوچھا تو میں نے چائے کا انتخاب کیا تھا۔ مجھے تنہا بیٹھنے سے اکتاہٹ نہیں ہوئی تھی کیونکہ دیوار پر نصب ٹی وی چل رہا تھا۔ اگر ٹی وی نہ ہوتا تو دشواری ہوتی کیونکہ سعید کے دفتر میں صرف میڈیکل سے متعلق کتابیں تھیں۔
سعید بارہ بجے لوٹ آیا تھا۔ اسے اس کی سیکرٹری نے بس کی ٹکٹ کے متعلق بتا دیا تھا۔ سعید نے مجھ سے کہا تھا کہ جلدی سے کچھ کھا لیتے ہیں پھر تمہیں بس پر سوار کرانے کی خاطر نکل جائیں گے۔ میں نے کہا تھا،” یار ابھی تو ناشتہ کیا تھا۔” سعید نے جواب میں کہا تھا کہ یہ ابھی محض اڑھائی تین گھنٹے پہلے تھا، مستزاد یہ کہ تمہیں چار ساڑھے چار گھنٹے کا سفر بھی کرنا ہے۔ اگرچہ اس وقت مجھے اشتہا بالکل نہیں تھی پھر بھی سعید نے سنیکس منگوا لیے تھے، جن سے انصاف کرنے کے بعد سعید مجھے بس میں سوار کرا کے جب تک بس اڈے سے نہیں نکلی تھی، باہر کھڑا مسکراتے ہوئے ہاتھ ہلاتا رہا تھا۔
میں خوش تھا کہ جعفری، سلیمی اور باجوہ جیسے اچھے دوستوں سے ملاقاتیں رہیں۔ ان میں سے کوئی بھی نہ تو میرا ہم خیال تھا اور نہ ہی شراب پینے والا بلکہ تینوں مذہبی تھے مگر دوستی کا حق انہوں نے پوری طرح نبھایا تھا۔ گذرے ہوئے ہفتے کی سہانی یادوں کے سہارے نیویارک تک کا سفر یوں کٹ گیا تھا جیسے گھنٹوں کی بجائے لمحوں میں طے ہوا ہو۔
نیویارک میں بس سے اترنے کے بعد پہلے تو میں نے سوچا کہ میں واپنجر فالز چلا جاوں لیکن چونکہ شام کا ملگجا پن شروع ہو چکا تھا اس لیے میں نے ماسکو سے آئے ہوئے اپنے دوست صداقت وڑائچ کے پاس جانے کو ترجیح دی تھی۔ میں اپنے دوست کو دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں کا احوال سناتا رہا تھا۔ کھانا کھایا تھا اور سیر کرنے لیے باہر نکل گئے تھے۔ میرے دوست کو ذیابیطس تشخیص ہوئی تھی اس لیے وہ سیر کرنے لگا تھا۔ سیر سے لوٹتے ہوئے میرے دوست نے بیئر کا ایک پیک پکڑ لیا تھا یعنی چھ بوتلیں۔ جب پیک ختم ہوا تو اس نے لڑکے کو بھیج کر ایک اور پیک منگوا لیا تھا۔ پھر اس خدشے کے تحت کہ گیارہ بجے نزدیک والی دکان بند ہو جائے گی وہ اور نکلے تھے اور تیسرا پیک خرید لائے تھے۔ رات کے دو بجے تک ہم بیئر پیتے رہے، باتھ روم میں جا کر اضافی بیئر کو جسم سے خارج کرتے رہے اور باتیں کرتے رہے تھے۔
کوئی ساڑھے آٹھ بجے کے قریب مجھے معدے میں شدید اینٹھن ہوئی تھی جس کی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی تھی۔ میں نے اپنے دوست کو جگانا مناسب نہیں سمجھا تھا۔ مالک مکان کا بھانجا سلیمان جاگا ہوا تھا۔ اس سے یہ کہہ کر کہ جب میرا دوست اٹھے تو اسے میرے جانے کے بارے میں بتا دینا، میں باہر نکل گیا تھا۔ اگرچہ سوموار تھا لیکن دکانیں بہت کم کھلی تھیں۔ مجھے معلوم تھا کہ امریکہ میں دوا بغیر نسخے کے فروخت نہیں کی جاتی مگر میں ایک میڈیکل سٹور میں داخل ہوا تھا جہاں سے مجھے دوا نہ مل سکی تھی۔ دوسرے میڈیکل سٹور میں داخل ہوتے ہوئے میں نے مارے تکلیف کے پیٹ پکڑا ہوا تھا۔ میں نے فارماسسٹ کو بتایا تھا کہ میں ضد تیزابیت ادویہ ایک عرصے سے استعمال کرتا آ رہا ہے لیکن مجھے گمان نہیں تھا کہ گھر سے دور معدے کی اینٹھن یک لخت شروع ہو جائے گی۔ ظاہر سے اس کی وجہ مجھے معلوم تھی لیکن میں اسے کیوں بتاتا۔ فارماسسٹ نے انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کیا تھا اور مجھے “رینیٹیڈین 75 ملی گرام” کی گولی بغیر معاوضے کے دے دی تھی البتہ منرل واٹر جو میں نے گولی کھانے کے لیے طلب کیا تھا اس کے پیسے ضرور لیے تھے۔ گولی کھا کر تھوڑی دیر بعد مجھے سکون محسوس ہوا تھا۔ اس اثنا میں میں بس میں سوار ہو کر ریلوے سٹیشن پہنچ گیا تھا، جہاں سے میں نے واپنجر فالز جانے کے لیے ریل گاڑی پکڑ لی تھی۔ تکلیف کے بعد راحت کے احساس کے ساتھ دریائے ہڈسن کے کنارے کنارے ریل کا یہ سفر آج مجھے بہت سہانا لگ رہا تھا۔ واپنجر فالز کے سٹیشن پر اتر میں نے بوتھ سے گھر فون کیا تھا اور تھوڑی دیر میں علی مجھے لینے کی خاطر گاڑی لے کر پہنچ گیا تھا۔ “آپ بہت دنوں تک باہر رہے، کہاں کہاں گئے” علی نے پوچھا تھا، میں نے اسے اپنے سفر کی داستان سنانا شروع کی تھی اور اس دوران ہم گھر پہنچ گئے تھے۔ گھر والے ابھی ناشتہ کر رہے تھے۔ میں نے بھی ناشتہ کیا تھا پھر اپنے کمرے میں جا کر کچھ دیر کے لیے ٹی وی دیکھا تھا جس کے بعد سوچا تھا کہ کچھ دیر کے لیے استراحت کر لی جائے اور سو گیا تھا۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply