فلسفہ یا جہالت کا شاخسانہ/زاہد سرفراز

فلسفہ کیا ہے ایک خیال کی دنیا جہاں خیال کے گھوڑے پر بیٹھ کر انسان ایک بے تکی اور غیر حقیقی خیالی دنیا میں اپنا سر پٹختا رہتا ہے اپنے خیالی گھوڑے دوڑاتا رہتا ہے اس وادی میں انساں نے کہیں رخت سفر باندھے مگر نسل انسانی کی تاریک رات میں کبھی سحر نہ ہو سکی تاریخ میں آج تک انسانی دنیا کو اپنی زندگی کے مسائل کا کوئی مستقل حل نہ مل سکا ایک کے بعد ایک جہالت کا سفر ایک کے بعد ایک ماڈل پیش کیا تم نے مگر وہ ماڈل چند قدم چلا بھی نہ تھا کہ زمین بوس ہو گیا۔

ہر بار انسان کو شیطان یہ امید دلاتا رہا کہ تمھیں تمہارے ارمانوں کی منزل مل گئی ہے مگر ہر دور میں یہ ثابت ہوا کہ یہ محض ایک فریب تھا ایک سراب تھا جسکا پیچھا کیا تم نے تم سے تمھاری منزل آج بھی اتنی ہی دور ہے جتنی کہیں صدیاں پہلے تھی۔

شیطان نے خیال کی دنیا میں سب سے پہلے انسانی ذہن میں اپنی موجودگی کا احساس مٹانے کے لیے خود اپنے ہی وجود پر سوال اٹھایا اور اسے بتایا کہ ایسا کوئی بھی یہاں موجود نہیں ہے یہ بس تمھارا وہم ہے یہاں فقط تم ہی تم ہو میرا تو کہیں وجود ہی نہیں ہے۔

یہاں سے گزرا تو پھر خیال ہی خیال میں رب کا بھی انکار کروایا اس نے تم سے اور تمھی تھے جو کہنے لگے کہ ہم نے خدا کو مار دیا کسی نے پوچھا کہاں مارا کہیں نہ کوئی جھگڑے کے آثار نہ کوئی دھکم پیل ہوئی نہ کوئی گھتم گھتا ہوا پھر کہاں مارا اسے تم نے کہا میں نے خیال ہی خیال میں مار دیا اسے اب اس سے بڑی جہالت پر مبنی بے تکی بات بھلا اور کیا ہو سکتی ھے جس کا اصل حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پھر جب تمھیں اپنے خیال کے بے سروپا ہونے کا احساس ہوا اور خیال پر سوال اٹھایا تم نے تو شیطان نے تمھیں مٹیریل ازم کے گھوڑے پر بٹھا دیا جو اپنے آخری تجزیے میں تھا تو خیال ہی مگر اس نے تمھیں تسلی دی کہ اب کی بار منزل پا لی ہے تم نے اور یوں مٹیریل ازم کی آئیڈیالوجی کا آغاذ ہوا پھر اسی وادی میں سرگرداں تمھیں کہیں سے سائنس مل گئی مگر وہ صرف تمھاری مادی ترقی میں ہی معاون ثابت ہو سکی آج بھی تم مٹیریل ازم کے گھوڑے پر سوار خیال کی دنیا میں ہی موجود ہو مگر تمھیں لگتا ہے مٹیریلسٹ ہو تم لیکن ایسا ہے نہیں تم آج بھی خیال کی وادی میں گم ہو اور یہ سفر جہالت اور تاریکی کا سفر ہے یہاں صرف گھوڑا بدلا ہے تم نے میں بھی تمھاری طرح ایک عرصہ تک اسی وادی میں گم تھا حقیقت کا متلاشی رہا مگر تاریک رات تھی ایک جس میں سفر کیا میں نے اور پھر مجھے ایک چراغ مل گیا اور میں نے وہ چراغ جلا کر اپنا راستہ پا لیا اور خیال کی دنیا سے اس جہالت کی تاریک وادی سے نکل آیا اور میں نے شیطان کو جا لیا اپنے رب کے حکم سے اسے اپنے دماغ سے نکال کر نیچے زمین پر پٹخ دیا سنو میں نے شیطان کو سر میدان شکست فاش دی ہے اب وہ میرا سامنا نہیں کرتا کنی کترا کر گزر جاتا ہے مگر اب میں اسکے پیچھے ہوں اور اسے اپنی ذریت کی فکر ہے اسے یہ فکر ہے کہ کہیں میں تمھیں بھی اسکے چنگل سے آزاد نہ کروا دوں سنو اپنی سوچ کا تجزیہ کیا کرو اور اپنے عمل پر نظر رکھو تمھیں وہ اپنی سوچ میں پوشیدہ خیال کی صورت میں کہیں مل جائے گا جو تمھیں کسی بھی بات کا درست تجزیہ نہیں کرنے دیتا جو تمھیں غیر انسانی عمل کرنے پر اکساتا ہے سنو اب میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھ سکتے وہی جو سچ ہے اور جو حقیقت ہے جو اصل میں موجود ہے جو اپنا حقیقی وجود رکھتا ہے آو اب تم بھی نکل آؤ  اس جھوٹ کی دنیا سے اس فریب کی وادی سے جہاں آج بھی تاریکی کا راج ہے وہاں دھوکے اور فریب کے سوا کچھ نہیں تم بھی یہ چراغ تھام لو تمھیں بھی روشنی ملے گی آو میرے ساتھ چلو مجھے میری منزل کا نشاں مل گیا ہے اور مجھے معلوم ہے کہ تمھاری بھی یہی منزل ہے ہم سب کی ایک ہی منزل ہے کیونکہ ابن آدم ہیں ہم جس نے خیال کی دنیا میں داخل ہو کر اپنی جنت کھو دی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply