پاور لومز سیکٹر کا بحران۔۔نادر گوپانگ

پاکستان کی صنعت میں ٹیکسٹائل کا شعبہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے. کُل برآمدات کا بڑا حصہ کپڑے کی مصنوعات پر مشتمل ہے۔ مزدوروں کی کثیر تعداد کا روزگار بھی اسی شعبے سے  جُُڑا ہے، جدید تکنیکی صلاحیتوں سے آراستہ لومز کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں سادہ الیکٹریکل لومز یہاں کے مختلف شہروں جن میں فیصل آباد، شیخوپورہ، قصور، کمالیہ، ملتان، جھنگ، میاں چنوں وغیرہ میں روزانہ کی بنیاد پر خطیر مقدار میں کپڑا بنتی ہیں.

عالمی معاشی بحران کے اثرات بھی پاکستان کی صنعت پر برآمدات میں کمی کی شکل میں واضح طور پر پڑے ہیں، بجلی اور گیس کے شدید بحران کی وجہ سے بھی ٹیکسٹائل کی زوال پذیری اپنی انتہاؤں  کو چھو رہی ہے۔ مہنگی بجلی کے لازمی نتیجہ کے طور پر پیداوار کی لاگت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، پسماندہ تکنیک اور مہنگی انرجی کے باعث یہ مصنوعات عالمی منڈی میں مقابلے کی سکت کھو رہی ہیں، زیادہ تر ڈیمانڈ، بھارت، چین، بنگلہ دیش، سری لنکا اور ویت نام وغیرہ کی طرف منتقل ہوتی جارہی ہے. ملک کی اندرونی کھپت پر بھی چائنہ کی مصنوعات قبضہ کرتی ہوئی  نظر آتی ہیں جو جدید تکنیکی مہارت اور قلیل لاگت کی وجہ سے کم قیمت پر فروخت ہورہی ہیں.

صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے ” پاکستان کا مانچسٹر” کہلوانے والا شہر فیصل آباد جہاں ٹیکسٹائل کی ملکی صنعت کا اکثریتی حصہ موجود ہے، لاکھوں مزدور ان پاور لومز پر کام کرتے ہیں اور ان کے روزگار کا یہی واحد ذریعہ ہے. اس شہر میں زیادہ تر لومز بڑے سرمایہ داروں کی ملکیت ہیں جو صنعت میں بحران کی وجہ سے منافع کی گرتی ہوئی  شرح کو مزدوروں کے خون سے نکالنے کے درپے ہیں، مزدوروں کو بیروزگاری کے خوف کے تحت کم سے کم اجرت پر کام کرنے کےلیے مجبور کرتے ہیں،یہ سرمایہ دار ایک جانب تو مزدوروں کے روزگار کے نام پر حکومت سے سستی بجلی اور ریفارمز کی ڈیمانڈ کرتے ہیں تو دوسری جانب مزدوروں کی تنخواہوں میں کٹوتیوں کے ذریعے اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کی سعی بھی کرتے دکھائے دیتے ہیں. لیبر ڈیپارٹمنٹ کے قوانین، سروس پروٹیکشن، اولڈ ایج بینیفٹس اور سوشل سیکورٹی سے بچنے کےلیے مزدوروں کو نوکری کے تقرر نامے تک جاری نہیں کیے جاتے. کام کی جگہ پر انتہائی  نا مساعد حالات ہیں جہاں تازہ ہوا کی آمدورفت کا کوئی  انتظام نہیں ہے، پینے کے صاف پانی، واش روم، آگ سے بچاؤ کے مناسب نظام اور ایمرجنسی  کی صورت میں فوری طبعی امداد کی سہولیات کا شدید فقدان نظر آتا ہے. گردوغبار کی وجہ سے دمہ، ٹی بی، ہیپاٹائٹس، کینسر، بلڈ پریشر، سانس لینے کے مسائل اور جلد کی بیماریاں عام ہیں. شور کی آلودگی کے باعث مزدوروں کی قوت سماعت پر گھمبیر اثرات پڑتے ہیں. ان تمام مسائل کے پیش نظر مزدوروں کی بیشتر تحریکیں ابھری ہیں جن کو نام نہاد یونین بیچ ڈالتی ہیں یا پھر درست لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے شکست کا شکار ہوئیں. نتیجہ کے طور پر بڑے پیمانے پر مزدوروں کو خاطر خواہ کامیابیاں نہیں مل سکیں.

اس کے علاوہ کئی  ایسے خاندان ہیں جو چند مرلوں کے گھروں میں رہتے ہیں، جن میں دو سے تین لومز، تانا، نلیاں بنانے والی مشین، لومز سے منسلک دیگر سامان بھی گھر میں ہوتا ہے اور رہائش بھی اسی میں ہوتی ہے، ان لوگوں کا ذریعہ معاش صرف پاور لومز سے وابستہ ہے، مرد حضرات ان لومز پر کام کرتے ہیں اور عورتیں نلیاں بناتی ہیں. بھلے وقتوں کی بات ہے جب یہ صنعت عروج پر تھی تو ان افراد کے بارے میں مشہور تھا کہ ” جولاہوں کی لومیں سونے کی تاریں بنتی ہیں”. ان دنوں شہروں میں کپڑے کے بڑے بازار ہوا کرتے تھے جہاں یہ لوگ جا کر اپنا کپڑا فروخت کرتے تھے لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بڑے مینو فیکچرر میدان میں آگئے اور انہوں نے دھاگہ دیکر ان سے اجرت پر کپڑا بنوانا شروع کر دیا، بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے پیداواری لاگت زیادہ ہوگئی  ہے، چار لوموں والے گھریلو یونٹ پر ہر انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس اور نیلم جہلم سرچارج وغیرہ کی مد میں ماہانہ 5 ہزار روپے تک بجلی کے بلوں سے وصول کیے جارہے ہیں. ٹیکس قوانین کے تحت دو لاکھ نوے ہزار سالانہ انکم کی صورت میں انکم، سیلز ٹیکس لاگو ہوتے ہیں جبکہ یہ گھریلو یونٹ بجلی  کے بلوں کی ادائیگی کے بعد مشکل سے ہی ان گھروں کی بنیادی ضروریات پوری کر پاتے ہیں. پچاس ہزار ماہانہ بل سے زائد کی رقم پر ٹیکس ری فنڈ کیا جاتا ہے جبکہ ان گھریلو صنعتوں میں خسارے کے باوجود ایسی سہولیات میسر نہیں ہیں، پنجاب حکومت نے پراپرٹی ٹیکس کی مد میں بھی وصولیاں شروع کر دی ہیں اور ضلعی حکومت نے الیکٹریکل موٹر کے لائسنس کی فیس سالانہ پچاس روپے سے بڑھا کر پانچ سو روپے تک کر دی ہے جس سے ان میں محنت کشوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی  ہے. پسماندہ تکنیکی صلاحیت اور زائد پیداواری صلاحیت کی وجہ سے یہ کپڑا چائنہ کی مصنوعات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے اور افغانستان سے بھی ڈیمانڈ میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی  ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف چھوٹے یونٹ کے مالکان بلکہ اس گھریلو صنعت سے جڑے لاکھوں محنت کش بھی معاشی بدحالی کا شکار ہوئے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

اس بحران کی وجہ سے بڑی تعداد میں محنت کش بیروزگار ہوئے ہیں اور باقی ماندہ مزدور نامساعد حالات کے باوجود کم اجرتوں کے عوض کام کرنے پر مجبور ہیں، جن کی زندگیاں ایک عذاب سے کم نہیں ہیں، جن کے پاس بچوں کی تعلیم کےلیے وسائل نہیں ہیں، خوراک کی عدم فراہمی ہے، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، روزگار کےلیے کوئی  اور راستہ نہیں دکھائی  دیتا. پاکستان میں موجودہ معاشی نظام میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ان مزدوروں کے دکھوں کا مداوا کرنے کے ساتھ انہیں بنیادی انسانی ضروریات باہم پہنچائی  جاسکیں، ان مزدوروں کے دکھ بھی طلباء، کسان اور عام عوام کے دکھوں سے مختلف نہیں ہیں، بلکہ  ان سب کے دکھ سانجھے ہیں اور ان تمام دکھوں، تکلیفوں، محرومیوں اور ذلتوں کا موجب بھی یہی نظام ہے جس میں سرمایہ کی اہمیت جیتے جاگتے انسانوں سے زیادہ ہے، انسانوں کے بہتر مستقبل کےلیے طبقاتی جڑت کو مضبوط کرتے ہوئے اس نظام کے خلاف جدوجہد کرنے کے علاوہ کوئی  بہتر راستہ نہیں ہو سکتا، تاکہ ایسی منصوبہ بند معشیت کی بنیاد رکھی جا سکے جس کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل ہو!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply