پاکستان” زندہ بھاگ”/ڈاکٹر حفیظ الحسن

دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک جیسے کہ جرمنی، جاپان، فرانس یا امریکہ میں سروس کا معیار پاکستان سے کئی گنا بہتر ہے۔ آپ کسی سرکاری ادارے میں کسی کام کے سلسلے میں چلے جائیں مثال کے طور پر گھر کی رجسٹریشن، گاڑی کی رجسٹریشن،پاسپورٹ کا حصول یا سرکاری ہسپتال میں علاج وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام جگہوں پر بیٹھا عملہ آپکی بھرپور مدد کرے گا۔ آپکے ساتھ تعاون کرے گا، آپکی مشکل کو سمجھے گا، اسکا حل بتائے گا اور اس بات کو یقینی بنائے گا کہ آپکو سہولت ملے۔ وہاں ان اداروں میں کام کرنے والے فرعون نہیں ہیں کہ آپکا اُن سے کوئی کام نکل آیا یے تو اب اُنکا بنیادی حق ہے کہ آپکو تنگ کریں یا کام نہ کریں۔ ان افراد کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ اُنکا دراصل کام ہی عوام کی خدمت اور ان سے بہتر طور پر پیش آنا ہے۔ یہی تو نوکری ہے ورنہ کیا وہ وہاں چنے بیچنے آئے ہیں؟
بینکوں میں بیٹھا عملہ آپکو دھتکارے گا نہیں، ٹوکن سسٹم کے تحت آپ اپنی باری پر کاؤنٹر پر جا کر اپنا کام کروا سکتے ہیں، کوئی آپکو یہ دکھڑا نہیں سنائے گا کہ “ششٹم ڈاؤن” ہے یا کل آنا۔ کاؤنٹرز کی تعداد زیادہ ہے جو بینک میں وہاں آنے والے افراد کے حساب سے ہیں کہ کسٹمز کو زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے۔ کاؤنٹر پر بیٹھے افراد کام کے وقت چائے نہیں پی رہے ہوتے ، گپیں نہیں ہانک رہے ہوتے یا لمبے لمبے نمازوں کے وقفے نہیں لے رہے ہوتے۔
پبلک باتھ رومز جیسے کہ ائیرپورٹ ، ریلوے سٹیشن پر صفائی کا انتظام بے حد معیاری ہوتا ہے۔اکثر باتھرومز کے باہر بٹن لگے ہوتے ہیں کہ آپ صفائی سے مطمئن ہیں یا غیر مطمئن وغیرہ وغیرہ ۔ ہسپتالوں میں جانا ہو تو ایمبولینس کال کریں چند منٹ میں حاضر۔ خود ہسپتال جائیں تو ڈاکٹر آپکا مکمل تسلی سے معائنہ کرتا ہے۔ ہیلتھ انشورنس کے باعث آپ علاج معالجہ مفت کرا سکتے ہیں۔
سرکاری سکولوں میں تعلیم کا نظام بہتر اور مفت یے۔ اساتذہ پروفیشنل ہیں۔ غیر حاضر ہو کر اپنے ذاتی کاروبار نہیں چلا رہے ہوتے اور نہ ہی مفت کی تنخواہیں لے رہے ہوتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انکی تربیت اور شخصیت میں اعتماد پر بھرپور زور دیا جاتا ہے۔ ماں باپ کو گاہے بگاہے بچوں کے حوالے سے رپورٹس دی جاتی ہیں۔ اساتذہ اور والدین کا رابطہ بہتر ہے۔
معاشرے کے افراد اپنے ملک کے لیے بہتر سوچتے ہیں۔ اجتماعی سوچ غالب ہے۔ انفرادی سوچ اور ذاتی مفادات کم ہیں۔ لوگوں میں شعور ہے کہ قانوں کی پاسداری کرنی ہے۔ سسٹم بنا ہوا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ناانصافی نہ ہو۔ عدالتوں کے جج مرسیڈیز اور ملازموں کی فوج کے ساتھ دندناتے نہیں پھرتے۔ یونیورسٹیوں میں تعلیم کا جدید معیار ہے۔ ایسے سبجیکٹس پڑھائے جاتے ہیں جنکی ضرورت عملی طور پر ملک کو ہو۔ مثال کے طور پر جرمنی جو آئی ٹی کے شعبے میں کافی پیچھے رہا اب آہستہ آہستہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے حوالے سے یورپ کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ یونیورسٹی میں نت نئے آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے کورسسز کرائے جا رہے ہیں جو اس پالیسی کا حصہ ہیں کہ جرمنی یورپ کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے شعبے میں لیڈ کرے۔
لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہر کمیونٹی کے قریب پبلک پارکس ہیں جہاں بچوں کے لیے جھولے لگے ہوتے ہیں۔ پارکس میں صفائی کا نظام بہتر ہے۔ جگہ جگہ کوڑے دان لگے ہوئے ہیں، بس سٹاپس، پارکس، ریلوے سٹیشن ، سڑکوں پر وغیرہ وغیرہ تاکہ لوگ باہر گند نہ پھینکیں، ان کوڑے دانوں میں پھینکیں اور لوگ انہی میں گند پھینکتے ہیں۔ صبح صبح پورے شہر کی صفائی کی جاتی ہے۔گھروں اور عوامی مقامات میں لگے کوڑے دانوں سے گند سمیٹا جاتا ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ بہتر یے۔ آپکے پاس گاڑی نہ بھی ہو تو آپ با آسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرامز ، بسوں یا ٹرینوں کے وسیع اور منظم جال کے ذریعے پہنچ سکتے ہیں۔ سڑکوں پر چلتی گاڑیاں صاف دھواں چھوڑتی ہیں۔ آب و ہوا بہتر ہے۔سڑکیں کشادہ اور صاف ہیں۔ راہگیروں کے لیے فٹ پاتھ ہیں، سائیکل والوں کے لیے اپنی مخصوص لین۔ جگہ جگہ سبزا اور درخت ہیں۔ ایک ایک چیز پلاننگ اور سوچ سمجھ کر بنائی گئی ہے۔
الغرض ان ممالک میں ایسا نظام ہے کہ آپ بھی یہاں آ کر “بندے کے پُتر” بن جاتے ہیں۔ باقی جو آپ کو یہ غلط فہمی ہے کہ مغرب میں لوگ خوش نہیں یا یہاں کا خاندانی نظام بہتر نہیں یا یہاں خودکشیاں ہوتی ہیں تو انگور کھٹے ہیں۔ کل آپکو ان ممالک کا کوئی ویزا دے تو آپ نے بھی یہاں آ جانا ہے اور اس میں کیا برائی ہے؟ بہتر مستقبل کسے نہیں چاہئے؟ اپنے بچوں کے لیے محفوظ اور صاف ماحول کسے نہیں پسند؟ کون چاہے گا کہ اُنکی طرح اُنکی آنے والے نسلیں بھی آٹے کی لائنوں میں لگے، جاہل رہے یا بنیادی سہولیات جیسے کہ پینے کے صاف پانی تک کو ترسے اور ٹکے ٹکے کے جاہلوں، سرکاری اداروں کے فرعون نما افسروں یا رنگروٹ اور سپاہیوں سے ہر روز اپنی عزتِ نفس مجروح کرواتی پھرے؟ یا موٹی توندوں والے گنجے لاغر، لالچی اشرافیہ کے بابوں یا گردن میں سریہ بھرے پروفیشنل پراپرٹی ڈیلروں کا غلام رہے اور ان سے ڈرے ۔ مگر افسوس کہ یہ سب ہمارے ہاں ممکن نہیں  .

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply