پہلی آنکھ/حسان عالمگیر عباسی

دنیا بظاہر سندر لال ہری بھری ہے اور قدرت نے اسے مزین کیا ہے۔ ڈیکوریٹڈ فارم میں ہے۔ شہروں میں دھواں شور زیادہ ہونے کی وجہ سے شاید یہ رنگینیاں کم ہوں لیکن بیش بہا رنگینیاں ڈھونڈنے سے مل جاتی ہیں۔ جہاں تک نظر پڑ سکتی ہے سورج، چاند، ستارے، پہاڑ، درخت بتانے کے لیے کافی ہیں کہ یہ نظم و ضبط پہ کھڑی ہے۔ یہ ایک آنکھ دیکھ رہی ہے۔

دوسری آنکھ کیا دیکھ رہی ہے؟ وہ دیکھ رہی ہے کہ فساد فی الارض ہے۔ غیر فطری پریکٹسز ہیں۔ بددیانتی ہے۔ امن و سلامتی و استحکام و عافیت سرے سے ہی اپنا وجود کھو بیٹھی ہے۔ سیاسی و سماجی و معاشی و مذہبی تقسیم ہے۔ اشرافیہ کی بدمعاشی اور نرگسیت پسندی اور نفس کی غلامی ہے۔ ایک جیسے انسان نسلوں قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں بھلی بات ہے لیکن یہ پہچان تعصب کی وجہ بن چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایسے میں سروائیول کی جنگ لڑنا ہوتی ہے, جنگ زدہ علاقوں میں پہنچنا یا ذہنی فتوحات اپنے نام کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ پہلی آنکھ ہی سے مسلسل دیکھتے رہنا زیادہ مناسب ہے۔ اپنا رول نبھانا ہوتا ہے۔ خود کو سیٹیسفائے کرنا ہوتا ہے۔ کامیاب رہیں تو سبحان اللہ کہیں ادروائز ان للہ پڑھیں اور ایک ہاتھ سر پہ بائیں جانب اور دوسرا تھوڑی تلے دائیں جانب رکھیں اور جھٹکا دیں تاکہ سیدھا رہے اور ٹیڑھ ختم ہو اور پھر سے جت جائیں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply