اب تک کے کیریئر پر ایک نظر/یاسر جواد

آج میرے بارے میں ایک دوست اور قاری کی توصیفی پوسٹ نے اپنے کیریئر کا بہت کچھ یاد دلا دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

 

1992ء سے میں تقریباً وہی جملے متواتر سنتا آ رہا ہوں جیسے جملے ہر پاکستانی حکومت ہمیشہ کہتی رہی ہے اور جیسے بیانات اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔
سب سے پسندیدہ جملہ ہے: کاغذ مہنگا ہو رہا ہے۔ اِس کے بعد: کاروبار چلانے کے خرچے بہت زیادہ ہیں۔ پھر، ہم تو احسان کر رہے ہیں علم و ادب پر۔ یا یہ ہمارا ہی حوصلہ ہے کہ اس جیسے ماحول میں ابھی تک کتابیں چھاپ رہے ہیں۔ اور سب سے بڑی: آج کل کتاب کون پڑھتا ہے؟
یہ جملے میں نے تقریباً ہر مہینے اور ہر فون کال پر سنے۔ ان میں صداقت بھی ہو گی۔ لیکن دوسری صداقتیں بھی ہیں: وہ یہ کہ کم ازکم نصف درجن ایسے پرنٹر نما لوگ ہیں جنھوں نے صفر سے کام شروع کیا اور رائلٹی سے عاری کتابیں چھاپ اور بیچ کر بھرپور سیٹل ہوئے اور اپنی اولادوں کو بھی کاروبار منتقل کیا۔ یہ لوگ ایسے ہیں کہ بائنڈر سے دو روپے کی خاطر لڑیں گے، ریڑھے والے سے بیس روپے پر تکرار کریں گے اور مسودہ مفت مانگیں گے۔
انسان ایک پیکیج ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ ایک پہلو سے سفاک ہوں اور دوسرے پہلو سے نہایت انسان دوست۔ قاری اور مصنف کو بھی سمجھ ہونی چاہیے کہ آپ محض ایک کاروباری سے ڈیل کر رہے ہیں۔ اگر آپ غلطی سے کچھ اور سمجھ بیٹھے ہیں تو دو تین سال میں اصل سمجھ آ جائے گی۔
مطلق اچھا اور مطلق برا کوئی بھی پیشہ یا کام نہیں ہوتا، نہ کوئی انسان قطعی برا یا اچھا ہوتا ہے۔ ہم اپنے بارے میں بھی یہ بات نہیں کہہ سکتے کہ ہم میں ساری باتیں اچھی ہیں یا ہم ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا زیادتی نہ ہو گا کہ ہر پیشے اور اِنسان کو اُس کے میرٹس پر لینا چاہیے۔
دراصل پیشہ یا مشغلہ بھی آپ میں کئی اوصاف پیدا کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر لوگ فون پر لمبی بات نہیں کرتے کہ ایویں میڈیکل ایڈوائس نہ دینی پڑ جائے۔ وکیل دوست اپنے پیشے کے علاوہ ہر چیز پر بات کریں گے۔ کتابیں لکھنے والوں کے خیال میں اُن سے بڑا مصنف دنیا میں کوئی نہیں گزرا۔ ہر شاعر اپنے کلام کو غالب کے بعد سب سے بڑا سمجھتا ہے۔
سو چیزوں کو اُن کے میرٹس پر دیکھنے کی عادت کی وجہ سے میں نے فیصلہ کیا کہ کبھی پبلشر نہیں بننا، یعنی اپنے تراجم کے سوا کچھ چھاپنے کی طرف نہیں جانا۔ ورنہ میرے اندر بھی کئی قسم کی عادات آ جائیں گی اور میری بات اپنا وزن کھو دیں گی، نیز میں ساتھی مصنفین کو اپنے ’کاروبار‘ کی تشہیر کے لیے استعمال کرنے لگوں گا۔
تہذیب کی کہانی کی طباعت کے تجربے سے میرے کیریئر کو ایک نئی سمت ملی ہے، جس کے لیے اپنے پڑھنے والوں کا اُس سے زیادہ شکر گزار ہوں جتنا وہ میرے ہیں۔
(نوٹ: میں ذاتی ون ٹو ون معاملات میں ہونے والی یک طرفہ یا دو طرفہ زیادتیوں کو کبھی تحریر میں نہیں لاتا۔ ہاں، اگر پندرہ بیس لوگ کسی کے طرزِعمل کے گواہ ہوں تو ضرور لکھتا ہوں)۔

Facebook Comments

یاسر جواد
Encyclopedist, Translator, Author, Editor, Compiler.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”اب تک کے کیریئر پر ایک نظر/یاسر جواد

Leave a Reply