ذہانت (25) ۔ واٹسن/وہاراامباکر

فرض کیجئے کہ آپ ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آپ کا وزن کم ہو رہا ہے اور پیٹ میں درد رہتا ہے۔ ساتھ ہی سینے میں جلن کا احساس ہے۔ ڈاکٹر کے لئے چیلنج یہ ہے کہ اس نے ان علامات کی وضاحت کے لئے ممنکہ تشخیص کرنی ہے۔

 

 

 

وہ آپ سے سوال کرتا جائے گا اور جس طرح اس کو مزید انفارمیشن ملے گی، وہ آپ کے جواب کے مطابق کسی خاص جواب کے بارے میں اپنے کانفیڈنس میں ترمیم کرتا جائے گا۔ ڈاکٹر اس کو differential diagnosis کہتے ہیں۔ ریاضی دان اس کو Bayesian inference کہتے ہیں۔

آئی بی ایم کے تخلیق کردہ ذہین پروگرام نے شطرنج کے عالمی چیمپئن کو 1997 میں شکست دی تھی۔ مصنوعی ذہانت کے لئے یہ آسان چیلنج تھا۔ 2004 میں IBM نے اپنی توجہ اگلی منزل کی طرف کی۔ یہ ٹی وی پر ہونے والا گیم شو Jeopardy! تھا۔ اس میں شرکاء کو سراغ دئے جاتے ہیں جس کی مدد سے انہیں سوالات کی مدد سے درست جواب تک پہنچنا ہے۔
آئی بی ایم کا بنایا جانے والا مصنوعی ذہانت کا الگورتھم Watson تھا جس نے اس میں انسانی شرکاء کو شکست دی۔
یہ شطرنج کے مقابلے میں بہت مشکل تھا کیونکہ اس میں تناظر سمجھنا ہے اور کنفیوژن کی دھند میں سے راستہ ڈھونڈنا ہے۔
تو کیا واٹسن طبی تشخیص بھی اسی طریقے سے کر سکتا ہے؟
یہ گیم کھیلنے کے مقابلے میں تشخیص کا عمل بہت مشکل ہے لیکن منطقی میکانزم ویسا ہی ہے۔
آئی بی ایم نے اعلان کیا کہ وہ طب کی طرف آنے کا اردہ رکھتے ہیں۔ واٹسن کا حتمی مشن “کینسر کا خاتمہ” بنایا گیا۔ اور واٹسن کی تشہیر کے لئے معروف اداکار جان ہام کی خدمات حاصل کی گئی جو کہ بتائیں کہ “یہ نوعِ انسانی کی سب سے طاقتور تخلیق ہے”۔
مصنوعی ذہانت کی تشہیر میں مبالغہ آرائی اور ڈرامہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ (یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ واٹسن فی الحال کینسر ختم نہیں کر پایا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی بی ایم اور یونیورسٹی آف ٹیکساس کا معاہدہ 2016 میں ختم ہو گیا۔ چار سال میں 62 ملین ڈالر خرچ ہوئے لیکن واٹسن سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں برآمد ہوا۔ ستمبر 2017 کو STAT نے رپورٹ کیا گیا کہ یہ ابھی مختلف اقسام کے کینسر کے بارے میں سیکھنے کے ابتدائی اقدام پر پھنسا ہوا ہے۔
اس میں سب بری خبر نہیں تھی۔ واٹسن سے کی گئی تحقیق نے پانچ جین دریافت کئے تھے جو موٹر نیورون بیماری سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن مجموعی طور پر آئی بی ایم کے پروگرام اپنی مارکٹنگ کی طرف سے کی گئی تشہیر کے معیار پر ناکام رہے تھے۔
اصولی طور پر تو ایسا الگورتھم بنایا جا سکتا ہے جو بیماریوں کی تشخیص کر سکے (حتیٰ کہ مریضوں کو معقول علاج کا پلان بھی تجویز کر دے) اور یہ ایک قابلِ تعریف مقصد ہے۔ لیکن یہ بہت بہت دشوار ہے۔ کسی گیم شو کو جیت کر ہیڈلائن بن جانے یا کینسر کے خلیے کی تصویر کو پہچاننے سے بہت مشکل۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کینسر کو تصویر سے پہچاننے میں کامیابی کے بعد بظاہر لگتا ہے کہ اگلا منطقی قدم ایسی مشین بنا لینا ہو گا لیکن پہچاننے والے الگورتھم کا دائرہ کار بہت مختصر ہے۔ تشخیص کی مشین کو جو انفارمیشن ملے گی، وہ اصل وجہ سے بہت دور بھی ہو سکتی ہے۔ کسی مریض کو بازو میں سوئیاں سے چبھ رہی ہیں تو اس کی ممکنہ وجہ پٹھے کا spasm ہو سکتی ہے جو کہ بھاری وزن اٹھانے کے باعث اعصابی خلیے سے شروع ہوا ہو۔ یا پھر یہ غیرمعیاری خوراک کی وہج سے آنتوں میں سوزش کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ الگورتھم (یا ڈاکٹر) کو ایک علامت لینی ہے اور اپنا واپس راستہ بنانا ہے جو درست تشخیص کی طرف جاتا ہو۔ یہ واٹسن کیلئے یقنی طور پر بہت بڑا چیلنج ہے۔
اور اس کے ساتھ دیگر مسائل بھی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply