• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اربعین نام حسینؑ پر آباد عظیم دنیا/ڈاکٹر ندیم عباس

اربعین نام حسینؑ پر آباد عظیم دنیا/ڈاکٹر ندیم عباس

آج رات ہم نے اہل بصرہ کے ایک موکب میں گزاری۔ صبح صبح موبائل چارجنگ سے اتارنے گیا تو ایک شخص نے پہلے عربی بولی، جب اسے پتہ چلا کہ میں پاکستان سے ہوں تو اردو بولنے لگا۔ میں نے پوچھا اردو کہاں سے سیکھی ہے تو اس نے بتایا کہ مختلف ویڈیوز دیکھ کر سیکھی ہے۔

 

 

 

 

ہم کربلا میں موجود تھے، اس نے بتایا کہ ہمارے قبیلے نے اس موکب کے لیے زمین خریدی تھی، پھر یہ عالی شان عمارت تعمیر کی اور اب ہم موکب لگاتے ہیں۔ میں نے پوچھا سال بھر اس بلڈنگ کا کیا کرتے ہیں؟ اس نے بتایا یہ خالی ہوتی ہے، فقط امام حسینؑ کے زائرین کی خدمت کے لیے ہے۔ کل ہم موکب ختم کریں گے، ملکر روئیں گے کہ خدمت کا یہ سلسلہ ایک سال کے لیے منقطع ہوگیا اور بصرہ چلے جائیں گے۔ قارئین کرام یہ وہ عظیم جذبہ ہے، جو دلوں میں عشق حسین ؑ سے جنم لیتا ہے۔

اربعین یعنی عاشورا کے عالمی انقلاب کے چالیس دن گزر جانے کے بعد سید و سردار کی یاد منانے کا عالمی دن۔ صدام کی آمریت کے خاتمے اور عراق کی عوام کی آزادی نے دنیا کو جس چیز سے متعارف کرایا، وہ مشی ہے۔ ویسے بھی ہر مومن کے دل کا کعبہ امام حسینؑ کا روضہ ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اس کی شبیہ بنا کر عاشورا کے جلوس نکالتے ہیں۔ جب دنیا بھر کے لوگوں نے اہل عراق کی امام حسینؑ سے والہانہ عقیدت کو دیکھا تو داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔ کافی سالوں سے مناظر دیکھ رہے تھے اور جو دوست واپس آتے، ان کی زبانی سن بھی رہے تھے۔ اس سال موقع ملا کہ ہم اس عظیم عالمی بیداری کی تحریک کا حصہ بن سکیں۔ مراحل تو ویسے ہی مشکل تھے، جیسے ہم اہل پاکستان کے لیے کسی بھی ملک میں جانے کے لیے ہوتے ہیں، مگر نام حسینؑ پر سب کچھ ہیچ تھا۔

ہم نے نجف سے جیسے ہی کربلا کی راہ لی، ایک عظیم دسترخوان ہمارا منتظر تھا۔ یہ دسترخوان کھانے پینے کا ہی نہیں، علم و حکمت، روحانیت و خدمت کا دسترخوان تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے منہ پر زور دار طمانچہ تھا۔مغربی تہذیب جس میں باپ بالغ بیٹے سے بھی گھر کا کرایہ لے لیتا ہے، اس کے پروردہ بین الاقوامی سماج میں رہنے والوں کے لیے ناقابل فراموش دنیا تھی۔ یہاں اس بات پر جھگڑا تھا کہ مہمان میرے پاس کھانا کھائے، اس بات پر تکرار تھی کہ زائر میرے گھر میں قیام کرے۔ جہاں جائیں، حیران کن طور پر یوں لگتا ہے، جیسے انسان اپنے گھر میں آچکا ہے۔ عام حالات میں دو چار کلومیٹر چلنا وہ بھی معتدل ماحول میں کافی مشکل ہوتا ہے اور یہاں تو روزانہ بیس بیس کلومیٹر طویل فاصلے طے کیے جا رہے ہیں۔ حد یہ ہے کہ جو بھی ممکنہ مسئلہ ہوسکتا ہے، اس کا حل بھی فری میں موجود ہے۔ لوگ بڑی عقیدت سے جوتے بھی مرمت کر رہے ہیں۔

یہ ایک عظیم الشان سرگرمی ہے، جو عالمی سطح پر اثرات مترتب کر رہی ہے۔اس سرگرمی میں آپ نے پیدل چلنا ہے اور چلتے رہنا ہے۔ اسی نوے کلومیٹر طے کرکے ایک دربار میں حاضری دینی ہے اور ایک عہد کو دہرا کر چلے جانا ہے۔اس سفر میں آنے کی کوئی بھی شرط نہیں ہے، بس انسان ہونا چاہیئے۔ مشی کی خوبصورتی اس کے نونہال ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ یورپ کے ٹھنڈے علاقوں سے لے کر پنجاب کے میدانوں تک سے بڑی تعداد میں چند ماہ سے لے کر چند سال تک کی عمر کے بچے اس مشی میں شامل ہیں۔ آپ جہاں بھی رکیں، آپ کو بچوں کے واکرز کی لائنیں نظر آتی ہیں۔ والدین عشق اہلبیت ؑ کو نسل نو کے خون میں شامل کر رہے ہیں۔ تہذیب جدید کی تباہ کاریوں نے نسل نو کو متاثر کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے خلاف یہ حسینی ؑ واک حاذق طبیب کا بتایا آزمودہ نسخہ ہے۔

دوسرے وہ بچے بھی بڑے عظیم بچے ہیں، جو شدید گرمی میں زائرین کو پانی پلا رہے ہیں، کھانے کھلا رہے ہیں، ان کے لیے بستر لگا رہے ہیں، واش روم اور دیگر ضروریات کی جگہوں کی طرف رہنمائی کر رہے ہیں۔ چلچلاتی دھوپ میں اے زائرین حسین ؑ آپ کو خوش آمدید کے نعرے بلند کرتے اور سروں پر تھال اٹھائے کھانے پیش کرتے یہ بچے فرشتے لگے۔ ہر سو میٹر پر سلیقے سے کھڑی بچیاں لبیک یاحسینؑ اور لبیک یا مہدی ؑ کے نعرے بلند کر رہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کہ یہ اس مشی کا نغمہ ہے، جو انہیں عطا کر دیا گیا ہے۔ یارو تربیت کا یہ انداز سیکھو، دادا عصا لیے انتظامات کی نظارت کر رہا ہے، بیٹا بھاگ دوڑ کر رہا ہے اور پوتے ان کے دست بازو ہیں۔

دنیا مذہب کو خواتین کو محدود کرنے والے ایک نظریئے کے طور پر دیکھتی ہے۔آو ذرا کربلا آو، اصل کربلا میں زینب ؑو رباب ؑ کے کردار کے بغیر کربلا مکمل نہیں ہوتی۔ آج کی مشی بھی خواتین کے متحرک کردار کی حامل ہے۔ ہر موکب میں پیش کرنے والے مرد ہیں اور یہ سلیقے سے آمادہ کرکے دینے والی خواتین ہیں۔ قارئیں کرام عراق کی گرمی مشہور ہے، ہم آج جب کربلا پہنچے تو میرے دوست صداقت حیدری صاحب نے متوجہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب دیکھیں تارکول بھی پگھل چکا ہے۔ حیرت ہے کہ اس وقت بھی مشی جاری تھی اور لوگ دیوانہ وار امام حسینؑ کی ضریح کی طرف دوڑ رہے تھے۔ اس وقت بھی تندور سے لیکر آگ سے سالن وغیرہ بنانے والے مقامات پر مائیں بہنیں موجود تھیں اور زائرین کی خدمت کر رہی تھیں۔ مجھے شیراز کے استاد ملے، وہ اپنے بیٹیوں، نواسیوں اور پوتیوں کے ساتھ مشی کے لیے آئے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ یہ مشی ایک موقع بھی ہے کہ دنیا بھر کے حسینیؑ فکر لوگ باہمی مکالمہ کریں۔

یہاں ایک بہت خوبصورت چیز شہیدوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہے۔ وہ قومیں دنیا میں سرخرو ہوتی ہیں، جو اپنے شہداء کے خون کو نہیں بھولتیں۔ نجف سے کربلا تک کا پورا روٹ یہ بتا رہا تھا کہ یہ قوم اپنے محسنوں کو بھولی نہیں ہے۔ جگہ جگہ شہداء کی تصاویر لگی تھیں اور کئی مکمل موکب ایسے تھے، جہاں پر صرف شہداء کی تصاویر لگی تھیں اور ان کے کارناموں کو اجاگر کیا گیا تھا۔ شہید حاج قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کے بڑے بڑے پوٹریٹ لگے ہوئے تھے۔ ان محسنین کی داعش کے خلاف اور اسلام کی عظمت و سربلندی کے لیے دی گئی قربانی کو یاد کیا گیا تھا۔ ایک بہت خوبصورت چیز مسائل شرعیہ بتانے کے لیے جگہ کاوئنٹر بنائے گئے تھے اور وہاں علمائے کرام موجود تھے، جو مسائل کے حوالے سے رہنمائی کر رہے تھے۔ تربیت کا یہ انداز بہت اعلٰی تھا، اسی طرح مختلف جگہوں پر بچوں کی تربیت کے لیے مختلف سرگرمیاں رکھی گئی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یوں لگا کہ پوری عراقی ریاست زائرین کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ فوج، پولیس اور دیگر ادارے مستعد کھڑے تھے۔ ہمیں گاڑی نہیں مل رہی تھی، فوجی ٹرک نے ہمیں اٹھایا اور گاڑی میں بٹھا کر سر سے ٹوپی اتاری اور الٹا ہمارا شکریہ ادا کرنے لگا کہ ہم نے اسے خدمت کا موقع دیا۔ بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے، راستے میں ادارہ التنزیل کی طرف سے ہر آنے والے زائر سے دو قرآن کے صفحے امام زمانہؑ کے ظہور کی تعجیل کے لیے پڑھوائے جا رہے تھے اور بڑی تعداد میں زائرین یہ صفحات تلاوت کر رہے تھے۔ مشی کے لیے جلوس سے بار بار لبیک یامہدیؑ کے نعرے یہ بتا رہے ہیں کہ وہ کل کا حسینؑ جسے یک و تنہاء شہید کر دیا تھا، مگر اب ایسا نہیں ہوگا، اب کروڑوں لوگ حسینیؑ ہیں اور اپنے امام کے منتظر ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply