اور بھٹو آج بھی زندہ ہے/گل بخشالوی

صدائے حق کی علمبردار قیادت پابند ِ سلاسل ہے ، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت عوام کو اپنے پاکستان میں قید کر کے بیرون ممالک فرار ہو چکی ہے ظلم و بربریت کا بازار گرم ہے ، آزاد کشمیر سمیت پور ا پاکستان سراپا احتجاج ہے لیکن نگران حکومت کی حکمرانی میں ملک بھر میں شانتی ہے ، عوام خوش اور خوشحال ہیں سوشل میڈیا میں واہیات کی برسات ہے ، عمران خان کا نام شوشل میڈیا میں کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ سکرین میڈیا ، میں جو بولتے تھے ، ان کی زبانوں کو تالا لگا دیا گیا ہے جو بھونکتے تھے وہ آج بھی بھونک رہے ہیں ، یزید پرستوں کے گیت گا رہے ہیں ،حقائق کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے والو ںکی فیس بک آئی ڈی اکا ونٹ بند کر دیا گیا ہے ،عمران خان کے نام تک سے خوف زدہ حکمران آگے جانے کیا کریں گے یہ تو وہ ہی جانتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ محب وطن پاکستانیوں کو اپنے وطن میں قید کر دیا گیا ہے

Advertisements
julia rana solicitors

کسی شفاف وجود پر پہا ڑ کا اتنا بوجھ نہیں ہوتا جتنا بے قصور پر تہمت لگانے کا ہوتا ہے عمران خان پر کئی ایک اور تہمتوں میں ایک تہمت یہ بھی تھی کہ عمران خان کوکین کا نشہ کرتا ہے ، لیکن قید ِ تنہائی میں اگر اسے کسی چیز کی طلب ہوئی تو انگریزی ترجمے کے ساتھ قران مجید ، جائے نماز ، کچھ تار یخی کتابیں ، ، مغرب پرستوں کا یہ وار بھی خالی گیا عمران خان جان گئے ہیں کہ اشرافیہ اور ادارے ان سے خوف زدہ ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ اگر عمران خان کو جیل سے رہا کر دیا گیا تو بجلی بلوں اور مہنگائی کی ستا ئی ہوئی قوم کا سیلابی ریلہ عمران خان کی قیادت میں ان کو بہا لے جائے گا ۔ عمران نے بھی جیل سے دل لگا لیا ہے جیل میں کھانا وہ اپنی جیب سے کھاتے ہیں وہ دیکھنا چاہتے ہیں ان کے مخالفین کس حد تک گر سکتے ہیں ، ، عمران خان کی آستین کے سانپ بھی بے نقاب ہو گئے ہیں خان جان گئے ہیں کہ کون پاکستان کے ساتھ ہے اور کون امر یکہ کے در کا گدا ہے
آج جس دور میں ہم پاکستانی جی رہے ہیں ، اس میں صرف ازان کی آ واز سے لگتا ہے کہ یہ کوئی اسلامی ملک ہے ورنہ ہر طرف ظلم و جبر کی حکمرانی ہے ، گذشتہ ادوار میں کھبی یزید تھا تو کھبی فرغو ن یا نمرود تھا لیکن آج ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سبھی ایک ساتھ موجود ہیں ۔ پاکستان کے بزرگ جانتے ہیں کہ آج جو سلوک عمران خان کے ساتھ روا رکھا گیا ہے ایسا ہی سلوک ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ بھی رکھا گیا تھا ، بھٹو کے ساتھ بھی کوفی تھے ، لیکن وہ تمام سیاسی موت مر گئے اور بھٹو آج بھی زندہ ہے
اس لئے کہ عزت جب عزتوں کے مالک نے دی ہے تو کسی کم بخت کے برا چاہنے سے کیا فرق پڑتا ہے
عمران فوبیا کے شکار مغربی غلاموں کے درباری افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ عمران کی ڈھیل ہوگئی لیکن وہ نہیں جانتے کہ عمران خان مومن ہے ، وہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح برملا کہہ رہا ہے کہ میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے میں اپنے دیس میں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ رہوں گا میں اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کروں گا۔ شاہی زندگی میں جوان ہونے والے عمران خان نے جیل حکام سے ایسا کوئی شکوہ نہیں کیا کہ اسے کس اذیت میں رکھا گیا اس کے ساتھ کیا ناروا سلوک روا رکھا گیا ہے ، وہ یزید پرستوں سے خیر کی امید کیسے رکھ سکتا ہے وہ آج بھی کہہ رہا ہے کہ جب تک پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آئیگا ، معاشی استحکام نہیں آ سکتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply