محتاط امید۔۔وہاراامباکر

 کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ اپنے کسی کام میں ایسے مشغول ہوئے ہوں کہ دنیا و مافیہا کا ہوش نہ رہا ہو؟ پتا ہی نہ لگا ہو کہ کتنا وقت گزر گیا؟۔ یہ کیفیت flow کی ہے۔  میہائی چکسنٹ میہائی وہ ماہرِ نفسیات تھے جنہوں نے یہ اصطلاح 1975 میں پیش کی اور اس ذہنی کیفیت کا تصور دیا۔  مثبت سائیکولوجی کے شعبے میں ایک بڑا نام ہیں۔ (اس بارے میں ان کا لیکچر آخر میں دیے گئے لنک سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ذیل میں ان سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: ایسا کیا ہے جس پر آپ یقین تو رکھتے ہیں لیکن اسے ثابت نہیں کر سکتے؟
جواب: جب میں نے پہلے یہ سوال پڑھا تو مجھے یقین تھا کہ اس میں کچھ trick ہے۔ آخرکار، جن چیزوں پر میں یقین رکھتا ہوں، ان میں سے تقریباً کسی بھی چیز کو ثابت نہیں کر سکتا۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ زمین گول ہے لیکن ثابت نہیں کر سکتا۔ نہ ہی میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ میرے باغ میں لگے انجیر کے درخت پر بہار میں پتے واپس نکل آئیں گے۔ نہ ہی میں یہ ثابت کر سکتا ہوں کہ کوارک موجود ہیں یا بگ بینگ ہوا تھا۔ یہ سب اور ایسے لاکھوں یقین مجھے اس لئے ہیں کہ میرا نالج community پر faith ہے۔ اور میں ان کے ثبوت ماننے کو تیار ہوں۔ اور مجھے یہ بھی امید ہے کہ اگر میں ہمارے مجموعی علم میں کچھ حصہ ڈال سکا اور اضافہ کر سکا تو وہ میرا نخیف و نزار ثبوت تسلیم کر لیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ اس سوال میں جو پوچھا گیا ہے، وہ کچھ اور ہے۔ “جسے ثابت نہیں کر سکتے” کا مطلب یہ نہیں کہ میں انہیں ذاتی طور پر ثابت نہیں کر سکتا بلکہ نالج کمیونیٹی انہیں ثابت نہیں کر سکتی۔ اس سوال کا جواب دینے والے دوسرے لوگ بھی یہ بات آسانی سے سمجھ گئے تھے اور ایسا ہونا یہ یقینی طور پر ہماری ایک بڑی کامیابی کا ہے۔ ہم سب اب یہ یقین رکھتے ہیں کہ علم کسی فرد کا نہیں بلکہ ہم سب کا اجتماعی ورثہ ہے۔ فرد کا ایک کمیونیٹی میں اس طرح ضم ہو جانا ایسی کامیابی ہے جو تاریخ میں صرف عظیم مذاہب یا گہرے نظریات ہی حاصل کر سکے ہیں۔
علمی برادری اب ایسی ہی عالمی برادری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر اب اس نکتہ نظر کے تحت ایسا کیا ہے جس پر میں یقین تو رکھتا ہوں لیکن جسے ثابت نہیں کیا جا سکتا؟
میں کلچرل ارتقا پر یقین رکھتا ہوں جس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے اچھائی اور برائی، مقدس اور ناپاک، بامعنی اور بے کار۔۔۔  اس تقسیم کے بارے میں مجھے ہمارے قدیم عقائد پر بھروسہ ہے۔  اس لئے نہیں کہ انہیں ثبوت کی کسوٹی پر پرکھا ہے۔ بلکہ اس لئے کہ طویل وقت اور مختلف طرح حالات کی کسوٹی میں ان کا چناوٗ ہوا ہے۔ انہوں نے حالات کا اور ان کی مدد سے ہم نے حالات کا مقابلہ کیا ہے۔ اور اس لئے یہ اس قابل ہیں کہ ان پر یقین رکھا اور راہنمائی حاصل کی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا اچھے مستقبل پر بھی یقین ہے۔ یہ محتاط امید کا ہے۔ کسی موسم کی پیشگوئی کرنے والے کی طرح جو یہ کہے کہ “کل خوبصورت دھوپ نکلے گی، اگر بارش نہ ہو گئی تو”۔
میں آنے والے وقت میں انسانی شعور میں زبردست بہتری ہوتے دیکھتا ہوں۔ میں عالمی یکجہتی کو بڑھتا دیکھتا ہوں۔ علمی اوراخلاقی اقدار میں بہتری ہوتے دیکھتا ہوں۔
لیکن اس بہاوٗ کے الٹ ٹرینڈ بھی ہیں۔ ذوق بگڑ رہے ہیں۔ مشترک اقدار میں کمی آ رہی ہے۔ مخالفین کے درمیان طاقت، زمین اور faith کی بنیاد پر فرق زیادہ ہو رہے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ ہمارے پاس اتنا وقت اور موقع ہو گا کہ ہم سمجھ سکیں کہ کیسے فیصلے کیسے نتائج کی طرف لے جاتے ہیں۔ اور ہم میں وہ جذبہ اور ہمت ہو گی کہ اس سمجھ کی بنیاد پر دانشمندانہ فیصلے لے سکیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ میرے یقین ہیں جن کو میں ثابت نہیں کر سکتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میہائی ہم سے حال میں ہم سے بچھڑ گئے۔ ان کی وفات ستاسی سال کی عمر میں ہوئی۔ نفسیات اور خوشی کے شعبے میں ان کا حصہ یاد رکھا جائے گا۔ مستقبل کے بارے میں ہم امید کرتے ہیں کہ “کل کے خوبصورت دن” کے بارے میں ان کا یقین بے جا نہیں تھا۔

فلو کی کیفیت پر میہائی کا لیکچر
https://youtu.be/TzPky5Xe1-s

Advertisements
julia rana solicitors

سوال کا یہ جواب اس مضمون سے ہے
https://www.edge.org/response-detail/11116

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply