قائد کا مسلمان اور پاکستان کا مسلمان

مجھے آج بھی بانیء پاکستان حضرت قائد اعظم رحمتہ اللہ علیہ کے وہ تاریخی الفاظ یاد ہیں کہ
” مسلمان مصیبت میں کبھی گھبرایا نہیں کرتا”
انکی باتیں درست تھیں، مشرقی پنجاب کے مسلمان ماسٹر تارا سنگھ کے خونی ظلم کے سمندر کو عبور کرکے پاکستان آۓ تھے۔ ایک یقین محکم تھا کہ ہم نے ایک ایسی ریاست کی داغ بیل ڈالی ہے جو آگے چل کر مسلم امہ کی راہنما متصور ہوگی۔ ایک ایسی ریاست جو جبر سے پاک ہوگی، ایک ریاست جہان انصاف کا بول بالا ہوگا۔
قائد کی وفات ہوئی، علاقائی سیاست کے چمچے وزیر ٹھہرے۔ مارشل لاء لگا، ڈیڈی کہنے والے متعارف ہوۓ، مشرقی پاکستان کی اصلاحات کھٹائی میں پڑیں اور بقول وسعت اللہ خان
” دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہواکہ اکثریت اقلیتی آبادی سے تنگ آکر علیحدہ ہونے پر مجبور ہوگئی”۔
جنرل ضیاء کو ایک دم چھلانگ لگوا کر آرمی چیف بنایا گیا۔ بھٹو انجام کوپہنچا، بات گرم اور سرد پانیوں کی ہوئی۔ ہم نے اہل ایمان اور امت ہونے کا ثبوت دیا۔ جھولیاں پھیلا دیں۔ ڈالر سمیٹے۔ قتال کا قتال اور جہاد کا جہاد، دنیا میں ڈالر اور آخرت میں ستر حوریں میسر تھیں۔
سوویت یونین کا سورج بقول اہل ایمان نے غروب کیا۔ دیوبندی مکتبہء فکر کو سرکاری مسلک کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین سے لےکر چپڑاسی تک سب اہل جہاد بھرتی کئے۔ ہر طرف فتووں کی بوچھاڑ ہوگئی۔ مسلکی بت ایک خدا کی شکل اختیار کرگیا۔ ہر بندے کی نظر میں دوسرا کافر ٹھہرا، یعنی کہ ناک کے آگے سب کافر تھے۔
مشرف کی آمریت آئی، نائن الیون ہوا، دنیا یکسر بدل گئی۔ دنیا کی سوچ میں داڑھی کا مطلب دہشتگرد ٹھہرا، گھٹنوں سے اوپر شلوار کا مطلب پکا دہشت گرد ہونا۔ افغانستان میں ایک بار پھر طالبانی اہل ایمان سیسه پلائی بنے لیکن اس دفعہ ان کا دشمن بذات خود ڈالر والی سرکار تھی۔
ہم نے احتراماً اس جنگ کو اپنا معیار بنالیا۔ آمریت کو دوام حاصل ہوا۔ لال مسجد آپریشن ہوا، اسلحے کا ڈھیر برآمد ہوا۔ ریاست کی رٹ چیلنج ہوئی۔ جامعہ حفصہ مسمار ہوا۔ تحریک طالبان پاکستان کی بنیاد رکھی گئی اور پھر الٹی گنتی ایسی شروع ہوئی کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ فتوی سازی کی بند فیکٹریوں کو اسپانسر کرکے میدان میں لایا گیا۔ اور پھر تو بھی کافر میں بھی کافر کا میدان سج گیا۔
جو درگاہ پر جاۓ وہ بھی مشرک ہے۔
جو بریلوی مسجد میں نماز پزھے وہ بھی مشرک ہے۔
جو شیعوں کے ساتھ یکجہتی کرے وہ بھی مشرک ہے۔
یعنی پوری ریاست پاکستان کافر عوام کی ماں ہے۔ یہاں بندے کی نظر میں دوسرا کافر ہے۔
ریاستوں کی بنیادیں مکالمہ پر ہوتیں ہیں۔ لیکن اس جہالت زده معاشرے نے مناظرے کو فروغ دیا ایک ایسا جنگی مناظرہ جس میں گولیوں کی تڑ تڑاہٹ ، بارود کا ڈھیر اور انسانوں کی کثیر موت ہی اسکی جیت ہے۔ جو اعتراض کرے وہ مشرک ٹھہرا، جو سوال اٹھاۓ وہ کافر ٹھہرا، ان کا ایک ہی حل آئیے ایک جیکٹ پہنیے اور اپنی خوشی میں مصروف افراد کو اڑا دیں۔ اڑنے والے سید ھے جہنم میں جائیں گے اور اڑانے والا سیدها جنت میں ستر حوروں کے درمیان بیٹھا مشروب پی رہا ہو گا۔ نہ کوئی حساب نہ کتاب، نہ قیامت کا انتظار، نہ میزان میں نیکی اور بدی کا وزن۔ صرف شارٹ کٹ کا انتظار۔ اللہ اکبر
آج پاکستان کا مسلمان گھبرا رہا ہے۔ مسجد جاتا تو ڈرتے ڈرتے، میلے میں جاۓ تو ڈرتے۔ کیوں کہ ہم سب لوگ کافر ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو مشرک کہتے ہیں اللہ کافروں کے دلوں میں اپنا رعب ڈال دیتا ہے۔
آج قائد کے مسلمان اور پاکستان کے مسلمان میں بہت فرق ہے۔ قائد کا مسلمان اپنوں کو مروا کر،سب کچھ لٹا کر خوش تھا۔ آجکا مسلمان سب کو مار کر، اپنوں کو لوٹ کر پھر بھی خوش نہیں ہے۔
ہمارا ایمان ڈانواں ڈول ہے۔ ہماری عبادتیں دکھاوے کی ہیں۔ شریعت پرپابندی صرف دوسرے کو ٹھوکنے کی حدتک ہے۔ اس لئے ہمیں گھبرانا بھی چاہیے ،ہمیں ڈرنا بھی چاہیے کیونکہ ہم قائد والے مسلمان ہی نہیں.

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply