• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عوام میں تبدیلی سے حکمرانوں میں تبدیلی۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

عوام میں تبدیلی سے حکمرانوں میں تبدیلی۔۔ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

کیا عوام بدل گئے ہیں ،جو اچھے حکمرانوں کی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔کسی بھی ریاست کے اندر حکمران اسی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کی تربیت بھی اسی معاشرے نے کی ہوتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان سیاسی قائدین کا جو کسی جمہوری ریاست کے اندر حکومت کے عہدے پر براجماں ہوتے ہیں، ان کے کردار کے تعین میں بھی عوام کا بہت بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی اقتصادی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے، حکومت کی کوئی واضح اقتصادی پالیسی نہیں جس سے بہتری کی امید وابسطہ کی جاسکتی ہو۔

مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، بدعنوانی انکوائریوں کے پیچھے چھپی ہوئی ہے اور حکمران اپنی شفافیت کے طبلے بجا رہے ہیں، وعدے وعید اور حقوق کی پاسداری کا تصور مذاق بن کر رہ گیا ہے، ظلم کی چکی میں پستی عوام “ہائے” کرتے ہوئی بھی ارد گرد دیکھتی ہے کہ کہیں “ہائے” کہنے کے جرم کی پاداش میں بے رحم قانون کے شکنجے میں نہ آ جائیں۔عدالتوں کے بارے میں تاثرات یہ ہیں گویا غیب کی آواز پہ کان دھرے بیٹھی ہیں کہ فیصلے کس کے حق میں کریں، کس کو مجرم ٹھہرائیں اور کس کو صادق اور امین۔

احتساب کا عمل چیخ چیخ کر اپنے سفید جھوٹوں کو حکمرانوں کی شفافیت کی نظر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دعوے، الزامات اور عدل سب بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔اور ہم اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ یہ سب کب ٹھیک ہو گا۔اُمیدیں اپنی جگہ مگر حقائق کو تو سمجھنا ہو گا۔کہ ایسا کیوں ہے، کیوں حالات بہتری کی بجائے مزید خرابی کی طرف جا رہے ہیں۔بہت ہی سادہ سی بات ہے کہ جیسی عوام ویسے حکمران،ارشاد باری تعالیٰ ہے: “ظھر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون”۔ (الروم:41)

ترجمہ: “خشکی اور تری میں لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی (اعمال) کے سبب خرابی پھیل رہی ہے ؛ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزہ انہیں چکھا دے ،تاکہ وہ باز آ جائیں “۔ایک اور جگہ ارشاد ہے: “ومآ اصابکم من مصیبةٍ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیرٍ”۔ (الشوریٰ:30)ترجمہ: “اور تم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کیے کاموں سے (پہنچتی ہے) اور بہت سارے (گناہوں) سے تو وہ (اللہ تعالیٰ) درگزر کر دیتا ہے”۔ان دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ مصیبت اور فساد کا سبب خود انسان کے اپنے کیے ہوئے برے اعمال ہیں۔

اور یہ بھی بہ وضاحت سمجھ میں آ رہا ہے کہ اگر برے اعمال نہ ہوں تو یہ مصائب، آفات اور فسادات وغیرہ بھی نہ ہوں گے۔ نتیجہ یہی نکلا کہ “نافرمانی سبب پریشانی اور فرماں برداری سبب سکون ہے”۔حضرت حسن بصری رح سے منقول ہے: “اعمالکم عمالکم، وکما تکونوا یولى علیکم”۔ یعنی تمہارے حکمران تمہارے اعمال کا عکس ہیں۔ اگر تمہارے اعمال درست ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی درست ہوں گے، اگر تمہارے اعمال خراب ہوں گے تو تمہارے حکمران بھی خراب ہوں گے۔

منصور ابن الاسود رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام اعمش رحمہ سے اس آیت ﴿وکذلک نولی بعض الظٰلمین بعضاً﴾کے بارے میں کیا سنا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے اس بارے میں سنا کہ: جب لوگ خراب ہوجائیں گے تو ان پر بدترین حکم ران مسلط ہوجائیں گے “۔امام بیہقی نے حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ سے ایک روایت نقل کی ہے کہ: اللہ تعالیٰ ہر زمانہ کا بادشاہ اس زمانہ والوں کے دلوں کے حالات کے مطابق بھیجتے ہیں۔

اب اگر ہم اوپر دیے گئے ارشادات تشریحات اور اقوال سے مستفید ہوتے ہوئے اپنا محاسبہ کریں ،تو ایک بات تو عیاں ہے کہ اس سب کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں۔تو اگر ہم اس بات کو سمجھیں تو ہمیں سب سے پہلے یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ ہم خود ہی اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں اور پھر توبہ کرنی ہوگی، اچھے برے میں تمیز کرنی ہوگی اور پھر برے اعمال سے بچنے کا وعدہ کرنا ہو گا، تب ہم اُمید کا حق رکھتے ہیں کہ ہمارے حالات بدل جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محض ڈھنڈوروں سے کچھ ہونے والا نہیں۔ جب ہم مفروضوں کی بنیاد پر اچھی بھلی ترقی کرتے ہوئے ملک کے خیر خواہوں اور محسنوں کو چور چور کہہ کر اُتار دیں اور اس کے بعد کی صورتحال تو سب کے سامنے ہی ہے کہ اب صادق اور امین کیا گل کھلا رہے ہیں۔بہرحال حالات بدلنے کی کوئی امید نہیں کیونکہ پھر میں وہی کہوں گا کہ جیسی عوام ویسے حکمران کیا عوام بدل گئے ہے، جو اچھے حکمرانوں کی اُمیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply