معذور افراد وقت سے پہلے کیوں مر جاتے ہیں؟/ثاقب لقمان قریشی

میری زیادہ تر تحاریر خصوصی افراد، خواجہ سراء کمیونٹی، خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پر مبنی ہوتی ہیں۔ معذور افراد اور خواجہ سراؤں کے حقوق پر ذیادہ لکھنے کی وجہ یہ ہے کہ انکے ساتھ ناانصافیاں دوسری کمیونیٹیز سے کہیں ذیادہ ہیں۔ پڑھنے والوں سے میری گزارش ہے کہ انسان یا انسانیت سے جڑے کسی مسئلے کے ساتھ اپنے آپ کو جوڑنے کی کوشش کریں۔ دن کا کچھ حصہ کسی ایسے مقصد کیلئے رکھ دیں جس کا فائدہ صرف ضرورت مندوں، ہمارے ملک یا ماحول کو ہو۔ بے لوث ہو کر اپنا کام کرتے جائیں۔ نام، شہرت اور ایوارڈ کے چکر میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔ خدا نے چاہا تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آپ تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور دنیا کیلئے عظیم مثال کے طور پر جانے جائیں گے۔
گزشتہ کئی سالوں سے میں سوچ رہا ہوں کہ معذور افراد وقت سے پہلے کیوں مر جاتے ہیں۔ ہر چند روز بعد جوان خصوصی لڑکے یا لڑکی کی وفات کی خبر سننے کو ملتی ہے۔ مجھے خصوصی افراد میں کم ہی لوگ چالیس سے اوپر جاتے نظر آتے ہیں۔
وفات پانے والے جوان بچوں کی تصاویر جب بھی پوسٹ ہوتی ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ خصوصی افراد جوانی میں کیوں انتقال کر جاتے ہیں؟ خصوصی افراد کو بڑھاپا دیکھنا کیوں نصیب نہیں ہوتا؟ کیا خصوصی افراد کو جینے کا حق حاصل نہیں؟ ایک مخصوص طبقہ جوانی میں دنیا سے چلا جاتا ہے معاشرہ کیوں نہیں سوچتا؟ اکثر اسی قسم کے سوالات میرے ذہن میں گردش کرتے رہتے ہیں؟
ہمارے معاشرے میں آج بھی معذور بچے کی پیدائش کو والدین کے گناہوں کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ جس گھر میں معذور بچہ پیدا ہو جائے وہاں ماتم کا سماں بن جاتا ہے۔ لوگ آتے ہیں بچے کو دیکھ کر توبہ توبہ کرتے ہیں۔ والدین کو صبر کی تلقین کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ والدین سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں انھوں نے ایسا کیا کیا ہے جسکی سزا اتنی سخت ملی ہے۔
کچھ والدین بچے کو خدا کی رضا سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ جبکہ بیشتر ایسے بچوں کو ناکارہ سمجھ کر اپنی ساری توجہ اور توانائی دوسرے بچوں پر صرف کر دیتے ہیں۔ جسمانی معذوری کی مختلف اقسام ہیں۔ ہر قسم کے معذور بچے کی نگہداشت اور ضروریات دوسرے سے مختلف ہیں۔ اگر بچے کو ضرورت کے مطابق خوراک اور علاج معالجے کی سہولیات نہیں ملیں گی تو مرض وقت سے پہلے ہی جسم کے دوسرے حصوں کو متاثر کرنا شروع کر دے گا۔ یہاں بھی دو طرح کے والدین دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بیشتر والدین وسائل کی کمی کی وجہ سے خصوصی بچے کا علاج نہیں کروا پاتے ہیں۔ لیکن میری نظر سے ایسے والدین بھی گزرے ہیں جو ایسے بچوں کے علاج کو پیسے کا ضیاع سمجھتے ہیں اور جانتے بوجھتے ہوئے اچھا علاج نہیں کرواتے۔
بچہ سکول کی عمر کو پہنچتا ہے۔ گھر کے نزدیک ترین سکول معذور بچوں کو داخلہ دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔ خصوصی تعلیمی ادارے دور ہونے کی وجہ سے بیشتر بچے تعلیم سے محورم رہ جاتے ہیں۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ امیر لوگ ہی اپنے معذور بچوں کو اعلٰی تعلیم دلواتے ہیں۔ میرا تجزیہ لوگوں کی باتوں سے مختلف ہے۔ میں غریب اور مڈل کلاس گھرانوں کے خصوصی افراد کے انٹرویوز کر چکا ہوں جنھوں نے اعلٰی تعلیم حاصل کی ہے۔ بات آگہی کی ہے۔ میں ایسے خاندانوں کو بھی جانتا ہوں جن کے پاس پیسہ تھا لیکن انھوں نے معذور بچوں کو تعلیم حاصل نہیں کرنے دی۔ ایسے گھرانے یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ اس نے پڑھ کر کیا کرنا ہے۔
معذور بچوں کے والدین میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو ایسے بچوں کو سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ لیکن مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے علاج اور معالجے کی بہتر سہولیات دینے سے قاصر رہتے ہیں۔
جسمانی معذور افراد روز مرہ کے بہت سے امور خود سے سر انجام نہیں دے سکتے۔ ان کے کمزور جسموں کو عام لوگوں سے ذیادہ صفائی ستھرائی کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ یہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ غور کریں تو ہمیں اپنے اردگرد ذیادہ تر گندے کپڑوں اور خستہ حالت میں خصوصی افراد ہی ملیں گے۔
مختلف امراض میں مبتلا خصوصی افراد کو مختلف طرح کی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ معیاری اور صحت مند خوراک انکی زندگی کے سائیکل کو بڑھانے کا سبب بن سکتی ہے۔ جو کہ نہیں ملتی۔
ورزش اور متوازن غذا کی مکمل آگہی نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر جمسانی معذور افراد کا وزن بڑھ جاتا ہے۔ وزن بڑھنے سے معمولات زندگی میں مزید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وزن معذور افراد کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ ذیادہ وزن معذور افراد کی دیکھ بھال کرنے والوں کے لیئے مسائل کا سبب بنتا ہے۔
ہمارے ملک میں رسائی کی نامناسب سہولیات کی وجہ سے معذور افراد گھروں سے باہر نہیں نکل پاتے۔ انھیں سکول، کالج، دفاتر، شاپنگ سینٹرز، سیر و تفریح سے لے کر ہسپتالوں تک رسائی میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
معذور افراد کے حقوق کو انسانی حقوق نہیں سمجھا جاتا اسلیئے ڈاکٹر بھی معذور افراد کو خواجہ سراؤں کی طرح اس توجہ سے نہیں دیکھتے جس طرح عام لوگوں کو دیکھتے ہیں۔
سرکاری ہسپتال بڑے اور جدید مشینوں سے آراستہ ہوتے ہیں۔ علاج کی بہتر سہولیات کیلئے لوگ معذور افراد کو سرکاری ہسپتالوں میں جاتے ہیں۔ لیکن یہاں نہ تو مریض کو سہی طرح دیکھا جاتا ہے نہ مرض کے متعلق بتایا جاتا ہے اور نہ ہی مرض کے ساتھ جینے کا طریقہ سمجھایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے بیشتر لوگوں کو یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ انھیں کون سا مرض لاحق ہے۔
ویل چیئرز اور مدد گار آلات کی مدد سے معذور افراد کی زندگی کو آسان بنایا جاسکتا ہے۔ غربت کی وجہ سے ذیادہ تر لوگ مدد گار آلات خرید نہیں پاتے اور مشکل زندگی گزارتے ہیں۔
جن والدین نے ہماری بیان کی گئیں مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے معذور بچے کو پڑھا بھی لیا۔ تو وہ ساری زندگی ڈگری ہاتھ میں اٹھائے گھومتا رہتا ہے۔ کیونکہ معذور افراد کو نوکری دینے کا رواج انڈسٹری میں نہیں ہے۔ میں نے ملک کے مختلف علاقوں سے تقریبا” ڈیڑھ سو افراد کے انٹرویوز کیئے تو پتہ چلا کہ ذیادہ تر لوگ معذور افراد کے کوٹہ پر نوکری کر رہے ہیں یا پھر سفارش پر بھرتی ہوئے ہیں۔
معذور افراد کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں عام رائے یہ پائی جاتی ہے کہ یہ بھیک مانگنے کے سواء اور کچھ نہیں کرسکتے۔ لوگ بھی انھیں دس بیس روپے پکٹرا کر جنت کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلیئے غریب والدین ایسے بچوں کو سڑکوں پر لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ انکے متاثرہ حصے سردی گرمی کھلے رہتے ہیں اور بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
معذور افراد کے پاس نہ تعلیم ہے نہ ہنر، نہ گھر میں عزت اور نہ معاشرے میں کوئی مقام ہے۔ ہمارا معاشرہ معذور افراد کو بوجھ سمجھتا ہے اور معذور افراد بھی خود کو معاشرے پر بوجھ سمجھتے ہیں۔اس لیئے اس کمیونٹی میں مایوسی اور نفسیاتی مسائل عروج پر ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑی افسوس ناک بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک ایسا طبقہ بھی رہتا ہے۔ جو چالیس سال کی عمر تک نہیں پہنچ پاتا اور سسکتا سسکتا دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کو تاریخ میں بدترین الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply