شہرِ کراچی اور پیپلز پارٹی کا گھناؤنا کردار۔۔عارف خٹک

شہر کراچی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ عروس البلاد ہے۔ روشنیوں کا شہر ہے۔ مگر 2019ء میں کراچی سے بد صورت ترین اور آلودہ شہر شاید ہی دُنیا میں کوئی اور ہو۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر گلی محلوں سے نکل کر مرکزی شاہراہوں پر ٹریفک جام کا باعث بن رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

سڑکوں کا کہیں وجُود ہی نہیں ہے۔ خاص کر وہ علاقے جو شہر کے مضافات میں ہیں۔ جیسے منگھوپیر، نیو کراچی، بنارس، اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، لانڈھی، کورنگی جہاں سڑکیں خراب ہیں۔بلکہ بلکہ ان میں بنے گہرے گڑھے جہاں اربوں روپوں کی گاڑیاں تباہ و برباد کردیتی ہیں۔وہاں بیرون شہر سے آنے والے مسافروں کے ذہنوں میں کراچی کا ایسا خراب امیج چھوڑ جاتی ہیں۔ کہ وہ سالوں کراچی کی بدصورتی کی مثال دیتے رہتے ہیں۔
پُورے کراچی میں صرف شاہراہِ فیصل وہ مرکزی سڑک ہے۔ جس کو ایئرپورٹ سے لے کر میٹروپول یا پنج ستارہ ہوٹلوں تک صحیح حالت میں اس لئے رکھا جاتا ہے۔تاکہ بیرون ممالک سے آئے وفود پیپلز پارٹی سے یہ نہ پوچھ سکیں۔ کہ حکومت اس کو کہا جاتا ہے؟
پچھلی دس سالہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو بلاشُبہ سندھ کی تاریخ کا تاریک ترین دور بھی کہا جاتا ہے۔ کرپشن، اقربا پروری، زمینوں پر قبضے، کراچی کے حالات کی خرابی کی ذمہ داری پاکستان پیپلز پارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم جیسا دہشت گرد لسانی گروہ جو پچھلے اَٹھارہ سال سے ہر حکومت کا حلیف رہا ہے۔ اُنھوں نے بھی کراچی کو لسانی بُنیادوں پر تقسیم در تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھ چھوڑی۔ مگر دہشت گردی کے خلاف ملنے والی عالمی فنڈ کو کراچی میں جس بیدردی سے استعمال کیا گیا۔ وہ بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
نون لیگ کے دورِ حکومت میں جہاں کافی غلطیاں ہوئیں، وہاں شہباز شریف نے جس طرح سے لاہور کو ایک ماڈل شہر بنایا،وہ اپنی مثال آپ ہے۔اس کے باوجود اہلِ لاہور کی سیاسی بصیرت کا یہ عالم ہے ۔کہ ان سب رفاعی کاموں کے باوجود لاہور نے شہباز شریف کو مسترد کردیا۔ مگر کراچی کی” اُردو بولنوالی”بڑی آبادی جن کو تین عشروں سے ڈرا دھمکا کر خول میں بند کردیا گیا۔اب وہ اس قابل نہیں کہ کراچی میں کوئی نیا سیاسی سیٹ اپ بنا سکے۔حالانکہ کراچی حیدرآباد کیلئے اُردو بولنے والوں کی سیاسی طاقت اب ناگزیر ہوچکی ہے۔ کیونکہ پیپلز پارٹی شہری سیاست میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کا ووٹر 90 فی صد اندرون سندھ شہروں، دیہاتوں اور شہر کراچی کے مضافاتی سندھی آبادی پر مشتمل ہے۔ اور ان کے نمائندے جو تعلیم سے بہرہ مند نہیں ہیں،کروڑوں روپے خرچ کرکے فقط پیسہ بنانے شہرِ کراچی آجاتے ہیں۔ جن کو یہ تک نہیں معلوم کہ شہری قوانین کس بلا کا نام ہے۔ ان کو کراچی کی کچی آبادیوں، مرکزی شاہراہوں اور پانی کی قلت سے کیا سروکار ہے۔ لہٰذا اس وقت کراچی یا بڑے صوبوں کیلئے سب سے بہترین حل یہی ہے،کہ پاکستان میں مزید چھوٹے چھوٹے صوبے بنائے جائیں۔ تاکہ انتظامی مسائل کیلئے ایک مقابلے کی فضاء بنائی جاسکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور دوسرے سیاسی جماعتوں کی حالیہ انتخابات میں بدترین شکست کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔کہ موجودہ سیاسی سیٹ اپ اور روایتی ایجنڈوں سے عوام متنّفر ہوچکی ہے۔ اور عمران خان نے نئی نسل کو اپنا اسیر بنا ڈالا۔ یہ الگ بات کہ پاکستان تحریک انصاف کے پاس پُرکشش نعرے تو تھے ۔مگر منصوبہ بندیاں نہ ہونے کی وجہ سے عوام اب تحریک انصاف سے بھی مایوس ہوچُکی ہے۔کراچی کی تباہی دراصل پاکستان کی تباہی کی طرف پہلا قدم ہے۔ لہٰذا کراچی جو پاکستان کا شہہ رگ سمجھا جاتا ہےاس کو ہنگامی بنیادوں پر بچانا اب ضروری ہوگیا ہے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply