کامریڈ حسن ناصر:دوران حراست شہید ہونیوالے کمیونسٹ/قسط2

روسی سفیر سے ملاقات
نومولود کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے بانی رہنما سجاد ظہیر راولپنڈی سازش کیس میں رہائی کے بعد انڈیا واپس چلے گئے اور پھر نہیں لوٹے اور حسن ناصر ایک متحرک رہنما کے طور پر سامنے آئے۔
حمزہ ورک ماہنامہ ’عوامی جمہوریت‘ میں لکھتے ہیں کہ ایوب خان حکومت کی جانب سے پاکستان میں بائیں بازو کی سیاست پر سخت گیری جاری تھی تاکہ سیٹو اور سینٹو جیسے امریکہ سرپرستی میں کیے گئے دفاعی معاہدوں میں شامل ہو سکے۔ حسن ناصر اور بائیں بازو کی قیادت کو ڈر تھا کہ تھا کہ ایوب خان پاکستان کو مکمل امریکی اڈے میں تبدیل کر رہے ہیں۔
حسن نے پاکستان کے خلاف سازش کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان میں روسی سفیر سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ وہ پاکستان کی معاشی مدد کریں تاکہ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔
ان کے مطابق اسی ملاقات کے نتیجے میں ایوب خان کے وزیر معدنیات ذوالفقار علی بھٹو 1960 میں جب سوویت یونین کے دورے پر گئے تو روس اور پاکستان کے مابین پاکستان میں تیل تلاش کرنے کا معاہدہ طے پایا۔
آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ حسن ناصر نے کس طرح روس کے سفیر سے ملاقات کی اور ان کو پاکستان کی امداد پر راضی کیا؟ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے بھی اس بات کی کھوج لگانے کی کوشش کی۔
فیض احمد فیض کا اضطراب
’حسن ناصر کی شہادت‘ میں میجر اسحاق محمد 19 نومبر 1960 کی دوپہر کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس روز وہ فیض احمد فیض کے کمرے میں داخل ہوئے تو انھیں غمگین اور اداس پایا اور کہا کے چائے پینے چلتے ہیں۔ وہ قریب کے ایک ریستوران چلے گئے۔
فیض نے دہشت زدہ انداز میں پوچھا، ’تمیں معلوم ہے کہ قلعے میں ہمارا کون آدمی بند ہے؟
’حسن ناصر، میں نے کہا۔ فیض نے جواب دیا، ہاں اور مزید کہا کہ پچھلے مہینے میں وہاں بند تھا تو مجھے شک تھا کہ وہ وہاں ہے یا ہو کر گیا ہے۔ میں نے ایک سی آئی ڈی والے سے پوچھا تھا تو اس نے انکار کیا تھا، کہتا تھا کہ وہ کراچی سے متعلق ہے۔ ایک صاحب نے البتہ کچھ دن ہوئے مجھے بتایا کہ وہ قلعے میں نظر بند ہے اور اس پر تشدد ہو رہا ہے۔‘
مصنف لکھتے ہیں کہ فیض احمد فیض نے انھیں بتایا کہ حمید اختر (کمیونسٹ نظریے کے حامی صحافی) نے بتایا ہے کہ ان کے محلے کی ایک عورت کا خاوند قلعے میں بند ہے۔ حمید اختر کی انٹیلی جنس کے سید اعجاز شاہ کو سفارش کرنے پر اس عورت کو اپنے خاوند تک کھانا لے جانے کی اجازت ملی ہوئی ہے۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ قلعے میں ایک سیاسی قیدی پر تشدد ہو رہا ہے اور اس کی کرب ناک دہاڑوں سے قلعے کے دوسرے باسی سہم کر رہ گئے ہیں۔ عورت نے بتایا کہ اس کے بعد تین دن تک قلعے بند رکھا گیا اور وہ خاوند سے نہیں سکی۔
بعد میں فیض احمد فیض نے میجر اسحاق کی کتاب کے سرورق پر لکھا تھا کہ ’دو تین برس گذر گئے۔ ایوب خان کی فوجی حکومت کو قائم ہوئے وہ لوگ پھر جیلوں میں بھر دیئے گئے۔ اس دفعہ لاہور قلعے کی وحشت ناک زندانوں کا منھ دیکھا۔ چار پانچ مہینے بعد رہائی ہوئی۔ انھیں رہا ہوئے تھوڑے دن گزرے تھے کہ ایک شام مال روڈ پر انھیں لاہور قلعے کا ایک وارڈر ملا جس نے بتایا کہ قلعے میں ہمارے ساتھ کا کوئی نیا قیدی آیا تھا جو دو دن پہلے فوت ہو گیا۔ اسی شام یا اگلے دن اسحاق سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے طے کیا کہ ہو نہ ہو، یہ قیدی ضرور حسن ناصر ہوگا۔‘
پاکستان میں حسن ناصر کے رشتے داروں کی تلاش
میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ انھیں حسن ناصر کے کسی قریبی رشتہ دار کی تلاش تھی کیونکہ قلعے میں نظر بند ہونے والوں سے صرف ان کے رشتہ دار ہی مل سکتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا کوئی رشتہ دار ملاقات کرنے آئے تو ممکن ہے ظلم کے لئے اٹھتے ہوئے ہاتھ رک جائیں گے۔
کراچی میں ان کے ایک ساتھی عطا نے بتایا کہ وہ حسن کے ایک ماموں کو جانتے ہیں جو کہ ڈاکٹر ہیں۔ اگلی رات گئے عطا کا فون آیا کہ اس نے ڈاکٹر کو پریشان پایا۔ ماموں نے عطا کو خفیہ پولیس کا آدمی سمجھا ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور کہنے لگے کہ دل کا مریض ہوں آپ کے حسب منشا میرا اجازت نامہ تو آپ کو مل گیا ہوگا۔ عطا نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔
’عطا نے میرا پیغام پہنچایا تو وہ افسردہ ہوگئے اور سسکی لے کر کہنے لگے اب کچھ نہیں ہوسکتا اور اٹھ کر چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ان کی بیگم دیوانہ وار وارد ہوئیں اور چیخ چیخ کر عطا کو گھر سے نکال دیا۔‘
شاہی قلعہ جیل حکام کی لاعلمی
میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ 21 نومبر کو انھوں نے میاں محمود علی قصوری سے رابطہ کیا جنھیں شہری حقوق سے متعلق مقدمے لڑنے میں مہارت تھی۔ اس کے علاوہ وہ، قصوری اور حسن ناصر تینوں نیشنل عوامی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔
قصوری نے سارا قصہ سننے کے بعد عدالت کی طرف بھگانے کے بجائے ان سے رجوع کیا جن کی تحویل میں حسن ناصر تھے۔
انھوں نے سپرنٹنڈنٹ پولیس شہزادہ حبیب احمد کو ٹیلی فون کیا جنھوں نے قصوری کو بتایا کہ چونکہ حسن ناصر کا تعلق کراچی سے ہے اس لیے ان کے پاس حسن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔
بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت 1988 میں شاہی قلعے کا عقوبت خانہ مکمل طور پر بند کر دیا گیا تھا۔
1960 کی دہائی کی صورتحال کا حوالہ دیتے ہوئے میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ ’لاہور کے شاہی قلعہ کے بندیخانے کا سرکاری درجہ ایک چھوٹی جیل یا سب جیل کا ہے جو ڈپٹی انسپیکٹر جنرل سی آئی ڈی کی نگرانی میں ہے۔ ہاتھی دروازے سے قلعے میں داخل ہوکر سڑک پر چڑھتے جائیں اور دیوان عام کے سامنے میدان کی سطح پر پہنچتے ہی دائیں گھومیں تو سامنے بندیخانے کا پھاٹک ہے۔
پھاٹک کے اندر ساتھ ہی بائیں جانب کوٹھڑیوں کی قطار ہے۔ یہ قید خانہ دراصل سی آئی ڈی کا تفتیشی مرکز ہے۔ ایک وقت میں یہاں بیس کے قریب قیدی رکھے جاتے ہیں جن کو پوچھ گچھ کے بعد عام جیل میں بھیج دیا جاتا۔ مجھے دو دفعہ قلعے لے جایا گیا تھا۔‘
حسن ناصر کی خودکشی؟
میجر اسحاق لکھتے ہیں کہ انھوں نے محمود علی قصوری کو ہائی کورٹ میں حبس بےجا کی درخواست داخل کرنے کا کہا چنانچہ اسی وقت درخواست ٹائپ کروا کر ہائی کورٹ میں دائر کر دی گئی اور قصوری اس کو دستی چیف جسٹس ایم آر کیانی مرحوم کے پاس لے گئے۔
اس درخواست میں تحویل کو غیر قانونی قرار دینے کے ساتھ یہ بیان کیا گیا تھا کہ گذشتہ دو دنوں سے لاہور اور کراچی میں ایک افواہ گشت کر رہی ہے کہ ناصر کو قتل کر دیا گیا ہے یا وہ مر گیا ہے یا ایسی حالت میں ہے کہ اس کی زندگی کو خطرہ ہے۔
چیف جسٹس ایم آر کیانی نے اسی دن احکام جاری کیے کہ نظر بند کو فوری عدالت کے سامنے پیش کیا جائے اور عدالت ہی کا ایک ذمہ دار افسر اس حکم کو سول سیکریٹریٹ لیکر جائے۔ میجر اسحاق ہائی کورٹ کے ایک سپرنٹینڈنٹ کو لیکر سول سیکریٹریٹ پہنچے اور وہاں امور داخلہ کے ڈپٹی سیکریٹری کے پاس بھیج دیا گیا۔ انھیں یہ پیغام دیا گیا۔
’ڈپٹی سیکریٹری اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے گئے اور واپس آ کر ہائی کورٹ کے حکم کا دو سطر کا جواب لکھ دیا کہ سی آئی ڈی نے اطلاع دی ہے کہ حسن ناصر کو کراچی میں 16 اگست کو تحفظِ پاکستان قانون کے تحت ایک سال کے لیے نظر بند کر دیا گیا تھا اور اطلاع کے مطابق 13 نومبر کو اس نے خودکشی کر لی ہے۔‘
’یہ سنتے ہی میں بھڑک اٹھا اور کڑک کر کہا کہ یہ بکواس ہے، انھوں نے پہلے پھانسی دی اور اب نام بدنام کر رہے ہیں۔‘
وکیلوں نے کان پکڑ لیے
میجر اسحاق بتاتے ہیں کہ وہ واپس ہائی کورٹ پہنچے اور قصوری کو آگاہ کیا۔ مقدمہ دوبارہ چیف جسٹس کے پاس آیا اور انہوں نے ایک دوسرے جج شبیر احمد کے حوالے کر دیا۔ انھوں نے حکم دیا کیا کہ چونکہ قصوری بحث کرنا چاہتے ہیں، اگر میجسٹریٹ کی رپورٹ ہے تو عدالت میں پیش کی جائے اور اگر مکمل نہیں ہے تو اس میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔
قصوری صاحب واضح کرچکے تھے کہ وہ ہائی کورٹ میں مقدمے کی پیروی کرسکیں گے مگر ذیلی عدالت میں نہیں جائیں گے تاہم انھوں نے کسی دوسرے وکیل کی فیس دینے کی پیشکش کی۔ ’ہم سب نے مل کر بڑا زور مارا کہ کوئی تجربہ کار وکیل مل جائے لیکن جس سے بھی بات کی جاتی اس نے کانوں کو ہاتھ لگائے اور زبان دانتوں تلے دبائی، اس طرح اپنی معذوری کا اظہار کیا جس کے بعد (قصوری) نے ذاتی طور پر مقدمے کی پیروی کی۔‘
میخ میں آزار بند ڈال کر خودکشی؟
سی آئی ڈی پولیس کی جانب سے عدالت میں تحریری حلف نامے جمع کرائے گئے۔ چشم دید گواہ 50 سالہ بکھا خاکروب کو بتایا گیا جس نے بیان کیا کہ صبح آٹھ بجے میں نے اس کے کمرے کی صفائی کی تو اس وقت متوفی پلنگ پر بیٹھا اخبار پڑہ رہا تھا۔ ان کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی اور نہ کبھی ہوئی تھی۔
’اس کے بعد گیارہ بجے کے بعد فنائل ڈالنے گیا تو طفیل سپاہی نے دروازہ کھولا۔ میں اندر گیا تو دیکھا متوفی دیوار سے لٹکا ہوا تھا۔ میں نے شور مچایا تو لائنز افسر اور دیگر آدمی آگئے۔‘
اے ایس آئی شبیر حسین خان نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ ان کو بکھا خاکروب نے اطلاع دی کہ حسن ناصر اپنی کوٹھڑی میں پھندے سے لٹک رہا ہے۔ ’میں فورا اس کوٹھڑی کی طرف لپکا اور اس کو لوہے کی ایک میخ کے ساتھ اپنے آزار بند کے ذریعے لٹکتے دیکھا۔
اے ایس آئی نے حلف نامے میں بتایا کہ ’میں نے اس کو میخ سے نیچے اتارا اور اس کو سانس دلانے کی کوشش کی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ اس کے بعد میں بھاگا بھاگا صوبائی مسلح پولیس ریزرو کی ڈسپینسری میں پہنچا تاکہ طبی امداد حاصل کرسکوں لیکن وہاں کوئی مناسب آدمی نہ ملا کیونکہ اتوار کی چٹھی تھی۔ تب میں نے ڈی آئی جی پولیس کو گھر ٹیلی فون کر کے آگاہ کیا۔‘
میجر اسحاق دو مرتبہ خود بھی شاہی قلعے میں قید رہ چکے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ انھیں معلوم تھا کہ قلعے کی کوٹھڑیوں میں دیواروں میں میخیں نہیں ہوتیں کیونکہ انھیں کئی دفعہ اپنے کپڑے لٹکانے میں دقت پیش آئی تھی لیکن وہاں کے منتظمین نے یہ کہہ کر معذرت کردی تھی کہ دیواروں میں میخیں ٹھوکنا سختی سے منع ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply