ہورہے گا کچھ نا کچھ/پروفیسر رفعت مظہر

اتحادی حکومت 16 ماہ کی مقررہ مدت پوری کرکے گھر جا چکی، نئی مردم شماری کے نوٹیفیکیشن کے بعد کچھ پتہ نہیں کہ عام انتخابات کب ہوں گے۔ اتحادی حکومت کی کوششوں سے آئی ایم ایف کا قرض تو منظور ہوگیا اور فی الحال ملک ڈیفالٹ سے بھی بچ گیا لیکن آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے پیشِ نظر مہنگائی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ ڈیزل، پٹرول اور گیس کی قیمتیں عام آدمی کی قوتِ خرید سے باہر۔

 

 

 

بجلی کے بِل اپنی اُن انتہاؤں پر جن کی ادائیگی عام آدمی تو کجا متوسط طبقے کے بس سے بھی باہر۔ معیشت کا پہیہ اگر رُکا نہیں تو چل بھی نہیں رہا۔ اِن حالات میں پوری قوم کو “ملک بچاؤ مہم” پر نکلنا چاہیے لیکن ہمارے رَہنماءابھی سیاست بچاؤ مہم پر نکلے ہوئے ہیں۔ نوازلیگ کا دعویٰ ہے کہ اُس نے ریاست بچانے کی خاطر اپنی سیاست داؤ پر لگادی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ مہنگائی کے اِس طوفان میں نوازلیگ کے ووٹ بنک کو بہت دھچکا لگاہے۔

عمران خاں نے اپنے ساڑھے تین سالہ دَورِحکومت میں تباہیوں اور بربادیوں کی داستانیں رقم کیں۔ سوال مگر یہ کہ کیا ملک وقوم کوسنبھلنے کا موقع مل پائے گا جبکہ تاحال عمران خاں کی سیاست کو سہارا دینے کے لیے کئی ملکی وبین الاقوامی قوتیں برسرِپیکار ہیں۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیلی مندوب کی انسانی حقوق کی آڑ میں عمران خاں کے حق میں تقریرنے اِس تاثر کو ہوادی ہے کہ عمران اور جمائماکی شادی اُس “گریٹ گیم” کا حصہ تھی جس کا ذکر ڈاکٹر اسراراحمد اور حکیم سعید کرتے رہے۔

عمران خاں کا دَورِ حکومت گواہ ہے کہ اِس تمام عرصے میں ملک وقوم کی بہتری کے لیے کوئی ایک کارنامہ بھی سرانجام نہیں دیاگیا۔ یہ بھی عین حقیقت کہ اِس دَور میں پاکستان کے کُل قرضے کا 75 فیصد حاصل کیا گیالیکن ترقیاتی کام ندارد۔ اِسی دَور میں آئی ایم ایف سے قرض وصول کرکے اُس کی شرائط کو جوتے کی نوک پر رکھا گیااور اقوامِ عالم میں پاکستان کو تنہا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ اِسی دَورمیں سی پیک پر کام بند ہوا اور چین جیسے مخلص دوست کو ناراض کیاگیا۔

سعودی عرب کی پاکستان سے دوستی کسی بھی شک وشبہ سے بالاتر ہے لیکن نہ صرف ولی عہدمحمد بِن سلیمان کے دئیے گئے تحفے بیچ کرناراض کیاگیابلکہ سعودی عرب کو تنہا کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ اب بشریٰ بی بی کی مبینہ ڈائری کے ہوشربا انکشافات سامنے آئے ہیں جن میں انکشاف ہوا کہ عمران خاں بشریٰ بی بی کے اشارہ ابرو کے منتظر رہتے تھے۔ تاریخِ پاکستان میں بشریٰ بی بی کی ڈائری اور سپریم کورٹ کا 11 اگست کا فیصلہ ہمیشہ تنقید کی زد میں رہے گا۔

بشریٰ بی بی کے اپنے ہاتھوں سے لکھی گئی مبینہ ڈائری یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ عمران خاں اُن کے مکمل قبضہ قدرت میں ہے۔ اِس ڈائری میں وہ عمران خاں کو سیاسی ڈکٹیشن کراتی نظر آتی ہے۔ وہ یہاں تک بتاتی ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی کس وقت کیا اور کیسی ہوگی، حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو کیسے دباؤ میں لاناہے اور عدلیہ، فوج اور حکومت پر کون کیسے اور کب دباؤ ڈالے گا۔

ڈائری میں جنرل قمرجاوید باجوہ کو “ماموں” کے کوڈ سے لکھا گیاہے۔ ڈائری کے مطابق اگر گورنر راج لگتا ہے تو شہر بند کرنے کی تیاری کی جائے اور اتنا پریشر بنایاجائے کہ کوئی نیگیٹو فیصلہ نہ دے پائے۔ پریشر دینے کا مطلب یہ کہ عدالت میں بہت سے لوگ ہونے چاہییں اور صبح سے عوامی فضا بنا دینی ہے کہ عدالت کوئی منفی فیصلہ نہ کرسکے۔ ڈائری میں عمران خاں کو مسلط فیصلے پارٹی قیادت سے چھپانے کی ہدایت ہوتی رہی اور کہا جاتا رہاکہ پہلے اعلان نہیں کرنااور پارٹی کو بھی نہیں بتاناکہ عمران خاں کتنے دنوں کے لیے آرہے ہیں۔

وکلاءکی ٹیم کو بھی بشریٰ بی بی باقاعدہ ہدایات دیتی رہی۔ اِس ڈائری میں اور بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے اور اگر اِس کے مندرجات درست ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ایٹمی پاکستان پر عمران خاں نہیں، بشریٰ بی بی 3 سال 8 ماہ 21 دن حکومت کرتی رہی۔ اِس ڈائری سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ 9 مئی کے واقعات کی پلاننگ یقیناََ بشریٰ بی بی نے ہی کی ہوگی۔ اُس کی سیاسی معاملات میں مداخلت کی گواہی تو جنرل قمرجاوید باجوہ بھی دے چکے۔ اِس کے علاوہ اُس کی لیک ہونے والی آڈیوزسے بھی ظاہر ہوتاہے کہ وہ سیاسی معاملات میں بھرپور مداخلت کرتی رہی ہے۔

کسی بھی خاتون کا سیاسی معاملات میں مداخلت یا مشورہ کوئی بری بات نہیں لیکن یہ مداخلت مثبت ہونی چاہیے منفی نہیں جبکہ بشریٰ بی بی کی ڈائری میں ساری سیاست منفی رویے اپنائے ہوئے ہے۔ مثلاََ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لانے کے طریقے اور عدالتوں میں بھرپور عوامی نمائندگی تاکہ ججز دباؤ میں رہیں۔ یہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا بھی رہا۔ اِس کے باوجود فیصلہ کُن گھڑی وہی ہوگی جب اِس ڈائری کے مندرجات کی مکمل انکوائری ہوگی اور یہ ثابت ہوجائے کہ یہ سب کچھ بشریٰ بی بی ہی کے ہاتھ کا لکھا ہواہے۔

11 اگست کو سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رُکنی بنچ نے 19 جون کو محفوظ کیاتھا اور جونہی اتحادی حکومت کا خاتمہ ہوافیصلہ سنا دیا گیا۔ اِس فیصلے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ میاں نوازشریف کی وطن واپسی کی راہ میں روڑے اٹکانے کی ایک کوشش ہے۔ میاں نواز شریف کو سیاست سے باہر رکھنے کے لیے ایک انتہائی متنازع فیصلے کے ذریعے سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے نااہل قراردیا۔

اِس کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 5 رُکنی بنچ نے آرٹیکل 62-1F کے تحت تاحیات نااہل قرار دے دیا حالانکہ اِس آرٹیکل میں نااہلی کی مدت کا تعین بھی نہیں کیاگیا۔ تاحیات نااہلی والا بنچ بھی ہم خیال ہی تھا کیونکہ فیصلے کے وقت جسٹس سجاد علی شاہ موجود ہی نہیں تھے۔ یہ فیصلہ موجودہ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے تحریرکیا۔ طُرفہ تماشا یہ کہ فیصل واوڈا تاحیات نااہلی کیس میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ہی تاحیات نااہلی کو ظالمانہ قانون قرار دیتے ہوئے نااہلی کی مدت 5 سال کر دی تھی۔ گویا فیصل واوڈاکی تاحیات نااہلی ظالمانہ اور میاں نوازشریف کی تاحیات نااہلی بالکل درست، جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ویسے سابق وزیرِقانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق اِس فیصلے سے میاں نوازشریف کے انتخابی اکھاڑے میں اُترنے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ الیکشن ترمیمی ایکٹ میں نااہلی کی مدت پہلے ہی 5 سال قرار دی جاچکی ہے۔ عرفان قادر کے خیال میں اِس فیصلے میں کئی آئینی سقم ہیں اور سب سے بڑا سقم تو یہ ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت یہ بنچ ہی غیرآئینی ہے، اِسی وجہ سے مستقبل کے چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اور جسٹس طارق مسعودنے 9 رکنی بنچ میں بیٹھنے سے انکار کردیا تھا۔ گویا پاکستان کا سیاسی مستقبل مخدوش اور “ہوکر رہے گا کچھ نہ کچھ”۔

Facebook Comments

پروفیسر رفعت مظہر
" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی بات قطر کے پاکستان ایجوکیشن سنٹر (کالج سیکشن)میں ملازمت کی آفر ملی تو ہم بے وطن ہو گئے۔ وطن لوٹے تو گورنمنٹ لیکچرار شپ جوائن کر لی۔ میاں بھی ایجوکیشن سے وابستہ تھے ۔ ان کی کبھی کسی پرنسپل سے بنی نہیں ۔ اس لئے خانہ بدوشوں کی سی زندگی گزاری ۔ مری ، کہوٹہ سے پروفیسری کا سفر شروع کیا اور پھر گوجر خان سے ہوتے ہوئے لاہور پہنچے ۔ لیکن “سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں“ لایور کے تقریباََ تمام معروف کالجز میں پڑھانے کا موقع ملا ۔ زیادہ عرصہ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور میں گزرا۔ درس و تدریس کے ساتھ کالم نویسی کا سلسلہ بھی مختلف اخبارات میں جاری ہے۔ . درس و تدریس تو فرضِ منصبی تھا لیکن لکھنے لکھانے کا جنون ہم نے زمانہ طالب علمی سے ہی پال رکھا تھا ۔ سیاسی سرگرمیوں سے ہمیشہ پرہیز کیا لیکن شادی کے بعد میاں کی گھُٹی میں پڑی سیاست کا کچھ کچھ اثر قبول کرتے ہوئے “روزنامہ انصاف“ میں ریگولر کالم نگاری شروع کی اور آجکل “روزنامہ نئی بات“ میں ریگولر دو کالم “قلم درازیاں“ بروز “بدھ “ اور “اتوار“ چھپتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply